ہماری نسل کو طارق جمیل ساشے پیک ننھا پروفیسر حماد صافی نہیں چاہیے


”موبائل فون کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں پستول دینے سے زیادہ خطرناک ہے۔ موجودہ نئی نسل کی بداخلاقی کے پیچھے بھی یہی ایک فتنہ ہے“ ۔

”میں نے اینڈرائڈ یا کوئی بھی ٹچ موبائل استعمال ہی نہیں کیا“

ان دو جملوں پر غور فرمائیں اور سوچیں کہ اکیسویں صدی میں اس قسم کی گفتگو کو ”نارمل گفتگو“ تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اس سے بڑی عجوبے والی بات یہ ہے کہ اس قسم کی گفتگو ”نسٹ“ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارم پر وہاں پڑھانے والے اساتذہ کے سامنے کی گئی ہے، اس سے بڑھ کر کے عجوبہ یہ ہے کہ جس بندے کے یہ خیالات ہیں اسی کی ایک تصویر جس میں اینڈرائیڈ فون اس کے ہاتھ میں ہے جس پر موصوف انتہائی انہماک کے ساتھ کچھ دیکھنے میں مصروف ہیں اور سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا ہے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔

یہ تصویر ہمارے منافقانہ رویوں کی ترجمان ہے جو ہم نے زبردستی اپنی نسلوں پر عائد کیے ہیں۔ یہ تصویر ایسے گھٹن زدہ معاشرے کی آئینہ دار ہے جہاں ڈر ڈر کے جینا سکھایا جاتا ہے اور زبردستی ایک نارمل انسان کو فرشتہ بنانے کی پریکٹس کروائی جاتی ہے اور ان فرشتہ نما انسانوں کو جب کبھی تھوڑی سی بھی تنہائی میسر آتی ہے تو چپکے چپکے لبادہ فرشتہ اتار کر پورنوگرافی کی حیرت انگیز دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایسے عجوبے اس قسم کے عجوبستان میں معمول کی بات ہیں جہاں منافقت اور دوہرے رویے سکھانے کا بندوبست بچپن سے شروع کر کے باقاعدہ اسے نصاب کا حصہ بنا دیا جاتا ہے اور اس قسم کی ”ہائبرڈ“ نسل تیار کی جاتی ہے جو اپنی ذات کا حقیقی سچ کبھی بھی اپنی زبان پر نہیں لا پاتے یا لانے کی اجازت نہیں دی جاتی، کچھ بھی کہہ لیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انہیں ذہنی طور پر مفلوج کر کے چند روایات و شخصیات کا اسیر بنا دیا جاتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں۔

پیشگی بتانا ضروری ہے کہ یہاں ہائبرڈ سے مراد ایک بچے کی نیچر سیلف کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بے رحمی سے کچل کر چند روایات و شخصیات کا اسیر بنا کر ایک روبوٹ نما فرد میں تبدیل کرنا ہے اور نجانے کب سے وطن عزیز میں یہ چکر چل رہا ہے کون جانے؟ اب سسپنس کو ختم کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ اس گفتگو کا خالق ننھا پروفیسر حماد صافی ہے، جسے ہم جونیئر طارق جمیل کہہ سکتے ہیں کیونکہ دونوں کے خیالات کی نرسری ایک ہی ہے اور دونوں ہی نئی نسل کے ہاتھوں سے جدید دور کے جدید علمی اوزار جو انہیں خود سے سوچنا سکھاتے ہیں چھین کر صدیوں پرانا مخصوص فکری نصاب تھما کر ”سہ روزہ یا چلوں“ تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پروموٹرز اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں اور اپنی نسل کے ساتھ کس قسم کا کھلواڑ اور علمی خیانت کر رہے ہیں؟

جن بیساکھیوں کے سہارے آپ آج کی نسل کو چلانا چاہ رہے ہیں کیا یہ عارضی بندوبست انہیں نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر پائے گا؟ یہ اس نسل کے ساتھ کیسا کھلواڑ ہے کہ جہاں کھڑے ہو کر ایسے لوگوں کو لیکچرز دینے کی دعوت دینی چاہیے تھی جو دنیا بھر میں سائنس و ٹکنالوجی کے ایکسپرٹ جانے جاتے ہیں تاکہ یہ نسل بھی دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدید تقاضوں سے مصافحہ کر کے خود کی تعمیر کرنے کے قابل ہوں مگر ہم ان کے سامنے طارق جمیل، احمد رفیق اختر اور حماد صافی کو کھڑا کر کے ان کی برین واشنگ اور ان ڈاکٹری نیشن کر کے ”پر“ کاٹنے میں مصروف ہیں۔

ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے کیوں عاری ہیں کہ مذہب یا عقیدہ ہر انسان کا انتہائی نجی معاملہ ہوتا ہے اور اس کی پریچنگ پلیس مساجد ہوتی ہے پبلک یونیورسٹیاں نہیں۔ اور ایسے لوگوں کے مانولاگ کے لئے یونیورسٹیز کا روسٹرم نہیں بلکہ مساجد کے ممبر ہوتے ہیں اور ان کے مخاطب مقتدی ہوتے ہیں نا کہ یونیورسٹی کے طلباء۔ دونوں کی الگ الگ ڈومین ہے محراب و ممبر میں جتنی مرضی تبلیغ کریں کوئی حرج نہیں مگر یونیورسٹی میں طلبہ جدید علوم جو انہیں اس دنیا میں جینے کا نیا ڈھنگ دیتے ہیں وہ سیکھنے آتے ہیں۔

خدارا اس ملک کے ”حماد صافیوں“ کا ذہنی اغوا کر کے ان کے تخلیقی پر مت کاٹیں، انہیں خود اڑ کر اپنا اپنا تخلیقی جہان ڈھونڈنے دیں۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک حماد صافی کو ”ننھا پروفیسر“ بنا کر انتہائی بے رحمی اس کے پر کاٹ کر یونیورسٹی کے روسٹرم پر اس لیے بلایا گیا ہے کہ ”وہ نئی نسل کو اڑنا سکھائے“ ۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ جس کے خود کے پر کاٹ دیے گئے ہوں وہ اپنے جیسے دوسروں کو اڑنا کیسے سکھا سکتا ہے؟ سوشل کنڈیشننگ کر کے جسے فکری بونا بنا دیا گیا ہو وہ بھلا دوسروں کو نئی سوچ کیسے عطا کر سکتا ہے؟

روایتی ناپ تول کے پیمانوں کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے کیا کبھی احساس گناہ و ندامت یا خوف کے اثر سے باہر نکل سکتے ہیں؟ بھلا یہ انسان نما فرشتے اپنی حقیقی زندگی سے لطف اندوز کیسے ہو سکتے ہیں؟ موجودہ وقت کی ضرورت سائنٹیفک برین ہیں جو اس کرہ ارض پر موجود لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دکھوں کا مداوا عملی بنیادوں پر کر سکیں۔ پریچنگ یا مذہبی برین میں تو ہم پہلے ہی خود کفیل ہیں اور ان کی انسانی دکھوں میں مداوا یا کمی کرنے کی کنٹری بیوشن بھی زیرو ہے بلکہ یوں کہہ لیں تو حقیقت کے زیادہ قریب چلے جائیں گے کہ انسانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے اور ایک دوسرے کو دائرہ مذہب سے نکالنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

یہ بات کسی سے نفرت یا تعصب کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا بلکہ انسانی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے۔ ہمارے سماجی پنڈتوں نے یہ کیسا گورکھ دھندا یا سماجی بندوبست تشکیل دیا ہے جو ایک خاص حد سے آگے بڑھ کر سوچنے کی اجازت نہیں دیتا؟ دریافت اور تجسس والی عمر کے حصے کو روایتی دائروں میں قید کر کے اور احساس گناہ میں مبتلا کر کے اور تخلیقی صلاحیتوں کو انتہائی بے رحمی سے کچل میرے ملک کے حماد صافی کو ننھا پروفیسر بنا کر ایک رول ماڈل کے طور پر نئی نسل کے سامنے پیش کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے؟ ہماری نسل کو نارمل گنہگار قسم کے تخلیقی ایکسپرٹ جو اپنی اپنی فیلڈ میں اوج کمال پر ہوں وہ چاہئیں ناکہ فرشتے جو گناہ کی لذت سے ہی نا آشنا ہوں، گناہ گار ہی تو وہ ہستیاں ہوتی ہیں جنہیں ہم ”سالٹ آف دی ارتھ“ کہتے ہیں جو زندگی کے سب ذائقوں کو بے خوفی اور گناہ و ثواب سے بے نیاز ہو کر چکھتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو نئے زاویوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اوریجنل میٹریل چاہیے نا کہ فرشتہ نما بناوٹی مٹیریل۔ ڈاکٹر خالد سہیل ان تخلیقی اذہان کے متعلق یہ پیش گوئی کرتے ہیں۔

نئی کتاب مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
روایتوں کے کھلونوں سے دل نہ بہلے گا
بغاوتوں سے منور شباب چاہیں گے
حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا
ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے۔

اس لیے نئی نسل کو کھل کر وہ سب کرنے دیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشیں اور حد نظر سے آ گے دیکھنے دیں تاکہ ان کے آ گے کا منظر ان پر بغیر کسی مداخلت کے واضح ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments