خالہ آمنہ عفت، حمرا اور صہبا خالہ


امی سے باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ مجھے بھی بزرگوں سے باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک عادت ہے، پتا نہیں اچھی کہ بری کہ کرید کرید کر بڑے بوڑھوں اور بزرگوں سے ان کی ماضی کی دوستیوں اور بھولی بسری باتوں کے بارے میں پوچھتا رہتا ہوں۔ امی سے تواتر کے ساتھ ماضی کی باتیں کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ امی کی یاد داشت محفوظ اور برقرار رہے۔

گزشتہ روز امی اپنی لکھنؤ کی بچپن کی دوست صہبا خالہ کو یاد کر رہیں تھیں کہ اس کی طبیعت بہت خراب ہے اور عرصۂ دو سال سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں۔ صہبا خالہ سے تو میں نے امی کی ایک دو دن بعد بات کرا دی۔ دونو بچپن کی سہیلیاں جب ایک دوسرے سے بات کر رہیں تھیں تو بہت خوش تھیں۔ جب بھی دونوں کی باتیں ہوں تو مشہور و معروف کہانی نویس اور شاعر جناب جاوید اختر کے بچپن کو ضرور یاد کیا جاتا ہے، کہ کیسی پیاری باتیں کرتا تھا۔

صہبا خالہ کی جب باتیں ہوں تو امی اور بھی دوستوں کا تذکرہ کرتی ہیں، خصوصاً حمرا اور فرحت خالہ کا۔ لکھنؤ سنہ 1951 میں آپا چھوٹی بی کی شادی میں خالہ آمنہ عفت اپنی بیٹی حمرا کے ہمراہ شرکت کے لیے تشریف لائیں کہ ان کے بھائی ذو النورین کی شادی آپا چھوٹی بی سے ہونا قرار پائی تھی۔ امی ان دنوں جماعت نہم میں تھیں اور حمرہ خالہ بھی۔ سو دوستی ہو گئی۔

خالہ آمنہ عفت کی رہائش اپنے بھائی ذو النورین کی رہائش گاہ اوٹرم روڈ، لکھنؤ میں تھی۔ جہاں امی کی حمرا خالہ سے ملاقات رہی۔ 1953 میں امی کی شادی ہو گئی اور امی کراچی منتقل ہو گئیں۔ لیکن حمرا خالہ سے خط و کتابت جاری رہی۔ لیکن ملاقات کی کوئی صورت نہیں تھی۔

امی بتاتی ہیں کہ ہمارے قریبی رشتے دار سید محمد عالم حیدر زیدی مرحوم جب ناظم آباد نمبر 2 میں اپنا مکان تعمیر کروا رہے تھے تو ناظم آباد نمبر 1، ہمارے گھر بھی تشریف لے آتے اور کبھی کبھار ناشتہ بھی ساتھ ہو جاتا۔ ایک دن انہوں دادا ابا مرحوم سے کہا کہ تمہارے گھر میں گنجائش بھی ہے اور کچھ کمرے خالی بھی ہیں۔ ایسا کرو کہ ایک کمرہ میری جاننے والی دو شریف اور خاندانی خواتین جو ماں بیٹی ہیں، کو کرائے پر دے دو۔ یوں کچھ اضافی آمدنی بھی ہو جائے گی۔

دادا ابا مرحوم نے گھر پر مشورہ کیا اور یوں دونوں خواتین کو ایک کمرہ کرائے پر دینے کا فیصلہ ہوا۔ ماں بیٹی جب رہائش کے لیے تشریف لائیں تو بیٹی امی کو دیکھ کر لپٹ گئیں۔ دادی اماں نے حیرانی کے عالم میں امی سے پوچھا کہ ان لوگوں کو تم کیسے جانتی ہو؟ تو امی نے بتایا کہ یہ ہماری لکھنؤ کی دوست حمرا ہے۔

یوں قریباً تین سال خالہ آمنہ عفت، حمرا خالہ اور امی ایک ساتھ رہیں کہ برابر والا کمرہ امی کا تھا۔ میرے بڑے بھائی سید عامر اسحق بھی حمرا خالہ سے جلد مانوس ہو گئے اور گود میں بیٹھ کر اردو انگریزی نظمیں ان کو سنایا کرتے۔ حمرا خالہ کو بھی قرب و جوار میں کہیں آنا جانا ہوتا تو عامر بھائی کو ساتھ لے جاتیں۔ جب امتیاز چچا مرحوم کی شادی کا وقت آیا تو حمرا خالہ ایک دو گلی چھوڑ کر والد مرحوم کے ماموں کے گھر منتقل ہو گئیں۔

کچھ عرصے بعد ، ان کی شادی معروف فلم میکر خلیق ابراہیم صاحب سے ہو گئی۔ امی نے شادی میں شرکت کی جو کہ گرو مندر کے قریب کسی میرج ہال میں ہوئی تھی۔ شادی کے بعد ملاقات کی صورت کم ہی نکلتی۔ پھر بھی ملاقاتیں جاری رہیں۔ حمرا خالہ رونق اسلام، سکول گارڈن میں پڑھاتی تھیں اور معروف ڈرامہ و افسانہ نگار حسینہ معین مرحومہ بھی۔ امی کی مرحومہ حسینہ معین سے ملاقات ہمیشہ حمرا خالہ کی موجودگی میں ہی ہوئی۔ حمرا خالہ کے بیٹے جناب حارث خلیق بھی نامور ادیب اور شاعر ہیں۔

کافی عرصے سے امی کی حمرا خالہ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے کہ امی کا کہیں آنا جانا محدود ہے۔ اور کورونا کے بعد سے تو میں نے مزید احتیاط کروانی شروع کر دی ہے۔ امی کی باتیں جاری ہیں۔ سنتا بھی رہا اور لکھتا بھی۔ قصے تو ابھی بھی سن رہا ہوں۔ اس تحریر کو یہیں ختم کرتا ہوں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments