سفید پوش کا المیہ


سنتے ہیں، ایک وقت تھا کہ ایک کمانے والا سات آٹھ افراد کا کنبہ پال لیتا تھا، بچے پڑھ بھی جاتے، بیٹیوں کی شادیاں بھی ہو جاتیں اور اپنی چھت بھی نصیب ہو جایا کرتی تھی۔

آج یہ حال ہے کہ گھر کے دو یا زیادہ افراد بھی نوکری کر کے چار سے پانچ کی فیملی کا خرچ پورا نہیں کر پاتے۔ وجہ کبھی مہنگائی بتائی جاتی ہے، کبھی طرز زندگی میں استطاعت سے باہر اشیاء کا استعمال۔ پھر بھی چند سال پہلے تک کم سے کم سفید پوش، اوسط طبقے (مڈل کلاس) کا یہ حال نہیں تھا۔ اتنا ضرور تھا کہ وہ سکھ سے اخراجات پورے کر لیا کرتے تھے۔

پچھلے چار سالوں میں مہنگائی خصوصاً روزمرہ کی اشیاء ضرورت پے جس تیزی سے قیمتوں میں اضافہ ہوا، معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی نادیدہ عفریت پنجے گاڑے معیشت کا خون پی رہا ہو۔

کون وزیر اعظم بنا؟ کون ہٹا دیا گیا؟ سازش تھی یا مداخلت؟ کون غدار ہے؟ کون محب وطن؟ کسے کیا وزارت ملی؟ کس نے اب تک پارلیمنٹ لاجز میں ملا اپارٹمنٹ خالی نہیں کیا؟ کیوں سابقہ وزیر اعظم ایک صوبے کے سرکاری وسائل ذاتی استعمال میں لا رہا ہے؟ اگلا چیف جسٹس کون ہو گا؟

یقین مانیے، یہ تمام اہم معاملات پاکستان کی ستر فیصد آبادی کا مسئلہ نہیں ہیں، اکثر کو تو علم ہی نہیں کہ کس کے بارے میں بات ہو رہی ہے؟

ان کا مسئلہ آٹا، تیل، چائے، چینی، دال، بس، رکشہ کے کرایوں، بجلی، گیس کے بلوں اور دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔

نئی حکومت کے دلاسے اور یقین دہانیاں بھی اس طوفان کو روکنے میں ناکام ہیں جس نے اس وقت بھی لوگوں کے ماہانہ بجٹ ان کی کفایت شعاری کے باوجود پورا کرنا ناممکن کر دیا ہے۔ غریب تو ایک جانب اچھے اچھوں کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔

اس پے ماہرین معاشیات کے مطابق عالمی اور ملکی حالات نشاندہی کر رہے ہیں کہ آنے والے سال میں پٹرول۔ ڈیزل۔ بجلی۔ گیس کے نرخ اب سے دگنے کے لگ بھگ بڑھ جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے ادارے UNDP کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان 184 ممالک میں 154 ویں نمبر پے تھا۔ پاکستان میں کل آبادی کا تیس فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ یہی حالات رہے تو اگلے سال جون تک غربت میں مزید اضافہ ہو گا۔

معاشی بدحالی ملکی معیشت اور صنعت پر جو اثر ڈالتی ہے، ماہرین جانیں لیکن معاشرے میں معاشی ابتری سے جرائم کینسر کے خلیؤں کی طرح بڑھتے ہیں۔ جیسے چوری، ڈاکے، قتل، اغوا برائے تاوان، اسمگلنگ، ہیومن ٹریفکنگ خاص کر عورتیں /بچے، رشوت، منشیات کی فروخت اور استعمال، اعضاء کی فروخت اور جسم فروشی غریب ممالک میں زیادہ رپورٹ کی جاتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے مسائل و مشکلات تو معلوم ہیں مگر اس پنڈورا بکس کو بند کرنے کی کنجی کس کے پاس ہے ہنوز اس ساحر اعظم کی تلاش ہے۔

تاحال تو جو بھی ہمیں منہ سے آگ یا ٹوپی سے خرگوش نکال کر دکھا دے، ہم اسی کو ”مرشد“ مان کے امید باندھ لیتے ہیں کہ یہی وہ مسیحا ہے جو مہنگائی، بیروزگاری، بھوک، افلاس اور جرم جیسے کلبلاتے سانپوں کے پھن کچل کر ہماری نجات دہی کر دے گا۔ اس امید و بیم کے گرداب میں ہمیں ایسے ایسے شعبدہ گر ٹکرائے کہ دل جانتا ہے۔ کوئی رنگروٹ لایا، کوئی لانگ بوٹ میں آیا اور کسی نے پھٹے کرتے کے ساتھ پشاوری سینڈل کا جادو چلایا!

ہم عوام ایک کے بعد دوسرے کرسی نشین کو اولو الامر مان کر سر جھکاتے رہے پر کچھ ہاتھ نہ آیا!
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو، وغیرہ وغیرہ جیسا کلام بھی اب تو شاعر مشرق کے لمحات خوابیدہ کی کارگزاری معلوم ہوتا ہے۔قصہ مختصر گھر اور گھر کے دربان سلامت، گھر والوں کا کیا ہے، رہے رہے نہ رہے نہ رہے! آخر کو دنیا فانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments