ناول ”میرے بھی صنم خانے“ پر تبصرہ


بعض اوقات کسی چیز کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں تو پس منظر، الفاظ کے لکھنے کے مخصوص اوقات، اور امثال کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والا لکھاری کے احساسات سے آشنا ہو سکے ایسا ہی کچھ میں نے قرت العین حیدر صاحبہ کے ناول ”میرے بھی صنم خانے“ پر اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ چند لفظی تبصرہ کرتے ہوئے کیا ہے کہ ناول کی کہانی کو کم سے کم بیان کیا ہے تاکہ میں آپ کو اس کا مطالعہ کرنے پر اکسا سکوں اور آپ اس کی عظمت کو خود محسوس کر سکیں۔

اس کے علاوہ الفاظ صرف اردو کے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

آج یکم جولائی 2022 کی رات کا آخری پہر ہے۔ تین بج کر دس منٹ ہوئے ہیں۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور، تین گھنٹے کی ناکام کوشش کے بعد مایوس ہو کر سونے کا ارادہ ترک کرچکا ہوں۔ جب نیند کا پلو تھامنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ذہنی رو کو ماضی کی طرف گھمانا شروع کی اور یہ سفر ایک ایسی یاد پر جاکر ختم ہوا جو پانچ سال گزرنے کے باوجود ذہن کا ایک گوشہ سنبھالے بیٹھی ہے تو مجھ پر اب لازم ٹھہرا کہ اسے صفحہ قرطاس پر اتارا جائے۔

مجھے یقیناً اچھی طرح یاد ہے۔ میں تب نویں جماعت کا طالب علم تھا اور کتابیں پڑھنے ( اگر کتابوں کے لیے چاٹنے کو غیر ادبی لفظ نہ مانا جائے تو میں یہ لفظ استعمال کروں گا) کا شوق اپنے عروج پر تھا۔ تب میں اصل ( کلاسک ) اردو کے ادباء میں قرت العین حیدر کا نام تواتر سے سن رہا تھا تو ایک دن کسی ناول کے اختتام پر فیصلہ کیا کہ آج قرت العین حیدر کا کوئی ناول پڑھنا شروع کرنا ہے۔ سکول کی لائبریری پہنچا الماریاں کھولیں اور ڈھونڈنا شروع کیا کہیں نیچے سے ایک دیمک زدہ جلد میں لپٹا ناول برآمد ہوا جس کے سرورق پر نام پڑھا تو وہ تھا ”میرے بھی صنم خانے“ میں نے فوراً اسے لیا درج کروایا اور کمرہ جماعت میں بیٹھ کر ہی ورق گردانی شروع کردی لیکن شاید چند صفحات کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ ایسے پڑھنے والا ناول نہیں۔ پھر اس کے بعد گھر جاکر ہر روز فرائض پورے کر کے سب کے سونے کے بعد علیحدہ کمرے میں لحاف اوڑھ کر پوری توجہ کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا اور تب تک پڑھتا جب تک ماں جی کی روشنی کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی اور وہ ڈانٹتے ہوئے سونے کی نصیحت کرتیں بلکہ آ کر بلب بجھاتیں تو میں تکیے کے نیچے رکھ کر پڑھے ہوئے کو دہراتے سو جاتا۔ اب یاد نہیں پڑتا کہ کتنے دنوں میں مکمل کیا ہاں یہ یاد ہے کہ پڑھنے کے بعد مہینوں اس کے سحر میں بولایا پھرتا تھا۔ سوتے میں اس کے کردار ”پی چو، پولو، کرن، رخشندہ وغیرہ خوابوں میں آتے جبکہ جاگتے خیالوں میں رہتے۔

یہ اتنا پیچیدہ ناول تھا کہ اس کم عمری کے زمانہ میں دماغ کی چولیں ہلا ڈالیں لیکن میں بھی اسے گھول کر پی چکا تھا۔ ناول پڑھ کر مجھے قرت العین حیدر صاحبہ سے شدید قسم کا لگاؤ محسوس ہوا ( بچپن کے اس دور میں اسے عشق کا نام دیتے شاید شرم آتی ہوگی ) تقسیم کے تاریخی واقعے کو جس میں ”صرف علاقے یا دو قومیں ہی تقسیم نہیں ہوئی تھیں بلکہ خاندان کے افراد حتیٰ کہ ایک ہی فرد کا دل بھی دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ ایک جو پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ پیچھے رہ گیا جبکہ دوسرا جانے والوں کے ساتھ چلا گیا“ کو ایسے دردناک فسوں کے ساتھ بیان کیا ہے کہ مجھے جو تقسیم کے پچپن سال بعد پیدا ہوا اپنی ذات اس واقعے کی شاہد معلوم ہونے لگی قرت العین حیدر صاحبہ کے ناولوں میں بڑھتی ہوئے انسانوں کے درمیان دم توڑتی ( اس وقت توڑتی اب تو شاید توڑ چکی یا آخری چند ایک سانسیں لے رہی ) انسانیت و تہذیب کا نوحہ ملتا ہے۔

اصل ( کلاسک) اردو کی قبیل سے تعلق رکھنے والے والے دیگر ناولوں نے بھی جن میں ”اداس نسلیں، آگ کا دریا، علی پور کا ایلی“ وغیرہ شامل ہیں، سحر زدہ کیا لیکن میرے بھی صنم خانے شاید اس سلسلے کی ابتدا تھا تو اس لیے اس کے سحر کا اثر سب سے طاقتور تھا اور شاید میں اس سے کبھی نہ نکل سکوں اسی ناول میں پڑھا گیا ایک شعر آج بھی حرف بہ حرف یاد ہے اور کیا ہی خوب دل پہ نقش ہو جانے والا شعر تھا۔

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

اس شعر کے شاعر شاید رام نرائن موزوں صاحب ہی۔

اس وقت تو سوشل میڈیا سے آشنائی نہ تھی۔ اب جب میں سوشل میڈیا پر لوگوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ فلاں ادب کے فلاں ناول دنیا کی ادبی تاریخ کا اثاثہ ہیں لیکن اردو ادب کا کوئی ناول اثاثہ بننے کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو حیرانی اور ہنسی بیک وقت آتی ہے کہ کیا ان کو میرے بھی صنم خانے، آگ کا دریا جیسے ناول پڑھنے کے باوجود واقعتاً ایسے لگتا ہے جس محض احساس کمتری اس کی وجہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments