ابلیس کا شکوہ


شیطان نے حالات سے تنگ آ کر ملک سے فرار ہونے کا سوچ لیا۔ اس کی پریشانی عقلی طور پر دلیل رکھتی ہے کہتا ہے جس ملک میں اس کی کوئی حیثیت نہیں اس کو کوئی پہچانتا نہیں وہاں اس کے رہنا کا کیا جواز ہے۔ ایک لمبی آہ بھری اور کہنے لگا میں تو ہر دور کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو اللہ کی نافرمانی پر اکساتا آیا ہوں۔ اپنی ٹینشن کو کم کرنے کے لیے ایک گولی کہا کر کہنے لگا جہاں میں ڈاکٹر اور قصاب میں فرق نا جان سکوں جہاں ہر کوئی میری کرسی کے پیچھے میری جان لینے کو تیار ہے میں اتنے فسادی ماحول میں کیسے سانس لوں۔ میں تو ہر لمحہ انسان کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہوں اور یہ میرے وہم و گمان سے بہت آگے آنے والے کئی نسلوں تک کی انسانی بربادی کا ایک جامع منصوبہ بنائے اپنے طاقت میں آنے کا انتظار کرتے ہیں۔

میں نے بہت سوچ کر یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے ان کو اس قابل بنایا کے یہ ایک دوسرے کا خون چوس سکیں لیکن اب تو یہ وہی خون بے دریغ سڑکوں پر بہا کر ضائع کرتے ہیں بلکہ کئی بار تو میں بندہ تلاش کرتا رے جاتا ہوں اور مجھے علم بھی نہیں ہوتا اس کے ساتھ کیا ہوا۔

ساری عوام مجھ پر لعن طعن کرتے ہیں کئی دفعہ تو ایسا ہوا مجھ پر وہ الزام بھی آیا جو جرم میں چاہ کر بھی نا کر سکا لیکن یہ بے خوف و خطر کر گزرے۔

مجھے حالات کی سنگینی کا اس وقت علم ہوا جب ان حاکموں نے عوام کے لیے ایسے منصوبے بنائے کہ میرا لقب مجھ سے چھین گیا اور انہوں نے اعزاز کے طور پر خوشی سے تسلیم کر لیا۔ میری کرسی پر بیٹھنے کے لئے آپس میں دست و گریبان ہیں۔

شیطان ہوتے ہوئے نظام میں مداخلت کرتے ہوئے بھی مجھے ان سے ڈر لگنے لگا ہے۔ جو کام کرتے ہیں مجھے پر بہکاوے کا الزام لگا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

میں کسی ایسے ملک کیوں نا جاؤں جہاں مجھے کم از کم کوئی شاگرد تو بنانے کا موقع ملے جہاں میری کوئی سنی جائے یہاں تو جس کو موقع دوں وہ میرا استاد نکلتا ہے۔

(نوٹ) ۔ شیطان نے تصویر اتروانے سے منع کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments