لوگ کیا کہیں گے کا خوف


”لوگ کیا کہیں گے“ یہ ایک جملہ یا چند لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اس ایک جملے نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو تباہی کی طرف دھکیلا ہے۔ اس ایک جملے کی وجہ سے لوگ وہ سب کچھ نہیں کر پا رہے، جو ان کا بچپن سے ایک سپنا ہوتا ہے۔ اس ایک جملے نے لوگوں کے کامیابیوں میں خلل پیدا کیا ہے۔ اس ایک جملے نے لوگوں کو اچھے بھلے کاموں سے روک کے رکھا ہے۔ یہ ایک جملہ اتنا وزن والا کیوں ہے؟ اس کو اتنا وزن دار کس نے بنایا ہے؟

کوئی بھی انسان کسی بھی کام کرنے سے پہلے اس جملے کو شروعات کا حصہ بناتا ہے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو لوگ کیا کہیں گے، اگر ایسا کریں گے تو ہمیں امید ہے کہ لوگوں کے تصورات ٹھیک ہوں گے۔

ہم اپنے کاموں میں دوسروں کو شامل کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہمارے کام سے دوسروں کو نہ تو فائدہ ہوتا ہے اور نہ نقصان لیکن پھر بھی لوگوں کے حوالے سے سوچ ہمارے ذہن میں سب سے پہلے آتی ہے۔

کوئی گھر بناتا ہے تو ڈیزائن کے حوالے سے لوگ کیا کہیں گے اس پر بات کرتا ہے۔ کوئی شادی کرتا ہے تو کپڑے، برات، ولیمہ لوگوں کے پسند کی مطابق کراتا ہے۔ کوئی زیادہ بچے پیدا کر رہا ہے تو اس کو اس چیز کا ڈر ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ”اتنے بچے آخر کیوں؟

کوئی اگر بچے پیدا نہیں کرنا چاہتا تو اس کو بھی ڈر ہوتا ہے کہ لوگ تو پھر کہیں گے کہ یہ تو بیمار ہے۔

یہ ڈر حق بجانب ہے کیونکہ لوگ کہتے بھی ہیں۔ لیکن پھر انسان کو سوچنا چاہیے کہ میں زندگی کو لوگوں کے مطابق کیوں گزاروں؟ لوگوں کا میری زندگی سے کیا تعلق؟ لوگوں کا میری پسند اور ناپسند سے کیا تعلق؟ ایک بیوہ عورت کبھی اچھے کپڑے نہیں پہن سکتی کیونکہ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ لوگ کیا کچھ باتیں کریں گے؟

امیر کا بیٹا سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے پیدل نہیں جا سکتا کیونکہ لوگ کہیں گے اتنی دولت کے باوجود بچا رہا ہے۔ غریب کا بیٹا گھر سے آنکھوں پر عینک لگا کر نہیں نکل سکتا کیونکہ لوگ کہیں گے کہ باپ مزدوری کرتا ہے ان کا پیٹ پال رہا ہے اور بچے کی نخرے دیکھو وغیرہ وغیرہ، سچ تو یہ ہے کہ اس معاشرے نے دوسروں کو ان کے اسٹیٹس پر ماپا ہے۔ جن کا جو اسٹیٹس ہے لوگ اس کے مطابق ایک دائرہ مختص کرتے ہیں کہ اس سے آگے نہیں نکل سکتے

انسان جب آزاد پیدا ہوا ہے تو وہ غلامی کی طرف کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟ وہ اپنی دلچسپی کو چھوڑ کر لوگ اس سے جو چاہتے ہیں اس کے مطابق کیوں چلتا ہے؟ دوسرے جو سوچتے ہیں اس سے مجھے کوئی فائدہ یا نقصان تو ہے نہیں تو کیوں نہ میں وہ کروں جو میرے لئے ٹھیک ہو میرے مستقبل کے لئے ٹھیک ہو

کوئی کچھ بھی سوچیں، کچھ بھی کہیں آپ اپنے لیے ایک منزل کا تعین کریں، اس کے لئے سفر کریں، محنت کریں اور کامیابیوں کو اپنی دسترس میں لانے کی کوشش کریں۔ اس دوران اگر کوئی آپ کے حوالے سے کہتا ہے کہ یہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ ماں باپ کا پیسہ بے جا لگا رہا ہے۔ آپ کسی کو آواز نہ دے اگر دوسروں کی باتوں پر ہم غور کرنا شروع کریں تو اس سے ہم پریشانی کی طرف بڑھیں گے اور مستقبل کے خواب تاریکی میں بدل جا سکتے ہیں۔

ایک دانشور فرماتے ہیں کہ ہم چالیس سال تک دوسروں کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے چالیس سال کے بعد تقریباً ہماری عمر بڑھاپے میں داخل ہو جاتی ہے تو ہمیں علم ہو جاتا ہے کہ لوگ تو ہمارے حوالے سے سوچتے بھی نہیں تھے۔ ایک انسان کو آزاد زندگی جینا چاہیے دل کی مانی چاہیے محنت پر یقین رکھنا چاہیے اپنی منزل کی طرف سفر کرنا چاہیے یہ بہترین زندگی کا فارمولا ہے اور اس فارمولے میں کامیابی چھپی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments