ون یونٹ ٹوٹنے کی گولڈن جوبلی


پاکستان اپنے قیام کے وقت ایک ایسا انوکھا ملک تھا، جس کا ایک حصہ باقی حصوں سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ وہاں جانے کے لئے آپ کو ہندوستان کے اوپر پرواز کر کے جانا پڑتا تھا۔ جب ہندوستان سے زیادہ تعلقات خراب ہوتے تھے تو اور بھی لمبا فضائی روٹ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اندرونی معاملات اور بھی پیچیدہ تھے، مغربی حصے کے سیاستدان جمہوری اصولوں کے مطابق مشرقی حصے کو اس کا جائز حق دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ ہندوستان کے مقابلے میں اپنی ایک واحد شناخت بنانے کے چکر میں اکثریتی آبادی والے حصے کے لئے بھی ایک ہی زبان کو قومی زبان بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اور وہاں لسانی فسادات پھوٹ پڑے۔

مغربی حصہ چار صوبوں پر مشتمل تھا اور وہاں بھی شروع سے سیاسی مسائل رہے۔ بنگال کے علاوہ بلوچستان سے بھی مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ بلوچستان کو افغانستان اور سرحدی صوبے سے الگ کرنے والی پٹی برطانوی حکومت کے زیر انتظام تھی۔ اور پھر وہ اضلاع تھے جو انضمام کے وقت خان آف قلات نے لیز پر دیے تھے۔ یہ سارے علاقے چیف کمشنرز کے کنٹرول میں تھے۔ 1947 سے پہلے مکران، لسبیلہ، خاران خود مختار حیثیت حاصل کر چکے تھے اور قلات کے ساتھ ملا کے انہیں بلوچستان اسٹیٹس یونین کہا جاتا تھا۔

عابد مستی خاں کے بقول نہرو کو یہ خوف تھا کہ اگر پاکستان نے قلات وغیرہ کو خودمختار ریاستوں کا درجہ دے دیا تو ہندوستان کے راجواڑے اور ریاستیں بھی یہی مطالبہ کریں گے، اس لئے نہرو نے انگریزوں کے ذریعے قائد اعظم پر ایسا نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈلوایا جس کا قائد اعظم کو بے حد قلق تھا، اسی لئے انہوں نے اپنے زندگی کے آخری ایام زیارت، بلوچستان میں بسر کیے۔

جہاں تک مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان تفاوت کا مسئلہ تھا، حکمرانوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ مغربی حصے کے چاروں صوبوں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے ون یونٹ بنا دیا۔ ہسٹری پاک ڈاٹ کوم کے مطابق ”اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے اس بارے میں بحث کا آغاز کیا۔ اس وقت کے لیڈروں کا خیال تھا کہ یوں مشرقی پاکستان کی شکایات کا ازالہ ہو جائے گا“ ۔ اور مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان مساوات قائم ہو جائے گی۔ تیس ستمبر کو اسمبلی میں ون یونٹ کے حق میں بل پیش کیا گیا۔ لاہور کو ون یونٹ کا دارالحکومت بنایا گیا۔ ون یونٹ کے زمانے کو سندھ کا تاریک دور قرار دیا جاتا ہے۔

یکم جولائی 2022 کو عبدالخالق جونیجو کے ساتھ مل کے سندھ کے سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی نے ون یونٹ ٹوٹنے کی گولڈن جوبلی منائی۔ اس موقع پر پروفیسر اعجاز احمد قریشی کی کتابSindh Under One Unitکی رونمائی بھی کی گئی۔ اس کا سندھی سے ترجمہ عبدالملک سومرو نے کیا ہے۔ کتاب کا دیباچہ سندھ کے ذہین اور قابل فرزند شہاب استو نے تحریر کیا ہے۔ ”گو کہ ہمیں یہی پڑھنے کو ملتا ہے کہ ون یونٹ کی تخلیق کے پیچھے چوہدری محمد علی، نواب مشتاق گورمانی اور گورنر جنرل غلام محمد کا بدنام ٹرائیکا تھا لیکن ایوب خان اپنی خود نوشت میں چار اکتوبر 1954 کو لندن کے ایک ہوٹل میں اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے ون یونٹ کی اسکیم اپنے ذہن میں تیار کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ سندھی سیاستدان بھی ون یونٹ کے حق میں تھے۔“

اس کتاب میں ان پینتیس شخصیات کا بھی ذکر ہے جنہوں نے ون یونٹ کے خاتمے کے لئے جد و جہد کی۔ ان میں یوسف لغاری، جام ساقی، مسعود نورانی، عمر میمن، حمید سندھی، منیر چنہ، جی این مغل اور دیگر نام شامل ہیں۔ ون یونٹ کے خلاف مہم کا مقصد سندھ کے سیاسی تشخص اور تاریخی اور خودمختار مرتبے کو بحال کرنا تھا۔ ان کی جدوجہد صرف ون یونٹ کے خاتمے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اثر ملکی صورت حال پر بھی پڑا اور ایک نئی سیاسی قیادت ابھر کر سامنے آئی۔

اس ساری جدوجہد پر سندھی قوم پرستی کی بالادستی رہی لیکن سوشلسٹوں، کمیونسٹوں، جمہوریت پسندوں یہاں تک کہ کچھ محب وطن مذہبی عناصر کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ یہ تحریک سندھ میں زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوئی لیکن سب سے زیادہ طلبہ اس سے متاثر ہوئے۔ اگر اس دور کو طلبہ سیاست کی پیدائش کا زمانہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس زمانے میں ساری دنیا میں کیمپس کی سیاست ابھر کر سامنے آ رہی تھی۔

سندھ میں ون یونٹ کی مخالفت کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں :

٭زمینیں : کوٹری بیراج کے پاس غیر سندھیوں کو زمینوں کے وسیع رقبے بلا معاوضہ یا بہت کم قیمت پر دیے گئے۔ ٭سروسز: سول اور ملٹری سروسز میں پنجابی اور اردو اسپیکنگ بیورو کریٹس کو بالا دستی حاصل تھی۔ ٭ڈیویلپمنٹ:ون یو نٹ بننے کے بعد سندھ کے دیہی علاقوں کی ترقی کو نظر انداز کیا گیا۔ ٭ہیریٹیج اور ثقافت: سندھ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے مگر ون یونٹ کے دوران اس کے تہذیبی ورثے اور ثقافت کو نظر انداز کیا گیا۔

٭تعلیم: تقسیم ہند سے قبل سندھ معیاری تعلیم کے لئے مشہور تھا۔ حیدرآباد، کراچی اور شکارپور جدید تعلیم کے لئے مشہور تھے۔ لیکن ون یونٹ کے دوران تعلیمی انحطاط دیکھنے میں آیا۔ ٭پانی: تقسیم سے پہلے پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کا معاہدہ موجود تھا۔ اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے سندھ پر نئے بیراج، ڈیم اور نہریں بنا کر سندھ کا پانی روکا گیا۔ ٭سرکاری ملکیت والے ادارے :اہم ادارے جیسے PIDC، ADC، PCIC، WAPDA اور پاکستان ریلوے کے ہیڈ کوارٹرز پنجاب میں بنائے گئے۔

یوں سندھیوں کو کم نمائندگی ملی۔ ٭اقتصادی پالیسیاں : ون یونٹ کے دوران بنائے جانے والی پالیسیوں کی وجہ سے صنعتی، کاروباری اور مالیاتی دولت غیر سندھیوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گئی۔ ٭شناخت:سندھ کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ٭زبان: سندھی زبان دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اردو کو سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم بنایا گیا۔ ٭سیاسی حقوق اور آزادیاں :ون یونٹ غیر جمہوری۔ جابرانہ اور مرکزیت پسند تصور کی پیداوار تھا، اسے مسلط کر کے سیاسی آزادیوں کو کچلا گیا۔ ٭سیٹلمنٹس:اس کتاب میں اعداد و شمار سے ثابت کیا گیا ہے کہ پالیسی کے تحت سندھ کے شہری مراکز میں غیر سندھیوں کو بسایا گیا۔

سندھ میں ون یونٹ مخالف مہم کو دانش کا نیا جنم بھی کہا جا سکتا ہے۔ مزاحمتی ادب ابھر کر سامنے آیا۔ خاص طور پر شیخ ایاز کی شاعری نے سندھی ادب میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ رسول بخش پلیجو نے سندھ کے پسے اور کچلے ہوئے ہاریوں کو منظم کیا۔ انہوں نے جمہوری، سیکولر اور سوشلسٹ سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ وہ سندھی ادب کے ایک اہم اسکالر، نقاد اور ادیب بھی تھے۔ اس دور کے ایک اور اہم ادیب اور شاعر آغا سلیم تھے جنہوں نے نوجوانوں کو متاثر کیا اور ون یونٹ مخالف تحریک کو آگے بڑھایا۔ سائیں جی ایم سید کو سندھ کی سب سے قد آور شخصیت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ انہوں نے اپنی زندگی سندھ کے حقوق کے لئے وقف کر دی۔ وہ ون یونٹ مخالف مہم کا اہم ترین ستون تھے۔

ون یونٹ مہم کے خاتمے کے لئے شیخ عبدالمجید سندھی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایک اہم اور داستانوی ہیرو کا درجہ رکھنے والا کردار حیدر بخش جتوئی کا تھا جو کسانوں کے رہنما تھے۔ انہوں نے سندھ میں کسانوں کی مزاحمتی تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ وہ ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں بھی پیش پیش رہے۔

محمد ابراہیم جویو نے سیکریٹری سندھ ادبی بورڈ اور سہ ماہی مہران کے ایڈیٹر کی حیثیت سے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس کتاب میں سوبھو چند گیانی کا بھی مختصر سا ذکر ملتا ہے جو ایک لیجنڈری مارکسی اور سندھ میں محنت کش طبقے کی سیاست کے ممتاز رہنما تھے۔ اس کے علاوہ سائیں فیض محمد قاضی کا بھی مختصر ذکر ملتا ہے۔ یہ کتاب پیکاک پبلشرز نے چھاپی ہے۔

ون یونٹ کے خاتمے کی گولڈن جوبلی کے جشن سے راقم الحروف سمیت سولہ مقررین نے خطاب کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھنا چاہیے۔ کیسے مشرقی حصے کی حقوق تلفی کی گئی، بلوچستان کے ساتھ کیا ہوا۔ کیسے مسلم لیگ کی لاہور قرارداد میں پہلے STATES کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اور پھر دہلی میں ہونے والی مسلم لیگ کی میٹنگ میں اسے بدل کے STATE کر دیا گیا۔ شرکا کو بتایا گیا کہ اس وقت بھی سندھ اسمبلی میں جو جی ایم سید کی پیش کردہ قرارداد آویزاں ہے، اس میں STATES کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے۔

شہاب استو نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ون یونٹ مخالف مہم نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے مختلف سیاسی رہنماؤں، اکیڈمکس، طلبہ، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں کو اکٹھا کر دیا تھا، جن میں بڑی تعداد میں پنجاب کے ترقی پسند اور جمہوریت نواز حلقے بھی شامل تھے۔ ون یو نٹ مخالف مہم ایوب حکومت کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا حصہ بن گئی اور محنت کش طبقہ، طلبہ، انٹیلیجینسیا، اور ملک بھر کے سیاسی رہنما اس میں شامل ہو گئے۔

میں آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ یہ جس دور کا ذکر ہے، وہ ہمارا زمانہ ء طالب علمی تھا اور ہم نے پہلے ساحر کی شاعری پڑھ کر اور پھر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ جڑ کر انقلاب کے خواب دیکھے تھے۔ اس وقت تک تو یہی لگتا تھا کہ انقلاب پاکستان کی دہلیز پر کھڑا ہے مگر ایسا نہ ہوا اور ہم بہت عرصہ تک ماتم یک شہر آرزو میں لگے رہے۔ اور اب جو کچھ ہو رہا ہے اسے ناچار دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments