پیوما (1)


کراچی شہر کی اس مصروف شاہراہ پر گزرتے ہوئے شور مچاتے ٹریفک اور سائبریا کی کوئٹہ کے راستے آنے والی یخ بستہ ہواؤں کی ٹھنڈک سے بے نیاز ململ کے اجلے، سفید کرتے سے دل کو برماتی، بادلوں میں چھپے چاند کی مانند جھلملاتی جھاگ کی طرح ملائم Bordelle کی مشہور، سیاہ شیلف۔ برا پہنے، وہ جو دل نشین و جواں سال خاتون میری جانب پشت کیے بیٹھی ہیں، ان کا نام بینش مزمل واحدی ہے۔

ان کی نگاہیں اس وقت برطانوی جاسوسی ناول نگار جان لا کارے ( John Le Carre ) کی کتاب ”لٹل ڈرمرز گرل“ کے صفحات پر مرکوز ہیں۔ چہرے کا انہماک اور بدلتے تاثرات سے لگتا ہے کہ وہ کہانی اور کرداروں کے ساتھ ذہنی طور پر یکسوئی سے ہم رکاب ہیں۔ پاکستان میں اس مصنف کا نام اور اس کی کتب شاید بہت سے افراد کے لیے اجنبی ہوں مگر یہ خاتون فریڈرک فورسیتھ ہو، رابرٹ لڈلم یا ڈینل سلوا، سب ہی جاسوسی کی کتب بہت دل چسپی سے پڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے مطالعے میں مختلف جاسوسی اداروں سے وابستہ افراد کی لکھی ہوئی کتابیں بھی رہتی ہیں جیسے وکٹر شیمو کی ٹاور آف سائلنس، پال ویلمز کی آپریشن گلیڈیو اور ہربرٹ ہور کی سوانح حیات ماسٹر آف ڈسیٹ۔ یہ ذرا حیرت ناک بات ہے۔

میں اس خاتون کو ان کے اسکول کے نام بی۔ ایم۔ ڈبلیو ( جو بینش مزمل واحدی کا مخفف ہے ) سے پکارتا ہوں۔ باقی سب انہیں ان کے جوانی کے نام پیوما سے پکارتے ہیں۔ پیوما آپ تو جانتے ہی ہیں شمالی اور جنوبی امریکہ کی ایک نسبتاً بڑے سائز کی جنگلی بلی کا نام ہے۔ یہ بلی حسین، پھرتیلی، چالاک اور اپنی حرکات و سکنات کے حساب سے اپنے سے کچھ بڑے کزن، تیندوے کی مانند چھلاوے کی طرح پراسرار ہوتی ہے۔ میں بھی انہیں اکثر و بیشتر اس نام سے پکار لیتا ہوں۔ انہیں اس پر کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ آپ ان سے کچھ عرصے ملتے رہیں گے تو یقیناً اس بات کی داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ بینش مزمل واحدی پر یہ بی۔ ایم۔ ڈبلیو اور پیوما دونوں ہی نام کس قدر پھبتے ہیں۔

پیوما سے پہلے میں اپنا ذکر یعنی حماد بخاری کا ذکر خیر کیوں نہ کرلوں تاکہ محفل کی ابتدا تو ہو، ورنہ آپ کہیں گے کیسی محفل ہے ابتدا ہی نہیں۔ اپنے بارے میں بات کرنا مجھے ویسے تو بہت Vulgar (یہ لفظ میں نے انگریزی میں ہی استعمال کرنا بہتر سمجھا) لگتا ہے مگر چونکہ اس کہانی کا میں ایک ایسا مرکزی کردار ہوں جس سے ہر واقعے اور کردار کا گہرا تال میل ہے لہذا ایک بخاری سب پر بھاری، اگر میرا تذکرہ نہیں ہو گا تو دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی۔

آپ میری اس غیر مہذب جسارت کو یہ سوچ کر بھی معاف کر سکتے ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر اوباما نے چند یوم قبل اپنی الوداعی تقریر میں خود اپنا ذکر خیر 75 مرتبہ کیا تھا۔ ان کی اس خود ستائی پر کسی نے کہا کہ ”اگر خود پسندی پٹرول ہوتی تو اوباما کا مقام ایران اور سعودی عرب والا ہوتا“ ۔

میرا نام حماد بخاری ہے۔ میرا مرحوم دوست سعدی مجھے روز اول سے ہی آیت اللہ کہا کرتا تھا۔ میں نے اس کا کبھی برا نہیں مانا۔ مرکزی حکومت کا ملازم سعد نجم الدین المعروف بہ سعدی میرا جگری دوست تھا۔

میری موجودہ بیوی بینش مزمل واحدی ( المعروف بہ بی۔ ایم۔ ڈبلیو المعروف بہ پیوما جس کا تذکرہ تفصیل اور لطف سے آگے آئے گا۔ تب تک التجائے صبر) اس کا کہنا ہے کہ جو لوگ اللہ کو پیارے ہوجائیں، ان سے محبت کرنے والے پس ماندگان کا فرض ہے کہ وہ انہیں اس نئی اور انجانی دنیا میں چین سے جینے دیں۔ انہیں وہاں بھی ایسا ساز گار ماحول فراہم کریں کہ وہ اللہ کی محبت کا یکسوئی سے لطف اٹھا سکیں۔ زندہ لوگوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم انہیں تواتر سے یاد کر کے ڈسٹرب کرتے رہیں۔ سعد نجم الدین جسے ہم سب سعدی کہتے تھے، اب اللہ کو پیارا ہو چکا ہے۔ جو اللہ کو پیارے ہوجائیں انہیں ہمیں انگریزی کی اصطلاح کے مطابق ریسٹ۔ ان۔ پیس (R۔ I۔ P) کرنے دینا چاہیے۔

ہمارے گھرانے کا تعلق جھنگ کے علاقے چنڈ بھراونہ سے ہے۔ ہم یہاں کے جاگیردار ہیں۔ گاؤں میں پرکھوں کی حویلی کے علاوہ بھی میرے دو گھر اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک پرانی حویلی، پنڈ نیاز بیگ لاہور میں ہے۔ اس بستی کو بعد میں ٹھوکر نیاز بیگ کہا جانے لگا۔ ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں ایک نہر نکالی گئی تو بستی کے قریب پانی کے بہاؤ میں تیزی لانے اور اسے ایک اچھال دینے کے لیے آبشار کی طرح کی ڈھلان بنائی گئی۔ پنجابی میں اسے ٹھوکر اور انگریزی زبان میں Venturi کہتے ہیں۔ دوسرا یہ بڑا سا فلیٹ کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر جہاں خاکسار پیوما کے ساتھ مقیم ہے۔ کھارادر کراچی اور راولپنڈی میں ہماری تین تین مارکیٹیں اور بھی ہیں۔ یہ سب پراپرٹیاں الحمدللہ میری ہیں۔ یہ کسی آف شور کمپنی کی ملکیت نہیں۔ خادم ان کا بینفیشل اونر ہے ان کو ہولڈ کر رہی ہیں میری ہمشیرہ سیدہ معصومہ بخاری۔ ٹھیک ہے جی، اور یہ ایک باقاعدہ ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ ان کا سارا کرایہ الحمدللہ اس خاکسار کو ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے زندگی ہمیشہ سے بہت آسودہ گزری ہے۔ تمام عمر کوئی ملازمت نہیں کی۔ چھ جامعات میں ایک ہی ڈگری کی تلاش میں اندرون ملک اور بیرون ملک خاک چھانی۔ ڈگری تو کیا ملتی مگر بہکا بہکا سا باتوں کا یہ قرینہ آ گیا۔

سعد نجم الدین مرکزی حکومت کا ملازم، میرا جگری دوست تھا۔ وہ مسلکاً کٹر سلفی، تکفیری، خارجی، دیوبندیوں کا دلدادہ، سعودی عرب کی محبت میں ہمہ وقت خاک بر سر لہو بہ داماں رہتا تھا، طالبان کی محبت میں ایسا غلطاں و پیچاں کہ ملا عمر کا نام بھی کبھی امیر المومنین کہے بغیر نہیں لیتا تھا۔ میں اس کے برعکس ایرانی ثقافت کا دلدادہ، عزا دار، لبرل، مسلکی دہریہ۔

فارسی لٹک کا شکار ہو کر صدیقہ صدقے، گل لالہ، گل لالے اور فرخندہ، فرخندے بن جاتی ہیں کہ اس طرح کی اٹکھیلیوں کا فائدہ اٹھا کر میں نے ایک لچکیلی، صوتی جسارت پیوما کے نام کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کی، کئی ایک دفعہ اسے پیومے پکارا مگر اس نے ہر بار روہانسا ہو کر اعتراض کیا

کہ ”لے دے کر پرکھوں کی ایک نشانی، جوانی کا یہ نام بچا ہے۔ اسے بھی آپ over۔ stretch کر کے برباد کرنا چاہتے ہیں۔ نہ کریں“ ۔

میں نے فی الفور، انسیت کی اس سر پٹ دوڑتی، بے تکلف Ferrari کو اسی کے اعتراض کے گیراج میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پارک کر دیا۔

میں اور سعدی جب عقائد پر بات کرتے تو ایک دوسرے کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیتے تھے مگر دل میں میل تو کجا، لہجے میں معمولی تلخی تک نہ آتی، نہ ماتھے پر کبھی بل، نہ تعلقات میں کوئی کھنچاؤ۔

پیوما ہماری اس مثالی دوستی پر ایک ہی مدعا (سوال ) اٹھاتی تھی کہ جب میں اور سعدی آپس میں اتنی رواداری سے ایک جان دو قالب بن کر رہ سکتے ہیں تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان آخر کیا مسئلہ ہے۔ وہ کیوں امت مسلمہ میں بھائی بھائی بن کر رہ نہیں سکتے؟ جس پر میں کہتا کہ عربوں کو ہم اہل فارس کی ثقافتی برتری کو تسلیم کرنا ہو گا یہ سن کر سعدی مسکرا کر کہتا اور ان کے ایرانی دلداروں کو ہماری دینی فوقیت کو۔ سعدی سے میرے والہانہ لگاؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیوما نے اس کی موت کے بعد مجھے اس کی ہی ایک مردانہ توسیع ( Extension) سمجھا۔

سعدی کی دنیا سے جڑے رہنے کے لیے خود اس کی موت کے بعد بھی وہ میری بدستور دوست بنی رہی۔ میرے اس کے تعلق میں ذرا بھی کمی نہ آئی جس کی وہ سعدی کی زندگی میں شدت سے عادی تھی۔

سعدی کی موت کے بعد تین ماہ تک میری اس سے ملاقاتیں روزانہ کی بنیاد پر ہوتی رہیں۔ وہ بہت اجڑی اجڑی لگتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے جینے کی امنگ کھو بیٹھی ہو۔ میز پر رکھی ہوئی سعدی کی تصویر کو تکتے تکتے کھو کر رہ جاتی۔ میرا بنگالی کک منعم بھوئیاں مجھے بتاتا کہ اس نے میری اور زرمینے کی غیر موجودگی میں کئی دفعہ پیوما کو تصویر کے سامنے آنسو بہاتے اور اس سے باتیں کرتے دیکھا ہے۔

ان دنوں میرے ساتھ ایک افغان دوشیزہ زرمینے رہتی تھی۔ ہم دونوں اکثر پیوما کو لے کر سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے تھے۔ ان تمام مواقع پر بھی وہ بہت چپ چاپ رہتی تھی، سعدی کا ذکر آتا تو اس کی رنگ بدلتی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہنے لگتی تھیں۔

ان تین ماہ میں مجھے کئی دفعہ ایسا لگا کہ پیوما نے بہت آہستگی اور غیر علانیہ طور پر مجھے سعدی کے نعم البدل کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ زرمینے کی وجہ سے اس قربت میں کوئی خاص اچھال تو نہ آیا مگر ایسا کئی دفعہ ہوا کہ جب وہ موجود نہ ہوتی تو میں اور پیوما ایک دوسرے کے ہم آغوش بھی ہو جاتے اور قدرے معصومانہ سا باہم بوس و کنار بھی کرلیتے۔ جو اس کی جانب سے احتجاجاً ام ام ام اور اسٹاپ اٹ پر تھم تھم جاتا تھا۔

میری زندگی سے زرمینے اور پیوما کے رخصت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں کاروبار کے نئے مواقع نکل آئے تھے۔ مقامی افراد میں کچھ سے ہمارے پرانے روابط تھے۔ مجھے اس وجہ سے لاہور، تہران، افغانستان اور عراق کا سفر مسلسل درپیش رہتا تھا۔ پیوما اکثر میرے فلیٹ پر میری غیر موجودگی میں بھی آتی رہی پھر یکایک غائب ہو گئی۔

سعدی سے میری جنون کی حد تک محبت کا دوسرا ثبوت اس کی موت کے بعد افشا ہونے والے انکشافات اور شواہد تھے جن کی روشنی میں مقتدر حلقوں نے ایک خوف ناک فیصلہ کیا۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ان کے کارندوں کو بھرپور

Back۔ End معاونت کی ضرورت تھی سو وہ تعاون میں نے پر محض سعدی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔ حب الوطنی ہمارے گھرانے میں ہمیشہ سے عقیدے کی ہم سایہ بن کر رہی ہے۔ ہم معاف کر دیتے ہیں، بھولتے نہیں۔ ہمارے ہاں بدلہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔

سعدی مقابلے کے امتحان کے کڑے عمل سے گزر کر سرکار کے در دولت پر پہنچا تھا۔ میری اس سے ملاقات کراچی میں ہوئی۔ وہ ان دنوں ایک خفیہ ادارے سے وابستہ تھا۔ اس خفیہ ادارے میں اس کی پوسٹنگ میرے کزن اور سعدی کے بچپن کے دوست ثمر جعفری نے کرائی تھی۔

سعدی سے وزیر اعلیٰ ناراض ہو گئے تھے۔ ثمر کے بہنوئی ان دنوں وزارت داخلہ میں ایک جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ سیکرٹری نا اہل اور بہت ماٹھا تھا۔ اس وجہ سے وہ وزیر داخلہ کے جگر گوشے سمجھے جاتے تھے۔ دو گدھوں یعنی وزیر اور سیکرٹری کا بوجھ، ریس کا یہ ایک گھوڑا ہمارے شجاعت بھائی اٹھاتے تھے۔ ثمر کے منہ سے بات نکلی تو انہوں نے ماتحت خفیہ ادارے میں سعدی کو Deputation پر بلا لیا۔

باوجود اس کے سعدی کے پوسٹنگ آرڈر ماہ ڈیڑھ ماہ بعد نکلے۔ ادارے کے مقامی سربراہ رنگ رنگیلے پی۔ بی۔ گھانگرو ( پیر بخش گھانگرو جنہیں ان کے انگریزی مخفف کی وجہ سے کچھ حاسد مہاجر افسر ماتحت پلے۔ بوائے۔ گھانگرو کہتے تھے ) نے اسے گاڑی، ڈرائیور، کمرہ اسلام آباد سے فون پر احکامات ملتے ہی دے دیا۔ صدر دفتر کی ہدایت تھی کہ سعدی ایک Asset ہے۔ کراچی کی رگ و پے سے واقف۔ اس کا فائدہ اٹھا لو۔ یوں بھی گھانگھرو جس کا بچپن گاؤں کے ندی نالے پھلانگتے گزرا تھا وہ پلوں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ سعدی اسے بہت سارے ادھر ادھر پھیلے ہوئے کناروں کے درمیان برج لگا۔ ایک محفوظ زپ لائن جس پر لٹک کر وہ دوسرے کنارے پہنچ سکتے تھے۔

دیہاتی ہونے کے ناتے ان میں Native Intelligence کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ گو وہ بظاہر جٹ (سندھی زبان میں پینڈو) لگتے تھے۔ پہلی جنریشن کے معمولی تعلیم والے سفارش پر بھرتی افسر اللہ نہ کرے آپ کا کبھی پی۔ بی۔ گھانگرو کی انگریزی تحریر و تقریر سے واسطہ پڑے۔ وہ آپ کو کسی بدحال روہنگیا بیوہ کے آنسوؤں کا تھم تھم کر بہتا ہوا شکوہ لگتی تھیں۔ انہوں نے اسلام آباد کی تجویز پر آرڈر نکلنے سے پہلے ہی کراچی میں بد امنی پر پے در پے کئی رپورٹیں لکھوائیں۔ وہ محکمے میں سفارش سے آئے تھے، وفاداری اور معاملہ فہمی نے ان کے کیریر کو پروان چڑھایا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments