آئی ایم ایف کا بجٹ


بالآخر موجودہ حکومت نے وفاقی بجٹ 2022۔ 23 منظور کر ہی لیا اس کی منظوری کی راہ میں پی ٹی آئی حائل تھی اور نہ ہی ”سرکاری“ اپوزیشن پھر بجٹ کی منظوری تک حکومت پریشان پریشان رہی۔ سیاسی و معاشی حلقوں میں اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا گیا ہے چونکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ اس لئے اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دینا بجا ہے۔ بجٹ کی منظوری پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اظہار تشکر کیا ہے کہ ”پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے۔“

لیکن وہ اس حقیقت کو بھی بخوبی جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے 22 ویں پروگرام کے حصول نے پاکستان کے عوام کو دیوالیہ کر دیا ہے گو کہ پہلی بار بجٹ میں امرا اور بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس عائد کر دیا ہے لیکن پٹرول، تیل، بجلی اور بجلی کی قیمتوں اضافے نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہے۔ اس میں عمران خان کی حکومت کس حد تک ذمہ دار ہے۔ اس بارے میں یہ الگ بحث ہے لیکن مہنگائی کے طوفان نے جہاں موجودہ حکومت کا صاف ستھرا چہرہ داغدار کر دیا ہے۔ وہاں غریب آدمی کے چہرے کی مسکراہٹ بھی چھین لی ہے۔ عمران خان حکومت کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں نے موجودہ حکومت کو لہو لہان کر دیا ہے۔ عام خیال تھا کہ شہباز شریف حکومت ملک کی بگڑتی معاشی صورت حال میں ہتھیار ڈال دے گی اور راہ فرار اختیار کر لے گی لیکن شہباز شریف نے اپنی جماعت کی مقبولیت داؤ پر لگا کر موجودہ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کا چیلنج قبول کر لیا ہے۔ لہذا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت آئندہ ڈیڑھ دو ماہ میں جانے والی نہیں اگست 2023 تک قائم رہے گی۔ دوسری طرف عمران خان بھی تاحال میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کا راستہ نہیں بھولے ان کی منزل ریڈ زون ہی ہے۔

پچھلے 74 سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عوام نے کبھی کسی بجٹ کو ”عوام دوست“ نہیں کہا بلکہ اسے امرا اور عوام دشمن بجٹ ہی کہا اب تو اسے آئی ایم ایف کا بجٹ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس میں بڑی حد تک صداقت پائی جاتی ہے کہ موجودہ بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کا بڑا عمل دخل ہے۔ وزیر خزانہ کو بار بار بجٹ کے اہداف میں نہ صرف ترامیم کرنا پڑیں بلکہ نئے ٹیکس عائد کرنا پڑے سرکاری ملازمین کو انکم ٹیکس میں دیا گیا ریلیف واپس لے لیا گیا بہر حال موجودہ حکومت کو عمران حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کی تکمیل کی صورت میں ایک اعشاریہ 9 بلین ڈالر کا قرض ملنا ممکن ہوا موجودہ حکومت کا موقف ہے۔

آئی ایم سے اس کی شرائط پر معاہدہ کرنا ہماری مرضی نہیں مجبوری ہے کیونکہ یہ سب کچھ پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ وفاقی بجٹ کی منظوری سے ایک روز قبل آئی ایم ایف سے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کے لئے میمورنڈم ایم ای ایف پی مل گیا ہے جس کے بعد ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کی دو قسطوں کے اجرا کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین سے 2 اعشاریہ 3 بلین ڈالر کا سافٹ قرض ملنے کی نوید بھی سنائی گئی تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے اسی طرح سعودی عرب سے بھی خبر آ گئی کہ وہ پاکستان کو تیل کی مد میں ادائیگی موخر کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے۔

اس کا فوری فائدہ یہ پہنچا کہ ڈالر کی قیمت نیچے آنا شروع ہو گئی گویا وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کو واقعی ”دیوالیہ“ ہونے بچا لیا ہے۔ انہوں نے اپنی 14 ماہ کی آئینی مدت میں اقتصادی خوشحالی لانے کے عزم کا اظہار تو کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے۔ وہ اپنے عزائم کی تکمیل میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ مفتاح اسماعیل کے اس دعوے میں بڑی حد تک صداقت پائی جاتی ہے۔ پاکستان ”دیوالیہ“ ہونے خطرات سے نکل آیا ہے۔

پاکستان ایک مقروض ملک ہے جس کی پوری معیشت کا دارو مدار قرضوں پر ہے۔ اسے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔ عمران حکومت نے اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں اب تک لئے گئے قرضوں کا 76 فیصد قرض لے لیا لیکن ملکی معیشت کو سنوارنے کی بجائے مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ عمران خان کو چھ ماہ قبل اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے۔ لہذا انہوں آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کر کے نہ صرف تیل، گیس اور بجلی پر سبسڈی ختم نہ کی بلکہ ان کی قیمتیں کم کر کر کے عوام میں ہیرو بننے کی کوشش کی اور آنے والی حکومت کے لئے اس قدر بارودی سرنگیں بچھا دیں کہ وہ لہو لہان ہو کر آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہو گئی معلوم نہیں وزیر اعظم شہباز شریف اپنی اکنامک ٹیم سے مطمئن ہیں کہ نہیں لیکن یہ بڑی خبر ہے۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار پانچ سالہ جلاوطنی ختم کر کے اپنے آپ کو قانون کی عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے پاکستان واپس آرہے ہیں۔ سینیٹر محمد اسحاق جنہیں ”اشتہاری ملزم“ قرار دے کر ان کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی تھی۔ اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنے کے لئے ماہ رواں میں پاکستان واپس آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کو پاکستانی پاسپورٹ مل گیا ہے۔ نواز شریف نے بھی انہیں پاکستان واپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔ گرفتاری پیش کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے سینیٹر کا حلف اٹھائیں گے۔

ان کو شہباز شریف حکومت میں اہم ذمہ داری سونپی جانے کا امکان ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ سینیٹر اسحاق ڈار ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے نا مساعد حالات بھی پاکستان کی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا تھا۔ انہیں اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ڈالر کی قیمت 100 روپے سے نیچے لانے کا شیخ رشید احمد کا چیلنج قبول کر لیا ڈالر کی قیمت 98 روپے تک آ گئی لیکن شیخ رشید احمد نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفاٰ نہیں دیا۔

وفاقی بجٹ 2022۔ 23 بآسانی قومی اسمبلی سے منظوری کے مراحل طے کر گیا قومی اسمبلی میں برائے نام اپوزیشن جو عملی طور حکومت کی بی ٹیم ہے۔ بجٹ کی منظوری کی راہ میں کیا رکاوٹ بنتی بہر حال مالی سال ختم ہونے سے ایک روز قبل بجٹ کثرت رائے سے منظور ہو گیا حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کو ایوان میں موجود رہنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ بجٹ کی کوئی شق نامنظور ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ تاہم ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔

حکومت نے بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو انکم ٹیکس کی مد میں ریلیف دیا تھا جو نہ صرف واپس لے لیا گیا ہے بلکہ ان پر نئی شرح سے انکم ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے اگرچہ پٹرولیم لیوی میں مرحلہ وار 50 روپے اضافہ کیے جانے منظوری لی گئی ہے لیکن 30 جون کی 2022 کی شب پٹرول پمپوں پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے خوف زدہ صارفین کی طویل قطاروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عوام پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے کس قدر پریشان ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں اضافے کے بعد پاکستان میں پٹرول کے استعمال میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔ وفاقی بجٹ جسے عرف عام میں آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جا رہا ہے۔ کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی اصل منزل خود انحصاری ہے لیکن اس کا سارا بوجھ غریب عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ نہ جانے کب تک حکومتیں عوام کو خود انحصاری کا سبز باغ دکھا کر ان کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments