تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ آئینی دائرے میں مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں: قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اِن کیمرہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔

اس اجلاس میں شریک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے بی بی سی کو بتایا کہ کمیٹی کے تمام شرکا اس بات پر متفق تھے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے جائیں۔

قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پانچ گھنٹے تک جاری رہا، جس میں فوجی حکام کی طرف سے ڈیڑھ گھنٹے تک بریفنگ دی گئی جبکہ ساڑھے تین گھنٹے تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔

اس اجلاس کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف نے کی کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف بیرون ممالک کے دورے پر تھے۔

راجہ ریاض کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے متعلق آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے شرکا کو بریفنگ دی اور کہا کہ مذاکراتی کمیٹی ملکی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی ٹی ٹی پی سے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو کمیٹی مذاکرات کر رہی ہے اس میں فوجی اور سویلین اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے چند روز قبل کہا تھا کہ حکومت نے فوج کو تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اجازت دی ہے۔

اس اجلاس میں فوجی قیادت کی طرف سے اس امر کی یقین دہانی کروائی گئی کہ حکومت یا پارلیمنٹ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر من وعن عمل درآمد ہو گا۔

اس اجلاس میں حزب مخالف کی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے حکومت کو سٹئیرنگ کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

اس اجلاس میں شریک جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اجلاس کے شرکا کی طرف سے کہا گیا کہ جو گروپ ملک آئین اور عدالتی نظام کو تسلیم نہ کریں یا اس پر تحفظات کا اظہار کریں تو ان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہیں۔

انھوں نے کہا کہ عسکری قیادت سے کہا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تا کہ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لی جائے۔

انھوں نے کہا کہ جب اس معاہدے کی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر اجلاس میں شریک ہوں۔

سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں کیونکہ وہاں پر تحریک طالبان کے رہنما سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ انھوں نے اجلاس کے دوران یہ نکتہ اٹھایا کہ وزّیر اعظم گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کرتے ہیں اس لیے قومی سلامتی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھی مدعو کیا جائے۔

دوران اجلاس سینیٹر مشتاق نے عسکری قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کے عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا پس منظر

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کابل میں مذاکرات کے حالیہ دور میں شریک ہونے والے قبائلی عمائدین نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ دو روزہ مذاکرات کے دوران طالبان کی جانب سے فاٹا کی سابقہ حیثیت بحال کرنے سمیت دیگرتمام مطالبات پر بات ہوئی ہے۔

دوسری جانب اس مذاکراتی کمیٹی میں شامل بعض شرکا نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان فاٹا کے انضمام کا فیصلہ واپس لینے کے علاوہ چند دیگر مطالبات سے تقریباً دستبردار ہو چکی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے لیے کابل بھیجی گئی اس کمیٹی کے 53 ممبران کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اس کے ممبران میں طالبان پر اثر رکھنے والے قبائلی رہنماؤں اور عمائدین کے ساتھ ساتھ طالبان رہنماؤں کے قریبی رشتے دار بھی شامل ہوں۔

یہ 53 رکنی مذاکراتی کمیٹی جنوبی وزیرستان سے سینٹ کے سابق رُکن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا صالح شاہ کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے، جس میں سابق گورنر انجینیئر شوکت اللہ، موجودہ وفاقی وزیر ساجد طوری، سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ اور تمام قبائلی اضلاع کے اہم ترین عمائدین شامل ہیں۔

کابل میں ان مذاکرات کا اگلا دور ایک مہینے کے اندر ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

پاکستان سے بھیجی گئی اس کمیٹی میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے رشتے داروں اور دوستوں کی موجودگی کی تصدیق بیرسٹر سیف، پیپلز پارٹی کے باجوڑ سے رہنما اخونزادہ چٹان اور دیگر رہنماؤں نے بھی کی ہے جن کی موجودگی کا مقصد طالبان کو اس بات پر راضی کرنا تھا کہ وہ پاکستان میں پُرتشدد کارروائیوں کو ترک کر دیں۔

مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اس کمیٹی کے غالباً واحد غیر قبائلی رکن ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یوں تو پہلے سے ہی فوج اورٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے لیکن تحریک طالبان اور بعض سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیچ کچھ مسائل حل طلب تھے جس کے لیے اس کمیٹی کے طالبان کے ساتھ کابل میں یہ مذاکرات ضروری تھے۔

پاکستانی فوج، تحریک طالبان، حملے

بیرسٹر سیف کے مطابق کابل میں دو دن کے دوران ایک، ایک دن میں مذاکرات کے چار، چار دور بھی ہوئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو دنوں کے دوران فریقین نے کتنی محنت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔

واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کے لیے ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ شامل تھا۔

کابل کا دورہ کرنے والی کمیٹی میں شامل قبائلی علاقے کی پہلی سیاسی جماعت ’تحریک اصلاحات پاکستان‘ (سابقہ متحدہ قبائل پارٹی) کے وائس چیئرمین ملک حبیب نور اورکزئی نے گذشتہ ماہ بی بی سی کے لیے صحافی محمود جان بابر سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کابل جانے والی اس کمیٹی کو سویلین حکومت اور عسکری قیادت دونوں کی مکمل تائید اورحمایت حاصل تھی اور دونوں اس معاملے پر سیم پیج (ایک صفحے) پر ہیں کیونکہ یہ سب امن چاہتے ہیں بلکہ امن کے قیام کے معاملے پر تحریک طالبان پاکستان میں بھی مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کابل میں اُن کی کمیٹی سے ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی، مولوی فقیر محمد اور تمام اہم رہنماؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی نے بھی حصہ لیا جبکہ فریقین کے مابین ثالثی کے فرائض افغان طالبان کی جانب سے سراج الدین حقانی نے سرانجام دیے۔

ملک حبیب نور اورکزئی کا کہنا تھا کہ ان کی کمیٹی حکومتی نمائندہ جرگہ کے طور پر ٹی ٹی پی سے بات چیت کر رہی تھی اور وہ خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ قریبا 98 فیصد مسائل حل ہو چکے ہیں بس دو فیصد پر بات چیت جاری ہے اورقوم اس حوالے سے جلد ہی خوشخبری سُنے گی۔

’ہمیں معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی والے بھی نہ صرف امن چاہتے ہیں بلکہ وہ باعزت واپسی بھی چاہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments