فون ٹیپنگ: کسی کی کال کیسے ٹیپ یا ریکارڈ کی جاتی ہے اور کیا اسے پکڑنے کا کوئی طریقہ ہے؟

عمیر سلیمی - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


فلموں میں ہم ایسا منظر اکثر دیکھتے تھے کہ کسی گھر یا عمارت کے باہر ایک وین میں بیٹھے لوگ اپنے آلات کی مدد سے اندر ہونے والی گفتگو سُن رہے ہیں۔ مگر اب کان لگا کر دوسروں کی گفتگو سننے کے اور بھی کئی جدید طریقے موجود ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر مبینہ وائر ٹیپنک، فون ٹیپنک اور آڈیو لیکس زیر بحث ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر رہنما شیریں مزاری نے الزام عائد کیا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں غیر قانونی طور پر فون ٹیپنگ کرتی ہیں اور عمران خان کی ’سکیور لائن ٹیپ کرنے پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے۔‘

تاہم وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’تحریک انصاف کے ترجمانوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ غداری کے ٹرینڈ اور اداروں کے خلاف مہم سابق خاتون اول نے چلوائی۔‘ وہ بشری بی بی کی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کا حوالہ دے رہی تھیں جو گذشتہ چند روز سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

جب اینکر شاہزیب خانزادہ نے اُن سے پوچھا کہ کیا تحریک انصاف کی جانب سے ’نیوٹرلز‘ پر تنقید کے بعد ان کے رہنماؤں کی آڈیوز ریکارڈ کر کے منظر عام پر لائی جا رہی ہیں تو اُن کا جواب تھا کہ ’سیاسی مفاد کے لیے ہم نے کبھی اس طرح کی کوششیں نہیں کیں۔ جب مریم نواز کی مبینہ آڈیو آئی تو یہی ڈھول بجاتے رہے تھے۔‘

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’عمران خان ماضی میں کہتے تھے کہ (وزیر اعظم کی فون) ریکارڈنگ بالکل صحیح ہوتی ہے۔ انھوں نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔‘ خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کو وزیر اعظم کی تمام گفتگو کا علم ہوتا ہے۔

مگر اس ساری بحث میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جدید دور میں فون ٹیپنگ کس طرح کی جاتی ہے اور کیا اسے پکڑنے کا کوئی طریقہ موجود ہے۔

فون کیسے ٹیپ کیا جاتا ہے؟

آسان لفظوں میں فون ٹیپنگ سے مراد کسی کے فون سے ہونے والی گفتگو کو بغیر اجازت سُننا اور ریکارڈ کرنا اور اس سے معلومات حاصل کرنا ہے۔

انفارمیشن سکیورٹی اور ٹیلی کام کے شعبے سے منسلک حسن عماد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسا نظام موجود ہوتا ہے کہ وہ شک کی بنیاد پر کسی بھی کال کو ٹیپ کر سکتے ہیں جبکہ اس طرح کی ٹیکنالوجی عام لوگوں کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لینڈ لائن جیسے پی ٹی سی ایل کی ایکسچینج میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے آلات لگا دیتے ہیں اور ان کے پاس مکمل رسائی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی کال کو ریکارڈ یا ٹیپ کر سکیں جبکہ موبائل نیٹ ورک میں بھی ایکسچینج ہوتے ہیں، ان میں بھی وہ اپنے آلات لگا کر کال کو سُن سکتے ہیں۔

اسے سمجھانے کے لیے وہ بتاتے ہیں کہ ’(فون کال کے دوران) نیٹ ورک کی جانب سے گیٹ وے تک ڈیٹا پہنچایا جاتا ہے مگر درمیان میں ایجنسیاں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کسی کو مانیٹر کر سکتی ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسے ٹیپ کیا جا رہا ہے اور کس کی کال ریکارڈ ہو رہی ہے، اس کا علم نیٹ ورک پرووائیڈرز کے پاس نہیں ہوتا۔

بی بی سی سے گفتگو کے دوران انھوں نے ہنستے ہوئے کہا ’ہو سکتا ہے اس وقت آپ کی اور میری کال بھی ریکارڈ ہو رہی ہو۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی کے لینڈ لائن نیٹ ورک کو ٹیپ کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اس کی تار کے ساتھ ٹیمپرنگ کی جا سکتی ہے۔ ’پی ٹی سی ایل یا کوئی اور لینڈ لائن کی صورت میں کیبل جس ڈسٹریبیوشن بوکس سے گزر کر گھر آ رہی ہو وہاں کوئی بھی شخص اپنا ٹیلی فون لگا کر آپ کے نمبر سے کال ملا سکتا ہے اور سُن سکتا ہے۔‘

فون ٹیپنگ

حسن عماد نے کہا کہ اگر فون کی کیبل پر کوئی کنڈے ڈال دے یا بارش کی وجہ سے لائن جوائن ہوجائے تو ایک کال کے دوران دوسری کالز کی بھی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔

سائبر سکیورٹی کے ماہر اعتزاز محسن کہتے ہیں کہ ہر ٹیلی کام سینٹر میں کچھ ڈیوائسز (آلات) لگی ہوتی ہیں جو خاص طور پر ’لافل انٹرسیشپن‘ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ ‘اگر کسی کی کال ٹیپ کرنی ہو تو ان ڈیوائسز میں وہ نمبر درج کر دیے جاتے ہیں ہے اور جیسے ہی وہ شخص کال ملاتا ہے تو اس کی کال کی ریکارڈنگ سنی جا سکتی ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ کریمینل انٹرسیپشن میں کوئی شخص آپ کے گھر یا دفتر کے باہر جا کر اپنی ڈیوائسز کے ذریعے کال کو غیر محفوظ چینل پر کنورٹ کر سکتا ہے، جیسے اسے تھری جی کو کم محفوظ نیٹ ورک ٹو جی پر منتقل کر دیا جاتا ہے جس میں انکرپشن اتنی مضبوط نہیں ہوتی۔

’جیسے ہی آپ کال ملاتے ہیں تو آپ کا موبائل سب سے قریب کسی ٹاور کو تلاش کرتا ہے اور اس سے کنیکٹ ہو جاتا ہے۔ اگر گاڑی میں ایسی ڈیوائس لگی ہو جو بطور ٹاور کام کرے تو موبائل کسی ٹاور کے بجائے اس ڈیوائس سے کنیکٹ ہو جاتا ہے۔‘

اعتزاز کا کہنا ہے کہ اگر کسی کا فون ہیک ہو جائے تو سپائیویئر کے ذریعے بھی کال سُنی جا سکتی ہے۔

جبکہ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق فون ٹیپنگ کے الزامات بہت سوچ سمجھ کر لگانے چاہییں کیونکہ یہ سیکرٹ ایکٹ اور آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کے علاوہ اخلاقی اعتبار سے بھی غلط ہے۔

انھوں نے آج نیوز سے گفتگو کے دوران بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے دعوؤں میں دراصل واٹس ایپ پر کالز اور وائس میسجنگ کی بات ہو رہی ہے جسے ریکارڈ کرنا اتنا مشکل نہیں خاص طور پر جب اس گفتگو میں شریک دوسرا شخص اپنے فون سے اسے ریکارڈ کر لے ’جو کہ عام ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ پر ریکارڈنگ کے لیے کئی ایپس بھی موجود ہیں جن کے ذریعے ایسا ممکن ہے۔

کیا کوئی طریقہ ہے جس سے معلوم ہو سکے آیا آپ کا فون ٹیپ ہو رہا ہے؟

پاکستان کے سویلین انٹیلیجنس کے ادارے اینٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک نے پاکستان میں فون ٹیپ کرنے کے سوال اور ماضی کے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ملک میں کام کرنے والی مختلف ایجنسیز ہیں جن کے اپنے اپنے اہداف ہوتے ہیں اور وہ اُن کی اپنے اپنے حساب سے نگرانی کرتے ہیں۔

’قانونی طور پر ‘سول ایکسچینجز’ کو مانیٹر کرنے کا اختیار صرف آئی بی کے پاس ہے اور کسی اور ادارے کے پاس ایسا کرنے کا حق نہیں ہے اور یہ بھی صرف وزیر اعظم کی اجازت کے ساتھ ہی ممکن ہوتا ہے اور یہی قانون ہے۔‘

ان کے مطابق بعض اوقات چیزیں بہت تیزی سے ہوتی ہیں اور کبھی کبھی صورتحال ایسے بھی ہو جاتی ہے کہ روزمرہ کے واقعات پر آئی بی کا ڈائریکٹر جنرل خود فیصلہ کر لیتا ہے تاہم اس کی توثیق وزیراعظم ہی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کارگل جنگ: جب انڈین انٹیلیجنس نے جنرل مشرف کا فون ٹیپ کیا

بینظیر بھٹو کے فون ٹیپنگ الزامات سے بلاول کے فون ٹیپ کرنے کے مطالبے تک

‏آئی ایس آئی کو پتہ ہے میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں: وزیر اعظم عمران خان

اُدھر انفارمیشن سکیورٹی ماہر حسن عماد کہتے ہیں کہ اگر یہ دیکھنا ہو کہ آیا آپ کی کال ٹیپ ہو رہی ہے یا نہیں تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کسی طرح کا بگاڑ یا مخصوص شور تو نہیں آ رہا یا کیا آپ کو اپنی ہی آواز دوبارہ تو نہیں سُنائی نہیں دے رہی۔

انھوں نے بتایا ہے کہ ٹیلی کام کے شعبے میں بارہا فون ٹیپنگ کی شکایات موصول ہوتی ہیں جس پر کہا جاتا ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنی لائن ’ویری فائی‘ کریں یعنی یہ چیک کریں کہ آپ کی تار کسی جگہ سے متاثر تو نہیں ہے۔ اس صورت میں ٹیلی کام حکام اسے ٹھیک کرتے ہیں اور تاروں کو گھر کے اندر اور باہر سکیور کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی کام سروس پرووائیڈرز کے پاس ایسا کوئی مخصوص طریقہ نہیں کہ وہ دیکھ سکیں کہ آیا کسی کا فون ٹیپ ہو رہا ہے تاہم اس کا حل یہ ہے کہ ’آپ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروا سکتے ہیں کہ مجھے کال کے دوران مشکوک شور سنائی دیتا ہے اور مجھے شک ہے کہ میری کال ٹیپ ہو رہی ہے۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا میری کال انکرپٹڈ اور سکیور ہے یا نہیں۔۔۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس کا جواب دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ صارفین اپنے موبائل فون میں کسی بھی طرح کی غیر ضروری ایپ نہ رکھیں جس سے فون ٹیپنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ’کسی بھی ایپلی کیشن کو اتنی ہی پرمشنز (اجازت) دیں جتنی اس کے لیے ضروری ہیں۔ جیسے اگر کیلکولیٹر کی ایپ آپ سے کیمرے اور مائیکروفون کی اجازت مانگے تو اس کا یہ کام نہیں ہے۔‘

اعتزاز کہتے ہیں کہ لافل انٹرسیشپن سے بچنا مشکل ہے مگر سمارٹ فونز سے کی جانے والی فون ٹیپنگ سے بچنے کے لیے صارفین محفوظ میسجنگ ایپس جیسے سگنل استعمال کر سکتے ہیں۔ ’اگر فون استعمال کرنے کے دوران آپ کا نیٹ ورک اچانک تھری جی سے ٹو جی پر منتقل ہو جائے تو یہ بھی ایک ریڈ فلیگ ہے۔’

جبکہ حسن کا کہنا ہے کہ ’واٹس ایپ کی کال انکرپٹڈ ہوتی ہے یعنی یہ ایک ایلگورتھم میں سے گزر کے جاتی ہے اور اسے درمیان میں کوئی نہیں سُن سکتا لیکن لینڈ لائن کی کال میں انکرپشن نہیں ہوتی۔‘

وہ صارفین کو مشکوک ایپس کے علاوہ وی پی اینز (ورچوئل پرائیوریٹ نیٹ ورک) سے بھی دور رہنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ ’اگر آپ وی پی این کنیکٹ کرتے ہیں تو آپ کسی سرور کے ساتھ کنیکٹ ہو جاتے ہیں اور وہاں سائبر حملوں کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایپس صرف وہ کریں جو پلے سٹور یا ایپل سٹور سے تصدیق شدہ ہیں۔ پبلک وائی فائی یا ہاٹ سپاٹ پر کبھی انٹرنیٹ استعمال نہ کریں اور اس کے ذریعے کالز نہ کریں۔ کافی شاپ، میٹرو اور ائیرپورٹس کے پبلک ہاٹ سپاٹ پر سائبر حملے ہو سکتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments