جوش خطابت یا شوق غلاظت


ایک وقت تھا کہ میدان سیاست میں تعلیم یافتہ اور ذہین شرفا ہی اترا کرتے تھے، شاہی نظام میں بھی حکمران اور وزراء کے لئے حصول علم لازم و ناگزیر تھا۔ شہزادوں کے اتالیق اور اساتذہ انہیں تاریخ، ادب، شاعری، اخلاقیات، رعایا کا مزاج، رسوم و رواج، ان کے مسائل، طریقۂ حکمرانی، ڈپلومیسی، سیاسی داؤ پیچ، ملکی قانون، امور سلطنت، مختلف مذاہب کی تاریخ و شرع پڑھایا اور سمجھایا کرتے تھے۔ وزیر و مشیر بھی اسی طرح صاحب علم ہوتے تھے۔ شاہی دربار کی گہری چالیں، کہیں کسی ایک امیر سے دوسرے وزیر کی چپقلش، بادشاہ کی خوشنودی اور اعتماد کی خاطر سیاسی چومکھی بھی بالکل آج کی مانند ہی تھی۔

مگر وہ سازشیں جو کسی ایک کی موت پر ختم ہوئیں، ان میں بھی ایک دوسرے کے سامنے مروت اور مہذب انداز گفتگو ترک نہیں کیا جاتا تھا۔ چاہے تلواریں کھنچ جائیں مگر ایک دوسرے کے حسب نسب، محرم خواتین (ماں، بہن، بیوی، بیٹی حتی کہ کنیز یا خواص) کا احترام واجب سمجھا جاتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ کل عالم کے لئے نمونۂ اخلاق صلعم کے عاشقان نے اپنے لئے ایک الگ ملک حاصل کر لیا کہ محبوب الہی کی زندگی و تعلیمات کو معیار بنا کے رہ سکیں۔ پر افسوس کہ جو سوچا تھا وہ ہو نہ سکا، رفتہ رفتہ معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتا گیا۔ سیاستدان قوم کے لئے گویا دیگ کا وہ ایک چاول ہے جس سے پکوان کی خوبی یا خامی جانچی جاتی ہے۔ ہوا یوں کہ اس دیگ میں بہت دفعہ وہی پکوان پکایا تو گیا مگر ہر بار اجزائے ترکیب پہلے سے کمتر قسم کے استعمال کیے گئے۔

سو اب یہ عالم ہے کہ کم علم، کم عمر، کچے ذہنوں کے جذباتی کارکن تو ایک جانب خود سیاسی لیڈر اور اس کے ترجمان اخلاق سے عاری گفتگو کو سیاست کی معراج سمجھتے ہیں۔

لیڈر خطاب میں اپنے مخالفین کو تضحیک آمیز ناموں سے پکارتا ہے، طنزیہ انداز میں ان کے کردار اور چال ڈھال کا مضحکہ اڑاتا ہے، اپنی گزشتہ کارکردگی یا اگلی بار حکومت بنانے کا موقع ملنے پر عوام کی بہتری کے لئے نئے منصوبوں کا ذکر کرنے کے بجائے، تھڑوں پے بیٹھے موالی کی طرح پھبتیاں کستا ہے، جگت لگاتا ہے، خود بھی محظوظ ہوتا ہے اور اپنے حامیوں، پرستاروں اور جانثاروں کو بھی اس بیہودہ گوئی سے لطف اندوز کرتا ہے۔ لیڈر کے جانثار ہوں یا ہیرو کے پرستار، پیروں کے معتقد ہوں یا ولیوں کے مرید، انسانی فطرت یہی ہے کہ وہ جسے پسند کرتا ہے، اس جیسا ہونے کی آرزو کرتا ہے، لڑکے اپنے پسندیدہ شخصیت کے لباس، انداز اور ہیر اسٹائل کی نقالی کرتے ہیں، لڑکیوں کا پسندیدہ ہیروئنوں کے ساتھ یہی عالم ہوتا ہے۔

وائے نصیب کہ اس بار یہ جوشیلے، جذباتی اور سیاست کو صرف اپنے لیڈر کی دی عینک سے دیکھنے والے، اس کے ہر کہے کو آمنا صدقنا ماننے والے اس سیاسی بد تہذیبی کو اپنے آئیڈیل لیڈر کا انداز دلیرانہ مان کر اپنا چکے ہیں۔ ذرا سے اختلاف پے ایسے کھل کے بکھرتے و بپھرتے ہیں کہ چھجو قصاب کے کانوں کے کیڑے بھی جھڑ جائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اناڑی سیاست دان کبھی اپنے ورکر کی سیاسی تربیت نہیں کر سکتا۔ جسے خود سلام، کلام اور احترام کے آداب سیکھنے کی اشد ضرورت ہو، وہ کسی کو کیا سکھائے گا؟ لہذا بے مہار اور بے لگام گفتار کے غازیوں کا یہ ہراول دستہ ہر جانب اپنے جھنڈے گاڑتا پایا جاتا ہے، کوئی فیس بک پے کسی کی والدہ کے بارے میں نامناسب کلمات سے رنگ جما رہا ہے تو کوئی ٹویٹر کے محاذ پے طوفان بدتمیزی مچا رہا ہے، کوئی دستار محفوظ ہے نہ کوئی چادر۔ بقول جون، ہمارا بحیثیت قوم اب یہی حال ہو چکا۔

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments