حامد یزدانی کے خاکی تھیلے میں چھپے راز


اصحاب کہف گہری نیند سے جاگے اور کچھ خریدنے بازار گئے تو انہیں شہر کے لوگوں نے بتایا کہ ان کے سکے پرانے اور متروک ہو چکے ہیں۔ یہ بات سن کر اصحاب کہف کو اندازہ ہوا کہ وہ ایک طویل عرصے تک سوتے رہے ہیں۔

اصحاب کہف کی طرح حامد یزدانی کے افسانے “خاکی تھیلے” کا ہیرو جب کرونا وبا کے ختم ہونے بعد بازار جاتا ہے اور اپنے محبوب کیفے میں داخل ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔ خارجی طور پر بھی اور داخلی طور پر بھی۔ سماجی طور پر بھی اور نفسیاتی طور پر بھی۔ معاشی طور پر بھی اور معاشرتی طور پربھی۔

کرونا وبا کی پہلی لہر آئی تو لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید ہو گئے
شہر سنسان اور گلیاں ویران ہو گئیں
لوگوں کی آنکھوں میں خوف اور دلوں میں ڈر کے سائے گہرے ہونے لگے
وہ ایک دوسرے سے ملتے تو دور دور سے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کہتے
؎ کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا
ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

ہر شہر میں ایک انجانا اور ان دیکھا وائرس کسی چور دروازے سے گھس آیا تھا ایسا وائرس جو موت کی خبر لے کر آیا تھا۔

لوگ حیران تھے پریشان تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ وائرس یہ موت کا فرشتہ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے بھیجا ہے؟ کیا یہ کسی عالمی سازش کا حصہ ہے؟

وائرس کی پہلے لہر کے بعد دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی لہر آئی
وائرس سے بچنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر مقامی اور بین الاقوامی حفاظتی تدابیر کی گئیں
لوگوں نے مختلف رنگوں اور سائزوں کے ماسک پہننے شروع کر دیے۔
پہلے وہ روایت اور منافقت کے ماسک پہنتے تھے اب کاغذ اور کپڑے کے ماسک پہننے لگے۔
ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا۔
نہ کوئی دوست ہاتھ ملاتا ’نہ کوئی آشنا گلے ملتا اور نہ ہی کوئی محبوب بوسہ دیتا۔

وقت کے ساتھ ساتھ وائرس سے بچنے کے لیے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے مختلف قسم کی ویکسینز بنانی شروع کر دیں۔

خوف و ہراس کی فضا قدرے کم ہوئی تو لوگوں نے دوبارہ زندگی کے معمولات میں حصہ لینا شروع کیا۔

لوگوں نے جب اپنے پسندیدہ کلب ’ریستوران اور کیفے میں جانا شروع کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ عمارتیں باہر سے نہ بدلنے کے باوجود اندر سے بہت بدل چکی تھیں۔

حامد یزدانی کے افسانے کا ہیرو اپنے پسندیدہ کیفے میں جاتا ہے تو حیران بھی ہوتا ہے اور پریشان بھی۔ کیفے میں سب کچھ بدل چکا ہے۔

وہ جب میزبان مہ جبیں دوشیزہ سے پوچھتا ہے
’وہ وہ فرنیچر کیا ہوا جو یہاں ہوتا تھا؟‘

تو وہ پری وش اسے چہک چہک کر بتاتی ہے ’اس جان لیوا وبا کی وجہ سے کیفے بند ہوا تو خوش قسمتی سے ہمیں رینوویشن کا موقع مل گیا۔ دیکھیے سب کچھ نیا کر دیا ہے۔ دیواروں کے رنگ و روغن سے لے کر چھت‘ فرش اور میز ’کرسی تک سب کچھ بالکل نیا اور دلکش۔ نہیں کیا؟‘

میزبان جس بات سے سکھی ہے مہمان اسی بات سے دکھی ہے۔
میزبان کو نیا پسند ہے اور مہمان کو پرانا۔

اس مکالمے کے بعد مہمان اور افسانے کے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ جب تک ہم زندگی میں کسی چیز کو کھوتے نہیں اس وقت تک ہمیں اس چیز یا اس شخص کی اہمیت ’افادیت اور معنویت کا پوری طرح اندازہ نہیں ہوتا۔

ہیرو کا ان پرانی کرسیوں ’میزوں‘ دیواروں اور تصویروں سے ایک رشتہ تھا خاص رشتہ لیکن وبا کے بعد رینوویشن کے بعد وہ رشتہ ختم ہو چکا ہے۔

حامد یزدانی رقم طراز ہیں

’ اب وہ سارے لفظ جو یہاں بیٹھ کر سوچے اور جو مناظر ان کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھے تھے اب انہیں کہاں ڈھونڈوں! ان کرسیوں میزوں پر میرا اتنا کچھ تھا میرا لمس تھا ان پر۔ وہ کیا ہوا!‘

ہیرو کے اس واقعے ’اس واردات اور اس سانحے سے ماضی کے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ اسے یاد آنے لگتا ہے کہ اس کے بچپن اور نوجوانی میں اس کے ساتھ ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ اسے بتایا گیا کہ وہ اب ایک نئے گھر میں رہے گا۔ اس سے اس کا مانوس ماحول چھین لیا گیا اور اس سے کسی نے پوچھا تک نہیں۔

’بس ایک دن بتا دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں مجھ سے‘

حامد یزدانی ہمیں اس افسانے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انسان کتنا عاجز اور کتنا مجبور ہے۔ لوگ اس کا ماحول اور اس کی زندگی بدل دیتے ہیں اور وہ خاموش رہتا ہے۔

افسانے کا ہیرو کہتا ہے
’مجھے یاد ہے میرے بچپن کے سبھی سکے ایک ایک کر کے متروک ہو گئے تھے‘
حامد یزدانی کا یہ جملہ پڑھ کر مجھے اصحاب کہف کے متروک سکے یاد آنے لگے۔
افسانے کے ہیرو کا سب سے بڑا نفسیاتی المیہ اس جملے میں پوشیدہ ہے۔ حامد یزدانی لکھتے ہیں
’سب کچھ پھنکوا دیا۔ یہاں گزرا سارا وقت بھی کوڑے میں پھینک دیا۔ مجھ سے پوچھا تک نہیں‘
کرونا وبا نے انسانوں کی ذات اور شخصیت کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیا اور ہم پر منکشف کیا۔

ہمارے محبوب ریستوران ’کلب اور کیفے یا بند ہو گئے یا بدل گئے اور ہم نہ کچھ کہہ سکے اور نہ ہی کچھ کر سکے۔ ہماری محبوب شاموں کی یادوں کو بے وقعت سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیا گیا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔

کسی بھی کلب ’کسی بھی ریستوران اور کسی بھی کیفے کے مالک کو اندازہ نہ تھا کہ ان کرسیوں‘ میزوں ’دیواروں اور تصویروں کے ساتھ کتنے لوگوں کی کتنی خوشگوار اور دلگداز یادیں وابستہ ہیں۔

حامد یزدانی نے اپنے افسانے۔ خاکی تھیلے۔ میں کرونا وبا کی نفسیاتی اور سماجی حقیقتوں اور آزمائشوں کا تخلیقی اظہار کیا ہے۔

آج سے چند برس یا چند دہائیاں بعد جب کوئی طالب علم کرونا وبا کے اردو ادب پر اثرات پر تحقیق کرے گا اور کرونا وبا کی کوکھ سے پیدا کی گئی تخلیقات کو یکجا کرے گا تو اس مجموعے میں حامد یزدانی کا یہ افسانہ ایک نمایاں مقام پائے گا۔ میں حامد یزدانی کو ایسا شاہکار افسانہ لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments