دکھ کی تصویر کیسے بنائیں؟


آج چار جولائی ہے۔ ٹھیک 45 برس گزر گئے۔ 4 جولائی 1977 کی رات ہمارے ملک کی تاریخ، معیشت اور تشخص، سب بدل گیا تھا۔ امریکی عوام کے لئے چار جولائی یوم آزادی ہے۔ چار جولائی ہمارے لئے ایسی طویل رات کا آغاز تھا جس کی سحر ابھی نمودار نہیں ہوئی۔ ایک برس میں کل ملا کے 365 دن ہی تو ہوتے ہیں۔ وقت اور مقام بدلنے سے معنی بدل جاتا ہے۔ ستمبر کی 11 تاریخ سنہ 2001 میں اہل امریکا پر گزری تو انہوں نے اسے نائن الیون کی اصطلاح بخش کر عالمی استعارہ بنا دیا۔ کم ہی کسی کو خیال آیا کہ امریکی حمایت سے جنرل پنوشے نے 11 ستمبر 1973 کو لاطینی امریکا کے ملک چلی کے باشندوں پر ایک نائن الیون مسلط کیا تھا۔ اتفاق سے سان تیاگو اسٹیڈیم میں قتل ہونے والے آمریت مخالف قیدیوں کی تعداد بھی نیویارک حملوں کی طرح 3000 ہی کے لگ بھگ تھی۔ ہمارے حافظے کی تختی پر مگر چلی کے منتخب صدر سلواڈور الاندے کی وہ بہادر تصویر مرتسم ہے جس میں وہ ایک ہلکی مشین گن اٹھائے چند جانثاروں کے ساتھ جرنیلی جنتا کی فضائی بمباری کا مقابلہ کرنے صدارتی محل سے باہر نکل رہے تھے۔

چار اپریل کا دن اٹھائیے۔ 4 اپریل 1968 کو مارٹن لوتھر کنگ نے میمفس کے لورین موٹل کی بالکونی پر جان دے کر امریکہ کے افریقی باشندوں کے لئے امکان کی کھڑکیاں کھول دیں۔ ٹھیک 11 برس بعد 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے اہل پاکستان پر رات اتر آئی۔ ہمیں شہید بھٹو کا آخری دیدار نصیب نہیں ہوا البتہ سرکاری فوٹوگرافر کی بنائی وہ تصویر دستیاب ہے جس میں گاﺅں کی خستہ حال مسجد میں درجن بھر عزاداروں کے سامنے ایک کھاٹ پر چوخانے کی چادر تلے شہید جمہوریت کا جسد خاکی رکھا تھا۔ 1965۔ 66 میں سہارتو کے قاتل ٹولے نے انڈونیشیا میں 5 لاکھ سے زائد بائیں بازو کے کارکن اجتماعی گڑھوں میں بٹھا کر قتل کیے۔ کمبوڈیا کے پول پاٹ نے تین ہی برس میں اپنے ملک کا ہر پانچواں شہری قتل کر دیا۔ بے معنی خونریزی کی اس باز آفرینی سے ایک نکتہ بیان کرنا مقصود ہے لیکن اس سے قبل کچھ واقعات عرض کرنا ہیں۔

1856۔ 57 میں یورپی فوٹوگرافر جنگ کریمیا کی تباہ کاری کو تصویر کشی میں مگن تھے کہ ہندوستان میں 1857 کے اندولن کی خبریں پہنچیں۔ ان میں سے کچھ مہم جو ہندوستان کی طرف بھاگے تاکہ اپنے کیمروں میں خاک نشینوں کی بے بسی قید کر سکیں۔ فیلس بیٹو (Felice Beato) نام کے ایک صاحب فروری 1858 میں ہندوستان پہنچے تو بغاوت فرو ہو چکی تھی۔ تاہم صاحب بہادر کی فرمائش پر دہلی سے کوئی 50 میل دور سکندرآباد کے باغ میں وہ 2000 ڈھانچے کھود کر میدان میں بکھیرے گئے جنہیں نومبر 1857 میں تہ تیغ کیا گیا تھا۔ نازی کیمپوں میں قیدیوں پر چاند ماری کے مناظر تاریخ کا بدنما حصہ ہیں۔

 شام کی اس معصوم گڑیا کی تصویر تو انسانی حافظے کا تازہ زخم ہے جس نے فوٹوگرافر کے کیمرے کو بندوق سمجھ کر دونوں ہاتھ اٹھا دیے تھے۔ مرحوم کرنل نادر علی بتایا کرتے تھے کہ کچھ افراد گرفتار بنگالیوں کی قطار بنا کر تجربہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک گولی کتنے بنگالیوں کے آر پار ہوتی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے فوٹوگرافر کیون کارٹر کی 1993 میں جنوبی سوڈان کے قحط میں لی گئی اس تصویر نے تہلکہ مچا دیا جس میں ایک فاقہ زدہ بچی سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک گدھ نظر آ رہا تھا۔ کارٹر کو اس تصویر پر پلٹزر پرائز ملا لیکن اسے بے حسی کے اس مظاہرے پر ایسی ملامت ہوئی کہ اس نے چار ماہ بعد خود کشی کر لی۔

ویت نام کی لڑائی میں دو تصاویر نے بہت شہرت پائی۔ ایک تصویر تو اس نو سالہ بچی Phan Thi Kim Phúc کی تھی جو جون 1972 کو نیپام بم کی زد میں آ کر جھلس چکی تھی۔ برہنہ حالت میں بچاﺅ کے لئے بھاگتی اس بچی نے عالمی ضمیر جھنجھوڑ ڈالا لیکن صدر نکسن نے مسرت آمیز لہجے میں پوچھا تھا، ’یہ تصویر اصلی ہے یا پوز بنوایا گیا ہے‘۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر ایڈی ایڈمز نے جنوبی ویت نام کے مقامی کمانڈر Nguyn Loan کو تجویز دی کہ ویت کانگ کے کسی سپاہی کو سزائے موت دیے جانے کے لمحے کی تصویر لینی چاہیے۔ کمانڈر کے لئے کیا مشکل تھی۔ ویت کانگ کا ایک سپاہی پیش کیا گیا اور اسے اس طرح کھڑا کیا گیا کہ اس کا چہرہ فوٹوگرافر کی طرف تھا۔ کمانڈر نے پستول نکالا اور کچھ پوچھے بغیر کنپٹی سے چند انچ کے فاصلے پر گولی چلا دی۔ تصویر میں پستول کا سپرنگ ابھی پوری طرح واپس نہیں آیا تھا۔ قیدی کی کھوپڑی میں گولی پیوست ہونے کی اذیت چہرے پر نمودار ہو چکی تھی۔

یہ دونوں تصویریں فوٹوگرافر کی مہارت کی بجائے جنگ کی وحشت اور جنگی فوٹوگرافی کی پیشہ ورانہ بے حسی کا نشان بن گئیں۔ امریکی ادیب اور انسانی حقوق کی علمبردار سوزان سونٹاگ نے اپنی کتاب Regarding the Pain of Others میں لکھا کہ انسانی آلام سے بے نیاز فوٹوگرافر ہمیں یہ تو دکھاتا ہے کہ کب، کہاں اور کیا ہوا؟ یہ نہیں بتاتا کہ یہ سب کیوں ہوا اور کیا ایسا ہونا ضروری تھا؟ آج ہمارا 4 جولائی ہے۔ میں بھی اب اس سوال میں دلچسپی نہیں رکھتا کہ 4 جولائی 1977 کی رات کیا ہوا؟ مجھے پوچھنا ہے کہ چار جولائی کیوں ہوا، کیا چار جولائی ختم ہو گیا؟ کیا چار جولائی کی رات قوم پر بندوق تاننے والوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی؟ کیا چار جولائی کے مجرموں کا ساتھ دینے والے سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں، اساتذہ اور ادیبوں کو اپنے افعال پر ندامت ہوئی؟ بدقسمتی سے اگر لاہور کی ایبٹ روڈ پر ایاز امیر بدستور نامعلوم افراد کی زد پر ہے، بلوچ ہم وطن بغیر جوابدہی کے گم شدگی کے اندیشے میں گرفتار ہیں، راﺅ انوار آزاد ہے اور عدیلہ سلیمان کے مجسمے پاش پاش ہیں، پارلیمنٹ ربڑ کی مہر ہے اور عدلیہ حرف قانون کی بجائے مصالحت میں دلچسپی رکھتی ہے، تو ہمارا چار جولائی جاری ہے اور ہمارے دکھ کی تصویر نامکمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments