کوئی ہے جو اداکار افضال احمد کو جانتا ہو؟


کوئی ہے جو اداکار افضال احمد کو جانتا ہو؟ فلم، ٹیلی وژن اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے یقیناً یہ جانتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں پاکستان کی چھوٹی اور بڑی سکرین پر ایک چہرہ نمودار ہوا، جس نے اپنی خوبصورت پرفارمنس، عمدہ ڈائیلاگ ڈیلیوری اور دل کش آواز کے ذریعے ناظرین اور فلم بینوں کے دلوں میں نہ صرف جگہ بنا لی، بلکہ سکرین پر موجود ایسی قابل اعتماد شناخت کی صورت اختیار کر لی، جس کی موجودگی، سب کے لئے قابل توجہ اور باعث کشش ہو سکتی ہو۔

وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ

منفی کرداروں میں پہچان حاصل کرنے کے ساتھ، اس فنکار کی یہ مثبت خوبی بھی زیادہ دیر پوشیدہ نہ رہ سکی کہ یہ باصلاحیت فنکار صرف ویلن ہی نہیں، ایک ہمہ جہت خوبیوں کا مالک، ہر فن مولا اداکار ہے، جو جہاں، جس کردار میں منتخب ہو، اس میں ڈھلنے اور اسے حقیقت کے رنگ میں ڈھالنے کا گر جانتا ہے اور یہ وہ صفت ہے جو کم فنکاروں کا مقدر ہوتی ہے۔

انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ

اشفاق احمد کے تحریر کردہ اچے برج لاہور دے اور منو بھائی کے لکھے جزیرہ سے لوگوں کی توجہ اور محبت اور ناقدین کی تائید حاصل کرنے والے اس فنکار نے اپنی جاندار پرفارمنس سے کتنے ہی کرداروں کو زندہ جاوید بنا دیا۔ لوگوں کے ذہنوں اور ان کی یاداشت میں محفوظ، شاندار کردار نگاری کی یہ فہرست اس قدر طویل ہے کہ ان کی یاد دہراتے ہوئے متاثر کن فن پاروں کی ایک گیلری سی کھلتی دکھائی دیتی ہے۔

وہ یہ بھی نہیں بھولے کہ

بلوچ تاریخ کے مشہور کردار چاکر اعظم کو عصر حاضر میں بھر پور طریقے سے متعارف کرانے والا اداکار کون تھا جس کی ستائش کے لئے بلوچستان کے ممتاز شاعر عطا شاد نے کہا

” چاکر ہمارے ہاں ایک ایسا سمبل ہے کہ اس کے کردار کی خرابیاں اور خوبیاں ہونے کے باوجود، آج بھی قبائلی نظام کی وہ ایک بڑی شخصیت ہے۔ اس طرح کے کردار جس کے ساتھ لوگوں کو ایک عقیدت ہو اور اس کی پرفارمنس ( کے لئے ضروری ہے کہ ) اس معیار پر ہو کہ لوگ کہیں یہ چاکر اعظم ہے“

اشفاق احمد کے متعارف کردہ اور ان ہی کی لکھی سیریز اچے برج لاہور دے کے ایک کھیل کارواں سرائے، میں انیس بیس سالہ اداکار کو پچاس پچپن سالہ کردار ادا کرنے پر ممتاز نقاد اور ادیب صفدر میر نے یوں سراہا کہ

”اس نوجوان نے اس سیریز کے ابتدائی کھیلوں میں اپنی قابلیت ثابت کردی تھی اور اس قسط میں وہ تمام اداکاروں سے آگے نظر آتا ہے“

ڈرامہ سیریل جزیرہ کے خالق منو بھائی کہتے ہیں

” اس سیریل میں انھوں نے جو کیرکٹر کیا تھا وہ ایک مشکل کیرکٹر تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ جب انھیں یہ دیا گیا تو کافی پریشان ہوئے کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ ایک نارمل کیرکٹر ہے۔ ( میری نظر میں ) سب سے مشکل ایک نارمل کیرکٹر ہوتا ہے۔ اسے ابنارملی، نارمل بنانا ہوتا ہے، تو ( اس کی ادائیگی کا مرحلہ ) کتنا مشکل ہو گا۔ انھوں نے اس کو ڈیویلپ کیا“

انھیں یہ بھی یاد ہے کہ

لاہور میں تھیٹر کی دنیا میں انقلاب لانے کا انوکھا خیال کس کے ذہن میں آیا اور ٹیلی وژن اور فلم کی طرح اپنی تخلیقی کاوشوں سے، تھیٹر پر نئے رجحانات پیش کر کے، ( نئے فنکاروں کو متعارف کرانے کے ساتھ ) ، نئے موضوعات کی تلاش کر کے، کس نے اپنا سکہ جمایا اور کامیابیوں کی نئی تاریخ رقم کی۔

شاید وہ سب، یہ سب جانتے ہیں،

مگر کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ افضال احمد جس کی فنکارانہ قدوقامت، پرفارمنس کا اعلی ریکارڈ اور ہمہ جہت پیشہ ورانہ شخصیت، کسی بھی قومی اعزاز کیلے لئے باعث افتخار ہو سکتی ہے،

وہ آج، زندگی کے کم وبیش 30 سال پرفارمنس آرٹس کو وقف کر دینے کے باوجود،
ان گنت اردو اور پنجابی فلموں میں خاص و عام سے داد وصول کرنے کے باوجود،
بے شمار ٹی وی ڈراموں سیریلز اور سیریز کے کرداروں کو زندگی بخشنے کے باوجود،
نئی جہت کے تھیٹر ( تماثیل ) کی بنیاد رکھنے کے باوجود،

پاکستانی تھیٹر کی تاریخ کے سب سے طویل عرصہ چلنے والے کھیل (جنم جنم کی میلی چادر ) کی بے مثال ریکارڈ توڑ کامیابی کے باوجود،

کسی قومی اعزاز کے مستحق قرار نہیں پائے۔

جی ہاں یہ حقیقت ہے کہ افضال احمد جو ( بذات خود ) اپنی فنی قامت اور تخلیقی صلاحیت منوانے کے لئے یقیناً کسی تائید ( اور تصدیق ) کے محتاج نہیں، مگر یہ معاشرے اور اس کے فیصلہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اقدامات سے اپنی بصیرت اور بصارت ثابت کرنے کے لئے فنکار کی قدر و منزلت کا شعور رکھتے ہوں۔

نہیں معلوم اس کوتاہ بینی، مجرمانہ غفلت، اور ایک بلند پایہ فنکار کی عظمت سے مسلسل چشم پوشی کا سزاوار کون ہے،

وہ کون ہے جس کی آنکھیں افضال احمد کی فنکارانہ چمک اور جگمگا ہٹ سے چندھیائیں نہیں!
وہ کون ہے جو اداکاری کے معیار اور عوامی مقبولیت کے اقرار سے اس قدر بے خبر ہے!
وہ کون ہے جس کی کسوٹی، ایک تسلیم شدہ عظمت کو پرکھنے کی سطح تک آنے کی اہل نہ ہو سکی۔

یہ منظر کشی، تصویر کا محض انفرادی رخ ہے، جو بلاشبہ نہایت افسوس ناک اور بجا طور پر عدم توجہی اور ناقدری کی شرم ناک مثال ہے مگر یہ سوالات اس وقت اور معنی خیز، اور مزید تکلیف دے ہو جاتے ہیں جب قومی اعزازات کے انعام یافت گان کی فہرست کو ٹٹولا جائے تو یہ حیرانی ( اور اس سے بڑھ کے ) صدمہ دو چند ہوجاتا ہے کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ افضال احمد جیسے بلند قامت کو، یہاں ابھی تک شمار نہ کیا گیا ہو۔

یہ سارے سوالات ابھی جواب طلب ہیں، مگر اس کہانی کا المیہ یہ ہے کہ فن سے عشق اور کام سے جنون کی سزا بھی، کسی اور کا نہیں، ایک حساس فنکار کا ہی مقدر ہوئی۔

آج افضال احمد، قدرت کی آزمائش سے دوچار، خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں مگر، اس بات سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ ہماری چھوٹی اور بڑی سکرین ( اور تھیٹر کی وسعت ) ہمیشہ ان کی دلنشیں آواز کی مقروض رہے گی۔ وہ آواز جو بے جان اور سادہ الفاظ میں زندگی بھر دیتی تھی۔ وہ آواز جس کا اتار چڑھاؤ منظر اور مکالمے کی معنویت کا حق ادا کر دیتا تھا۔ وہ آواز جس کا تاثر، دیکھنے اور سننے والا، اپنی سماعت کی سوغات تصور کرتا تھا۔

بلاشبہ، مہذب معاشرے، فن کی تعظیم ( اور ترویج ) سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ اگر Academy of Motion Picture Arts & sciences انڈیا کے عظیم تخلیق کار ستیہ جیت رے کو، آسکر ایوارڈ، کولکتہ میں ان کے ہسپتال میں پہنچا سکتی ہے، تو پاکستان کے اس قابل فخر، ورسٹائل اداکار کے لئے یہ اعزاز، ان کے گھر تک لے جانے میں بھی کیا امر حائل ہو سکتا ہے۔

شاید۔ اسی طرح سے اس لاشعوری غفلت کی تلافی کی صورت نکل آئے۔

( یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی اور اس تحریر کے قلم بند ہونے کے تمام تر دورانیے میں، دل ماننے کو تیار نہیں کہ افضال احمد کی سطح کے فنکار کو، کوئی صدارتی ایوارڈ نہ ملا ہو۔ نیٹ پر موجود، ایوارڈز کی بیس سالہ فہرستوں میں صرف 2002 میں ایک نام افضال احمد درج ہے مگر اس کے مقابل فیلڈ ظاہر نہیں اور اس نام میں سید بھی نہیں لکھا گیا جبکہ روایتا ”صدارتی ایوارڈز میں شناختی کارڈ پر درج نام شامل کیا جاتا ہے۔ سو ان کی ہمشیرہ نے ایک سے زائد بار اس بات کی تصدیق کی کہ یہ سچ ہے کہ ابھی تک افضال احمد صاحب کو کسی صدارتی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔

انھوں نے اصرار کرنے پر، افضال احمد صاحب سے بھی اس بات کی از سرنو تائید حاصل کی۔ ان کی ہمشیرہ کے بہ قول اگر کوئی اعزاز ملا ہوتا، تو اسے وصول کرنے وہ ہی جاتیں کہ اس آزمائشی مرحلے میں، گزشتہ دو دہائی سے اپنے بھائی کی وہ ہی نگہبان ہیں۔ بہ ظاہر یہ ایسی ناقابل یقین حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ شاید افضال احمد کے ہم عصر فنکار ساتھی اور فلم و فن کے ناقدین بھی اسی مغالطے کا شکار رہے ہیں کہ افضال احمد جیسا مستند فنکار اس طویل عرصے میں کیوں کر اس سے محروم رہ سکتے ہیں وگرنہ، ایسا سوچنا یکسر منطقی ہو گا کہ وہ یقیناً اس دیرینہ حق تلفی پر، کبھی چپ نہ رہتے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments