نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا


وہ ڈرا سہما سا بس کے ایک خالی کونے میں بیٹھا اپنی زندگی کے گزشتہ ماہ و سال میں کھویا ہوا تھا۔ بار بار مڑ کر باہر نگاہ ڈالتا کہ کہیں اس کی منزل نکل نا جائے، مگر ان سب بھاگتے راستوں اور گزرتی منزلوں، سب سے ہی تو انجان تھا وہ۔ اچانک اسے تئیس نمبر ویگن میں دروازے کے ساتھ جڑے کنڈکٹر کی بڑی یاد آئی۔ بھیکے وال موڑ سے چنگی امر سدھو تک ہر سٹاپ پر کنڈکٹر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ تب کتنی کوفت ہوتی تھی۔ یوں لگتا کہ سب کو اپنا سٹاپ پتا ہوتا ہے پھر بھی یہ نجانے اتنا شور کیوں مچاتا ہے۔ آج یہاں پردیس میں ہر اگلا سٹاپ سامنے سکرین پر لکھا آ رہا ہے، پھر بھی پتا نہیں یہ ڈر کیوں، کہ اس کی منزل نکل نا جائے۔

اسے یاد آیا کہ کیسے پسینے سے شرابور سواریوں کو ویگن کی سیٹیں بھر جانے کے باوجود تب تلک ٹھونسا جاتا کہ فرش سے چھت تک کوئی کونا خالی نا بچتا۔ اور جب سیٹ پر بیٹھا کوئی خوش نصیب اپنے سٹاپ پر اترتا تو رکوع کی حالت میں کھڑی آدھی سواریوں کو نیچے اترنا پڑتا تا کہ نکلنے والے کی جگہ بن سکے۔ اب یہاں آدھی خالی دو منزلہ بسوں میں پیر پسارے بیٹھنے کی وہ خوشی کیوں نہیں مل پاتی جس کی تمنا تھی۔ اور جب کوئی بوڑھا بزرگ ویگن میں نیند کے ہچکولے کھاتا اسے کہتا کہ پتر اگر آنکھ لگ گئی تو گلاب دیوی پر مجھے اٹھا دینا تو کیسا کمینہ سا غصہ آتا کہ یہ کیوں بے وجہ سہارے کے طلبگار ہوتے ہیں۔

اب یہاں پردیس میں جب بے سہارا ہوا تو اسے اس بھری بس میں کوئی ایک بھی ایسا نا ملا جس سے پوچھ لے کہ اگلا سٹاپ کون سا ہو گا۔ ویسے بھی کئی سال سے اپنی کار میں سفر کرتے اسے ویگنوں اور بسوں کی عادت ہی کہاں رہ گئی تھی۔ اچانک اسے اپنی گاڑی کی یاد ستائی، جس کا احسان بھی تھا اس پر، کہ اسے بیچ کر وہ چند ہزار ڈالر اپنے ساتھ لانے کے قابل ہوا تھا۔ پتہ نہیں اب کس کے پاس ہو گی۔ کون چلا رہا ہو گا۔

کتنی مختلف ہے، وہاں اور یہاں کی صبح، اس نے سوچا۔ اپنے دیس میں صبح الماری کھول کر قطار میں لٹکی استری شدہ پتلون شرٹس میں سے صحیح جوڑے کا انتخاب کتنا مشکل ہوتا۔ پھر ہر کپڑے کو دوبارہ استری کیا جاتا کہ الماری میں ٹنگے ان پر چند بل پڑ جاتے۔ یہاں تو آسانی ہے، وہی نیلی جینز اور اوپر جیکٹ۔ ساتھ چاہے رات والی ٹی شرٹ صبح پہن جاؤ یا دھلے کپڑوں کے ڈھیر سے کچھ نکال لو۔ کیا فرق پڑتا ہے۔

اس نے اپنے بیگ سے فائل نکالی اور ایک بار پھر اپنے سی وی پر نظر ڈالی جو اب دو سے ایک صفحے کا رہ گیا تھا، اور سوچا اب بہتر ہے۔ پچھلے چند ماہ سے اس نے اپنے پچھلے مرتبے کے لحاظ سے جس بھی نوکری کی درخواست دی، کامیابی نا ملی۔ حتیٰ کہ چھوٹی موٹی نوکریوں کا معاملہ نا بنا کہ انہیں لگتا یہ باؤ آدمی ان کے کسی کام کا نہیں۔ اب تو اسے بھی لگنے لگا تھا کہ واقعی وہ کسی کام کا نہیں۔ آخر کار وہ آج ایک جگہ انٹرویو دینے جا رہا تھا۔ یہاں وہاں دھکے کھا کر اسے اتنی سمجھ آ گئی تھی کہ اگر کوئی نوکری چاہیے تو اپنے سی وی سے تقریباً ہر وہ بات نکالنی پڑے گی جس پر اسے فخر تھا۔ سیدھی سادی دو ایک چھوٹی موٹی نوکریاں، ایک بی اے کی ڈگری، ساتھ میں چند لائنوں کا اقرار نامی کہ بندہ بہت محنت سے جی لگا کر کام کرنے کو تیار ہے، بس رکھ لیجیے۔

یہاں سے واپس بھی تو نہیں جا سکتا، کہ کتنے ارمان کتنے خواب لے کر وہ اپنے ملک سے چلا تھا۔ ویزا لگنے کے بعد کیسے وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کو اپنے ملک کے نظام کی خامیاں بتاتا، کہتا کہ یہ ملک صرف سست اور ناکام لوگوں کے لیے بنا ہے اگر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے تو یہاں سے نکل جائے۔ کتنی کوفت ہوتی تھی اسے کہ وہ ساری توانائی جو کسی بامقصد عمل کے لیے خرچ ہونا چاہیے وہ یہاں سسٹم سے لڑنے میں ختم ہو جاتی۔ سب سے تو کہتا پھرتا تھا کہ دور ملک والوں نے اس کی قدر کی اسے ویزہ دے کر بلا رہے۔

اسے کہاں پتا تھا کہ ان سب کو صرف پڑھے لکھے مزدور درکار ہیں۔ جو انگریزی بھی جانتے ہوں اور کچھ دنیا کے بارے میں بھی۔ تا کہ ان کم آبادی والے ملکوں میں ورک فورس کا مسئلہ نا بنے اور چھوٹے بڑے کاروبار روانی سے چلتے رہیں۔ اس سوچ نے اسے مزید یاسیت میں مبتلا کر دیا۔ ایک بار پھر اس نے سامنے لگی سکرین پر دیکھا تو تیسرے نمبر پر اسے اپنے سٹاپ کا نام چمکتا نظر آیا۔ اس نے فائل واپس اپنے بیگ میں ڈالی اور ذہن میں انٹرویو میں پوچھے جانے والے ممکنہ سوالات کے جواب سوچنے لگا۔

یک دم اسے لگا کہ بس کی اوپری منزل سے نیچے دروازے تک پہنچنے میں سٹاپ چھوٹ نا جائے۔ تو اپنا بیگ اور جیکٹ تھام کر وہ نیچے دروازے کے پاس آ کھڑا ہوا۔ پھر ماضی کے دھندلکوں سے ایک یاد چٹخی۔ اپنی پہلی نوکری کی یاد۔ وہ تو یونہی مل گئی تھی۔ ایک اخبار نگار کلاس فیلو  نے اسے پکڑا اور اپنے ایڈیٹر کے سامنے جا بٹھایا۔ بولا کہ یہ کام کا لڑکا ہے اسے رکھ لیجیے اور اس وعدے پر کہ پہلے ماہ کی تنخواہ نہیں مانگے گا، رکھ بھی لیا گیا۔

کاش کوئی یہاں بھی کہے کہ برخوردار کام کرو مگر تنخواہ اگلے ماہ سے ملے گی۔ اس کا سٹاپ آ گیا تھا۔ پچیس کلومیٹر کا سفر دو بسیں اور دو ہی ٹرینیں بدلنے کے بعد دو گھنٹے میں طے ہو پایا تھا۔ خاص کر زیر زمین ٹرینوں کے جال نے جہاں زمین سے کچھ سو فٹ نیچے کئی کئی منزلیں آباد تھیں وہاں اسے بڑی دقت ہوئی۔ کچھ سمجھ نا آتا تھا کہ شمال جنوب بھاگتی ان ٹرینوں میں سے کون سی ایسی ہے جو اسے اس کی منزل کے قریب کر دے۔ وہ اب اس ملٹی نیشنل چین کے سامنے کھڑا تھا جہاں ایک انجان شخص یہ فیصلہ کرنے والا تھا کہ دسیوں سالوں کی محنت اور کامیابیوں کے بعد اپنا سب کچھ سمیٹ کر یہاں اپنی زندگی بدلنے کے شوق میں آنے والا تیسری دنیا کا یہ فرد کسی کیش کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہونے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments