پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی تنظیم سازی کا عمل


پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب سے تعلق رکھنے والے عہدے دار ہوں یا ورکرز جیالے ان سب کو اب سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم کارگردگی میں سندھ سے پیچھے کیوں ہیں؟ اکثر عہدے دار یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ سندھ میں اپنی حکومت ہونے کی وجہ سے وہاں کی تنظیموں اور عوام کا رابطہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے کام کروانے میں آسانی ہوتی ہے۔ تو کچھ کا کہنا یہ ہے کہ اعلی قیادت نے پنجاب کے حوالے سے دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے۔

لیکن اگر ایک سیاسی بصیرت و سمجھ شعور رکھنے والا کوئی بھی ورکر یا جیالا ہو گا تو وہ ان دونوں باتوں سے اختلاف رکھے گا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اعلی قیادت نے اگر پنجاب کو خالی چھوڑ دیا ہے اور اس بارے میں دلچسپی نہیں لیتی تو اس کو حالیہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے کے بعد پنجاب سے بھی پی ٹی آئی کا صفایا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بار بار یہ کیوں کہا کہ پہلے پنجاب میں سی ایم کے خلاف عدم اعتماد کرتے ہیں پھر وفاق کی راہ ہموار ہو گی۔

پنجاب میں دلچسپی ہے اسی لئے تنظیم کو ختم کر کہ دوبارہ نئی تنظیم بنائی جس کے صدر راجا پرویز اشرف منتخب ہوئے۔ ابھی پنجاب کے صدر راجا پرویز اشرف صدر بننے کے بعد اسلام آباد سے ہی نہیں نکلے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد جو مشترکہ حکومت بنائی گئی اس میں ان کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنوا دیا گیا اس طرح جس کو اعلی قیادت نے ٹاسک دیا کہ وہ پنجاب میں تنظیم سازی کے عمل کو پورا کرے وہ بھی وفاق کو پیارے ہو گئے اور سارے عمل درمیان میں ہی رک گئے

پنجاب کے صدر کو قومی اسمبلی کا سپیکر بننا ان پر کافی سوالیہ نشان لگا گیا کہ جس وقت میں ان کو پنجاب میں تنظیم سازی کا عمل پورا کرنے کے لئے اور جیالوں ورکرز سے رابطے کرنے کے لئے ٹاسک دیا گیا عین اسی وقت انہوں نے سرکاری عہدہ لینے کو بھی ترجیح دی۔ اس پر کچھ لوگ کہیں گے کہ اعلی قیادت کی مرضی سے عہدہ لیا۔ لیکن اگر ان کو پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کو مضبوط کرنا ہوتا تو سرکاری عہدہ لینے کی بجائے یہ عوامی رابطے کو ترجیح دیتے اور سرکاری عہدے کے لئے کسی اور کو موقع فراہم کر دیتے۔

لیکن یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ کچھ لوگ کہیں گے عہدہ لے کر پنجاب کے ورکرز جیالوں کے دیرینہ مسائل حل کیے جائیں گے تو یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ سرکاری عہدے لینے کے بعد انسان عوامی رابطے سے مکمل بائیکاٹ کر جاتا ہے۔ ہاں اگر کسی کے کام ہوں گے تو وہ صرف ان کے جن کو اسمبلی ہال میں جانے کی اجازت ملے گی یا جن کا ان کے ساتھ رابطہ ممکن ہو گا۔ دوسرے شہروں میں رہنے والا ننگ پیری جیالا ورکر اسلام آباد لاہور کا کرایہ کہاں سے لائے گا اور اگر پہنچ بھی جائے گا تو ملاقات ہو ممکن نہیں؟

سپیکر شپ لینے کے بعد ان کو چاہیے تھا پنجاب کی صدارت کے لئے کسی کو نامزد کرتے لیکن مسلسل عہدہ خالی ہونے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کا گراف دن بدن پھر نیچے کی طرف جا رہا ہے جس کی ذمہ دار اعلی قیادت نہیں پنجاب کی ٹوٹل قیادت ہے جو اچھے اور برے میں فرق واضح نہیں کرتے۔ یہ باتیں بہت سادہ لفظوں میں کہی جا رہی ہیں کچھ دوست اس پر ناراضگی کا اظہار بھی کریں گے لیکن ہر ورکر جیالے دوست کو ذاتی تعلقات سے نکل کر اپنے اپنے حلقوں شہروں ضلعوں اور محلوں کی بات کرنی چاہیے اور اعلی قیادت کو کوشش کر کہ آگاہ کرنا چاہیے۔

کیونکہ جو حالات ہیں آپ ذاتی تعلقات نبھا لیں یا پارٹی سے وفاداری۔ پنجاب میں پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کا سارا ووٹ بنک شریف خاندان کی نفرت میں پی ٹی آئی کو ٹرانسفر کیا گیا لیکن ہم اپنے ان ووٹرز کو ایک جگہ اکٹھا کر کہ ان کو سمجھانے میں بھی فیل ہوئے کہ پی ٹی آئی کا نظریات کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب مقامی قیادت یہاں بھی صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ جن کی پارٹی ہے وہ ہی پنجاب میں دلچسپی نہیں لے رہے لیکن یہ پنجاب کی مقامی قیادت کا منہ بولتا ناکامی کا ثبوت ہے۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جب جب پنجاب کا رخ کیا عوامی سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نکلا ان کو پیار دیا لیکن ان کے جانے کے بعد مقامی قیادت نے اسی عوام سے دوبارہ رابطہ منقطع ہی رکھا جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے پر آنے والے اور خوشی و غمی میں شریک ہونے والوں کو ترجیح دی جس کی وجہ سے ہم پنجاب میں مزید پستی کا شکار ہوئے۔ حالات یہ ہیں کہ پنجاب میں جو لوگ پی ٹی آئی سے نالاں ہوئے اب ان کی نظریں خلائی مخلوق کے بنائے دوسرے گروپ کی طرف ہے جس کو تحریک لبیک کا نام دیا گیا۔

پنجاب میں بہت واضح طور پر نوجوان لوگوں کا رخ ان کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے جو آنے والے وقت کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے لئے مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کو چاہیے کہ پنجاب کی تنظیم سازی کا عمل جلد از جلد مکمل کریں کیونکہ پنجاب میں ان کے پاس چوہدری منظور جیسے قابل انسان موجود ہیں جن کو فی الحال ایک کارنر میں لگا رکھا ہے۔ ان کی پارٹی کے لئے خدمات کو اگنور نہیں کیا جا سکتا تو دوسری طرف مخدوم فیصل صالح حیات بھی موجود ہیں جن کا اعلی قیادت سے اچھا تعلق ہونے کے ساتھ پنجاب میں اثر رسوخ بھی ہے۔

لیکن کچھ جیالے جو اعلی قیادت کو گالیاں دینے والے لوٹوں کی واپسی پر تو خوشی منا لیتے ہیں یا پنجاب میں زرداری صاحب کا دفاع نہ کرنے والوں کو تو لیڈر مان لیتے ہیں لیکن وہ مخدوم فیصل صالح حیات کے صدر بننے پر اعتراض رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ قاسم ضیاء، ندیم افضل چن، پلوشہ خان، مصطفی نواز کھوکھر کے نام بھی زیر غور کیے جا سکتے ہیں۔ پنجاب کے جیالوں اور ورکرز کو فی الحال مقامی قیادت کے عہدے داروں سے اپنے ذاتی تعلقات کو سائیڈ پر رکھ کر پارٹی کا سوچیں۔

پنجاب کے حوالے سے جو لوگ قیاس آرائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اب آصفہ بھٹو زرداری کو پنجاب لیڈ کرنے کے لئے یہاں بٹھا دیا جائے تو لوگوں کا پارٹی کی طرف رجحان ہو گا تو یہاں ان لوگوں سے بھی اختلاف کروں گا کہ پہلے دس سے بارہ سال میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لئے پنجاب کی قیادت نے کون سی محنت کی ہے خو اب اپنی ناکامیوں کو آصفہ بھٹو زرداری کا نام لے کر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ بلاول بھٹو زرداری کو چاہیے کہ پنجاب کے معاملات میں ذاتی دلچسپی لیں اور پنجاب کے صدر کا جلد از جلد انتخاب کریں اور ہر ضلع و سٹی کی تنظیم کو مکمل ٹاسک دیا جائے کام نہ کرنے والے کو فارغ کر کہ بلاول بھٹو زرداری اپنی عمر کے جیالے ورکرز کو ذمہ داری دیں۔ پرانے جیالوں کے پڑھے لکھے بچوں کو عہدوں پر فائز کر کے ان سے کام کروایا جائے۔ انشاءاللہ بدلہ ہے سندھ بدلیں گے پنجاب اور بدلیں گے سارا پاکستان  جئے بھٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments