”دربار“ کی سُن گُن رکھنے کی صلاحیت


ہمارے آئین میں جب آٹھویں ترمیم موجود تھی تو اس کے تحت میسر اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر غلام اسحاق خان اور سردارفاروق خان لغاری نے 1990ء کی دہائی میں یکے بعد دیگرے تین وزرائے ا عظم کو فارغ کیا تھا۔دونوں کی حکومتوں پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ سپریم کورٹ میں اپنے عمل کے دفاع کے لئے دونوں صدور کی جانب سے صحافیوں کی ایک فہرست بھی رکھی جاتی تھی۔اس میں شامل افراد کے بارے میں اس دعویٰ کے ساتھ کہ ان کے ٹیلی فون ”ٹیپ“ ہوا کرتے تھے۔اس بدنصیب کا نام تینوں بار پیش ہوئی فہرستوں میں موجود تھا۔ سچی بات ہے کہ میں ایک لمحے کو بھی اس کی بابت نہ حیرا ن ہوا نہ پریشان۔اس ضمن میں برتی میری ”لاتعلقی“ بہادری کا اظہار نہ تھا۔یہ محض اپنی ”اوقات“ کی پہچان تھی۔

”ایجنسیوں“ کی کڑی نگاہ تلے صحافت کا فریضہ نبھانے کا ذکر میں نے خودکو ”کبھی ہم بھی خوب صورت تھے“ ثابت کرنے کے لئے نہیں کیا۔ عرض فقط یہ کرنا ہے کہ وطن عزیز میں ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں۔ 1950ءکی دہائی ہی میں انگریزوں سے ورثے میں ملے ریاستی ڈھانچے نے طے کردیا تھا کہ ”آزاد“ ہوجانے کے باوجود ملک کو ”غیر ذمہ دار“ صحافیوں اور سیاستدانوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی امور بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔”انہیں ”سنبھالنے“ کے لئے ”حکمرانوں“ کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے اور ”امور سلطنت“ فقط ان اداروں ہی میں سکھائے جاتے ہیں جو ہماری عسکری اور افسرشاہی پر مشتمل اشرافیہ کی ”تربیت“ کے لئے مختص ہیں۔ریاست کے دائمی اداروں سے ”بالاتر“ نظر آتے جو بھی حکمران تھے ان کی ہر حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی۔

یہ نگاہ فقط منتخب یا غیر منتخب ”سول“ حکمرانوں پر ہی نہیں رکھی گئی۔الطاف گوہر افسر شاہی کی صفوں سے ابھرے ایک بہت ہی کائیاں افسر تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان 1960ءکی دہائی میں ہمارے ”دیدہ ور“ ہوئے تو ان کے قدرت اللہ شہاب کی طرح بہت قریب ہوگئے تھے۔انہیں ایوب خان کی ”آپ بیتی“ لکھنے کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ ان کی تجویز پر 1968ءکے برس کو ”عشرہ ترقی“ مکمل ہوجانے کی وجہ سے ”سال جشن“ کے طورپر منانے کا فیصلہ ہوا۔ عوام مگر وہ جشن منانے کے بجائے احتجاجی مظاہروں میں مصروف ہوگئے۔چند دنوں بعد یہ بات عیاں ہو گئی کہ ایوب خان اقتدار پر اپنی گرفت کھو رہے ہیں۔ الطاف گوہرنے متعدد تحاریر کے ذریعے تفصیل سے بتایا ہے کہ اقتدار پر گرفت کھونے کے اس موسم میں ایوب خان کے لگائے آرمی چیف جنرل یحییٰ نے ایوان صدر کی حرکات وسکنات پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کردی تھی۔ ایوب خان کے اے ڈی سی رہے ارشد سمیع خان نے اپنی کتاب میں بلکہ یہ انکشاف بھی کررکھا ہے کہ سابق صدر جب دل کی تکلیف کے باعث بیمار ہوئے تو اس کے فوری بعد جنرل یحییٰ ایوان صدر کے بارے میں ہر پل کی خبر رکھنے کومصر رہتے تھے۔

ایوب خان اور جنرل یحییٰ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ہمارے پہلے ”سویلین“ تھے جو 1973ء کا آئین تیار ہونے سے قبل پاکستان کے صدر کے علاوہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن ان کے پرانے ساتھی اور بااعتماد وزیر خزانہ تھے۔ انہوں نے بھی اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب میں انکشاف کیا کہ بیگم نصرت بھٹو کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب نے ان دنوں کے ایوان صدر سے ایک ”آلہ“ برآمد کیا تھا۔ جو ٹیلی فون ٹیپ کرنے کو یقینی بناتا تھا۔

واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔سب کو بیان کرنا شروع ہو گیا تو اس کالم کو کئی اقساط تک پھیلانا ہوگا۔ مکدی گل فقط یہ ہے کہ پاکستان کے وزرائے اعظم ہماری قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کی ”نگاہ“ میں رہتے ہیں۔ان کے ٹیلی فون ہی ٹیپ نہیں ہوتے۔وہاں آئے ”مہمانوں“ کی گفتگو بھی ”ریکارڈ پر رکھنے“ کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے۔

عمران خان صاحب اس حقیقت کی بابت ہرگز غافل نہیں تھے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر ان کا ا یک انٹرویو بھی بہت رش لے رہا ہے جس میں وہ ہمارے ایک مشہوراینکر منصور علی خان کو بہت فخر سے یہ بتارہے ہیں کہ پاکستان کے جاسوسی ادارے ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں۔ وہ اس کے بارے میں لیکن قطعاََ فکرمند نہیں ہیں۔کیونکہ وہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح مبینہ طورپر بدعنوان اور خائن نہیں۔ ان کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے۔ وہ کسی ایسے عمل میں ملوث ہی نہیں ہوتے جو ریکارڈ پر آجائے تو ان کی شرمندگی کا باعث ہو۔

ٹیلی فون پر ہوئی ایک گفتگو مگر چند روز قبل ”لیک“ ہوگئی ہے۔اس کے ذریعے ثابت یہ کرنا مقصود تھا کہ عمران خان صاحب کی اہلیہ“ غیر سیاسی“ ہرگز نہ تھیں۔بذات خود بلکہ ٹیلی فون اٹھاکر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے انچارج کو بتاتیں کہ عمران صاحب کے مخالفین کو ”غدار“ ثابت کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے۔جو آڈیو لیک ہوئی ہے اس کی”صداقت“ پر سوالات اٹھانے کے بعد تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نما مگر اب ”نجی زندگی“کے تقدس کی پامالی کے خلاف دہائی مچانا شروع ہوگئے ہیں۔ڈاکٹر شیریں مزاری نے تو یہ مطالبہ بھی کردیا ہے کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لیتے ہوئے یہ معلوم کرے کہ نام نہاد “Secure”یا محفوظ قرار پائی ٹیلی فون لائن پر سابق وزیر اعظم اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے مابین ہوئی گفتگو ٹیپ کیسے ہو گئی۔

ڈاکٹر مزاری میری قابل احترام دوست رہی ہیں۔ وہ ”دفاعی امور“ کی نامور استاد بھی ہیں۔ انہوں نے اس شبے کا اظہار کیا ہے کہ غالباََ ہماری ”ایجنسیوں“ کے پاس ”سیکیور“ ٹیلی فون لائن پر ہوئی گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ امریکہ نے شاید ”میر جعفروں“ کو “Secure” تصور ہوتی گفتگو فراہم کی ہو گی۔ ڈاکٹر مزاری جیسی مستند استاد کی زبانی یہ دعویٰ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ کم از کم انہیں تو ہمارے اداروں کی رسائی والی صلاحیت کا بخوبی علم ہونا چاہیے تھا۔”دربار“ کی سن گن رکھنے کی صلاحیت ہمارے ہاں ہزاروں سال سے موجود ہے۔ اسی باعث تاج پہن لینے کے بعد ہمارے اکبر اعظم جیسے بادشاہ بھی اقتدار پر کامل گرفت حاصل کرلیتے تو سب سے پہلے اپنی ”دائی“ کو فارغ کرتے۔دوسرانمبر بیرم خان جیسے ”اتالیق“ کا تھا۔امریکہ کو اپنے حکمرانوں پر نگاہ رکھنے کے لئے بلکہ ہم سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments