سابق خاتون اول کی مبینہ آڈیو لیک



ایک اور آڈیو ٹیپ منظرعام پر آ چکی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کو ایک اچھوتا مواد ہاتھ لگا ہے۔ اچھوتا اس لیے کہ سابق خاتون اول بشری ’بیگم اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک اہم رکن کی مبینہ ٹیلیفونک گفتگو کی ریکارڈنگ لیک ہوئی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی مدد کے لیے سیاسی محاذ پر متحرک ہو رہی ہیں۔ حالانکہ سابق خاتون اول عمران خان کے دور اقتدار کے دوران سماجی امور میں تو دلچسپی لیتی رہی ہیں مگر انہوں نے نہ کسی سیاسی تقریب میں شرکت کی اور نہ ہی کوئی سیاسی بیان جاری کیا۔

جب نون لیگ کی لیڈرشپ کی طرف سے بشری‘ بیگم پر تنقید کی جاتی تھی۔ تب عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر راہنماء ان کو گھریلو خاتون قرار دے کر ان پر ہونے والی تنقید پر ناک بھوں چڑھاتے۔ اسی لیے بشری ’بیگم کی طرف سے سوشل میڈیا ٹیم کو ہدایات جاری کرنا حیران کن سمجھا جا رہا ہے۔ وہ مبینہ طور پر ارسلان خالد نامی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو ہدایت دے رہی ہیں۔ کہ مراسلے کے معاملے کو میڈیا میں ان رکھا جائے۔ اور فرح خان کے خلاف جو کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں مخالفین کے خلاف غداری کے ٹرینڈ بنا کر ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جائے۔

عمران خان نے اقتدار کے آخری دنوں میں یہ بات کہی تھی۔ کہ وہ وزیراعظم کی کرسی سے اترنے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ خان صاحب کا یہ دعوی ’سو فیصد درست ثابت ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے یا سائفر کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ عمران خان اور ان کی میڈیا ٹیم کو جاتا ہے۔ بلاشبہ تحریک انصاف کی سوشل اور مین سٹریم میڈیا ٹیموں نے مخالفین کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔

نیشنل سیکورٹی کونسل کے تین اجلاسوں کے منٹس، ڈی جی آئی ایس پی آر کی بار بار وضاحت کے باوجود تحریک انصاف کا دھمکی آمیز خط کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اعلی‘ حکومتی اور عسکری شخصیات بھی مراسلے کے ایشو کو دبانے میں بری طرح ناکام ہو چکیں ہیں۔ متحدہ حکومتی الائنس عمران خان کی دن بدن بڑھتی ہوئی مقبولیت اور جارحانہ سیاسی مہم کے آگے بے بس دکھائی دے رہا ہے۔

ایک بیانیہ میاں نواز شریف بھی لے کر چلے تھے۔ جو نہ جانے کہاں گم ہو گیا ہے۔ نون لیگ اور اس کے قائد کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے بیانیے کو مات کیوں اور کیسے ہوئی۔ اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے نے کیوں کر ملک گیر شہرت حاصل کرلی۔ درحقیقت نون لیگ تحریک انصاف کے منحرفین کی حمایت کی بدولت پنجاب میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب تو ہو گئی۔ مگر اس وجہ سے نون لیگ کی سیاسی ساکھ اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی وقعت ختم ہو گئی۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے اپنی سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، حمزہ نواز کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔

درحقیقت حکومت کی کسی جماعت کے پاس تحریک انصاف کے پائے کی میڈیا ٹیم موجود نہیں ہے۔ جو خان صاحب کے بیانیے کا توڑ اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا موثر انداز میں دفاع کرسکے۔ وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب اپوزیشن کا کسی حد تک مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگر ان کی آواز تحریک انصاف کی توانا آواز کے سامنے نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہے۔

خان صاحب ہر دوسرے دن کسی نہ کسی تقریب یا جلسے میں شریف برادران اور زرداری صاحب کو چور ڈاکو اور کرپٹ کے القاب سے نواز رہے ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ہی مراسلے کا معاملہ بھی زور شور سے بیان کرتے ہیں۔ ان کا انداز خطاب مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔ کیوں کہ عام آدمی خان صاحب کو سنجیدہ لے رہا ہے۔

حکومت کی طرف سے بھی توشہ خانہ کی اشیاء فروخت کرنے اور فرح خان کی کرپشن پر میڈیا پر بات کی جاتی ہے۔ مگر ان معاملات پر حکومتی موقف کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ کیوں کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ قانونی محاذ پر بھی فرح خان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ جس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ دراصل ہمارا قانونی نظام اس قدر پیچیدہ اور غیرمنصفانہ ہے کہ بڑے چور اپنی دولت کے بل بوتے پر ریلیف لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نظام عدل پر عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ کرپشن کی دنیا میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ اگر مقدمہ جیتنا چاہتے ہو تو مہنگا وکیل کرنے کے بجائے جج خرید لو۔

شہباز حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے۔ اس کے لیے مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف معاشی میدان میں حکومت کو چیلنجز درپیش ہیں۔ اور دوسری طرف اتحادیوں نے آنکھیں دکھانی شروع کردی ہیں۔ تیل اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور تاریخ کی بدترین مہنگائی کی وجہ سے عوام کے دلوں میں موجودہ حکومت کے لیے نفرت اور عمران خان کے لیے محبت ہر گزرے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے۔ کہ پنجاب کی حکمرانی کا تاج کس کے سر پر سجے گا۔ اگر تحریک انصاف یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ تو اس صورت میں پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق بھی متحدہ حکومتی الائنس کے ہاتھوں سے نکل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).