یوکرین جنگ: خندقوں سے تعلیم بھی اپنے طلبہ کو دیتے ہوئے اساتذہ

سوفی ولیمز - بی بی سی نیوز، کیئو


یہ یوکرین میں ایک عام سوموار کی صبح ہے اور فیدر شنڈور اپنی آن لائن کلاسز کے لیے لاگ ان کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی کے پروفیسر شنڈور وبائی مرض کے بعد سے ہی آن لائن پڑھا رہے ہیں لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے وہ اپنے طلبہ کو جنگی محاذ سے تعلیم دے رہے ہیں۔

47 سالہ شنڈور نے روسی حملے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے طلبہ کو تعلیم دینا جاری رکھنے کے لیے بے چین تھے۔

نتیجتاً وہ اب اپنے فون کے ذریعے خندقوں کے درمیان سے سیاحت اور سماجیات جیسے موضوعات پر ہفتہ میں دو بار کلاسز لیتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘میں گذشتہ 27 سال سے پڑھا رہا ہوں۔ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ میں اسی شعبے میں اچھا ہوں۔’

مسٹر شنڈور فروری میں روس کے حملے کے بعد سے فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی کیونکہ وہ اپنے ملک کے لیے لڑنا اور اپنی بیوی اور بیٹی کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے روسیوں کو میرے گھر آنے سے پہلے روکنا چاہیے۔’

مسٹر شنڈور کی اپنی ملازمت کے لیے لگن نے بھی ان کی کلاسز میں شرکت کی تعداد کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

ان کی ایک 20 سالہ طالبہ ایرینا کہتی ہیں: ‘یہاں تک کہ وہ طالب علم جو پہلے کلاسز چھوڑ دیتے تھے، ہر لیکچر میں شامل ہوتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ہمیں بتایا ہے کہ ہمیں سمارٹ ہونا پڑے گا، کہ ہم ایک سمارٹ قوم کے لیے لڑ رہے ہیں۔’

لیکن خندقوں سے پڑھانا آسان نہیں ہے کیونکہ طلبہ کو پس منظر میں گولہ باری سننے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔

وہ کہتے ہیں: ‘ایک کلاس کے دوران، آوازیں بہت تیز تھیں اس لیے طلبہ نے سب کچھ سنا۔ پھر میں خندقوں میں چھپ گیا لیکن پڑھانا جاری رکھا۔’

اپنے اردگرد کے ماحول کے ذریعے بھی وہ اپنے طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں مثال کے طور پر وہ انھیں چھرے یا گولیاں دکھانے اور مختلف قسم کے میزائلوں کے بارے میں سکھانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔

مسٹر شنڈور کی کلاسز ان کے ساتھی سپاہیوں کے لیے بھی ایک نئی چیز ہے، وہ اکثر ان کے لیکچرز کو دیکھتے ہیں اور دوران لیکچر ان کی تصاویر لیتے ہیں۔

ان میں سے ایک تصویر، جس میں انھیں خندق میں اپنا فون پکڑے دیکھا جا سکتا ہے، آن لائن پوسٹ کی گئی تھی جو پورے یوکرین میں وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد سے ملک بھر میں متعدد فنکاروں نے اس لمحے کی ڈرائنگ اور کارٹون بنائے۔

مسٹر شندور اس وقت فرنٹ لائن پر لڑنے والے واحد استاد نہیں ہیں۔ یوکرین کے وزیر تعلیم سرہی شکارلیٹ کے مطابق اب تک تقریباً 900 اساتذہ مسلح افواج میں شامل ہو چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘ہمیں ان میں سے ہر ایک پر فخر ہے۔ ہمارے یہاں وزارت تعلیم میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یوکرین کی مسلح افواج میں شامل ہوئے ہیں۔’

ایسے ہی ایک اینٹون تسیلووالنیک ہیں جو علاقائی دفاعی فوج میں شامل ہوئے ہیں۔

جنگ کے پہلے دو ہفتوں کے دوران ان کی کلاسز منسوخ رہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے سکول نے انھیں امداد کے لیے پیغام کرنا شروع کر دیا جن کے ساتھ وہ ماضی میں کام کر رہے تھے۔

42 سالہ اینٹون نے فوری طور پر علاقائی دفاعی اہلکاروں کے لیے خندقوں یا قریبی رہائش گاہوں میں کلاسز لینے کی بات کہی۔ کوئی بھی چیز انھیں کلاس لینے سے باز نہیں رکھ سکتی، خواہ وہ سرد موسم کی کیوں نہ ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بچوں کو پڑھانے کے بارے میں نہیں تھا، یہ بات کرنے اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کے بارے میں زیادہ تھا۔

‘آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بچے روزانہ سکول جاتے تھے اور پھر یہ اچانک بند ہو جاتا ہے۔’

وہ پرائمری سے لے کر ہائی سکول تک کے بچوں کو فن تعمیر کے بارے میں پڑھاتے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘اب سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ اپنے ماضی اور مستقبل کے درمیان تعلق قائم رکھیں۔ اب پڑھانا میرے لیے بھی ایسا ہی کچھ ہے۔’

ان کی ایک 17 سالہ طالبہ وکٹوریا وولکووا کہتی ہیں کہ کلاس کو اچھے موڈ میں رکھنے کے لیے مسٹر تسیلووالنیک کے لیکچر مزاحیہ انداز کے ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ بہترین قسم کا گریز ہے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے استاد اکثر کلاس کو اپنے ارد گرد کا ماحول دکھاتے ہیں۔ انھیں ان خندقوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن کی تعمیر میں انھوں نے مدد کی ہے اور ان جگہوں کے بارے میں جہاں وہ بیٹھ کر ستاروں کو دیکھتے ہیں۔

مز وولکووا مزید کہتی ہیں: وہ لیکچرز کے دوران بہت حساس اور خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ رائے مانگتے ہیں، موضوع کو ہمارے لیے دلچسپ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔’

میکسم کوزیمیاکا جیسے دیگر اساتذہ بھی فوج کی مدد کے لیے اپنی طبی مہارتیں استعمال کر رہے ہیں۔

زیپورززا سٹیٹ یونیورسٹی میں ٹراما میڈیسن کے 41 سالہ پروفیسر میکسم نے محسوس کیا کہ وہ شہر کے فوجی ہسپتال میں کام کر سکتے ہیں اور رضاکارانہ طور پر مدد کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔

لیکن وہاں کچھ دن کام کرنے کے بعد انھوں نے اپنے طلبہ کو پڑھانے کا طریقہ بھی دریافت کر لیا۔

انھوں نے بتایا: ‘ہم نے سوچا کہ ہم آن لائن کلاسز پڑھا سکتے ہیں۔ ‘ہم نے پہلے کووڈ کے دوران آن لائن تدریس کا تجربہ کر رکھا تھا۔’

یہ بھی پڑھیے

لیزر ہتھیار کیا ہیں اور کیا یوکرین جنگ میں ان کا استعمال کیا گیا؟

یوکرین میں پھنسا انڈین شہری جسے خود سے زیادہ اپنے ’درندوں‘ کی فکر ہے

وہ ملک جس کی صدیوں پرانی غیر جانبداری کو روس یوکرین جنگ نے بدل دیا

اور اس طرح جنگ کے پہلے دو ہفتوں کے چیلنجنگ دور کے بعد مسٹر کوزیمیاکا نے پڑھائی شروع کی اور اپنے طلبہ کو آن لائن پر ہی آپریشن کے طریقے سکھانے شروع کیے۔

وہ اپنے طلبہ کو اپنے گھروں سے بھی آپریشن میں حصہ لینے اور تبصرہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے لائیو کلاسز اور اضافی حقیقت کا مرکب استعمال کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’ہم نے نوجوان ڈاکٹروں اور طالب علموں کو جنگی زخموں سے نمٹنے کا طریقہ سکھایا ہے۔‘

درینا بویستا نے مسٹر کوزیمیاکا کی کلاسز میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب سے انھوں نے دوبارہ کلاسز شروع کی ہے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘اب میں آپریٹنگ ٹیبل پر ہونے والی ہر چیز کو سمجھتی ہوں۔ میکسم اپنے آن لائن لائیو آپریشنز کے دوران ہر چیز کی وضاحت کرتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیسے کر رہے ہیں۔’

لیکن وہ اپنے استاد کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘یہ نہ صرف نفسیاتی طور پر مشکل ہے بلکہ جسمانی طور پر بھی مشکل ہے۔ آپ ان لوگوں کو سب کچھ دینا چاہتے ہیں جن کا آپ علاج کر رہے ہیں۔ یعنی ہمارے فوجی۔’

مسٹر کوزیمیاکا کے لیے کلاسز چھوڑنے کا کوئی آپشن نہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘تعلیم میری زندگی کا کام ہے۔ میں اسے ترک نہیں کر سکتا۔ ہم جنگ سے پہلے ایک ملک کے طور پر صحیح راستے پر تھے اور اب بھی ہیں، اس لیے ہمیں اپنی فتح کے لیے مل کر لڑنے اور متحد رہنے کی ضرورت ہے۔‘

‘یہ ضروری ہے کہ آپ جو پہلے کرتے رہے ہیں اس پر کام جاری رکھیں۔ آخر جنگ ہمیں کیوں روکے؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments