یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کی تضحیک


روزمرہ امور کے سلسلے میں سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے اکثر یوٹیلٹی سٹورز پر لمبی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ ان لائنوں میں بزرگ خواتین و حضرات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جو موسم کی شدت کے باوجود کھڑے خود کو رومال، پرنے، دوپٹے، کاغذ وغیرہ سے ہوا دیتے یوٹیلٹی سٹور کا دروازہ کراس کرنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں طویل انتظار کی زحمت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ عموماً ایسا بھی ہوتا ہے جب اس صبر آزما انتظار کے بعد ، ان کی باری آتی ہے اور آٹا، گھی یا چینی وغیرہ کے ختم ہونے کی اطلاع دے کر اگلے روز تشریف لانے کا کہا جاتا ہے، تو ان پر جو بیتتی ہے، یہ وہی جانتے ہیں۔ پھر بد دعاؤں کا اک پلندا ہوتا ہے، ارباب اختیار کی بے حسی پر اظہار بے بسی ہوتا ہے اور وہ ہوتے ہیں۔

یوٹیلٹی سٹورز کے باہر قطاریں بنائے یہ مخصوص طبقہ آٹے، چینی، دالوں وغیرہ پر چند روپے بچانے کی خاطر اپنا اس قدر وقت برباد کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز سبسڈائز نرخوں پر اشیاء فراہم کرتے ہیں اور کاؤنٹر پر کھڑے ملازمین گویا احسان کر کے یہ اشیاء دے رہے ہوتے ہیں، جو کہ ایک محدود مقدار سے زیادہ دی بھی نہیں جاتی۔

اوپر سے محض ایک شے کے لئے مزید اشیاء کی (بلا ضرورت) خریداری کی شرط رکھ کر بھی لوگوں کی توہین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں یوٹیلٹی سٹورز کے عملے کا لوگوں کے ساتھ مضحکہ خیز رویے سے پیش آنا بھی قابل مذمت ہے۔ یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ مناسب مالی حیثیت والے لوگ یوٹیلٹی سٹورز کا رخ نہیں کرتے بلکہ بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر جانے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں انہیں ایک ہی چھت تلے ضروریات کی تمام اشیاء میسر آ جائیں۔ لہذا جو مخصوص طبقہ یوٹیلٹی سٹورز پر جاتا ہے، تضحیک آمیز رویہ اپنا کر انہیں سستی اشیاء لینے اور چند پیسے بچانے کی ”سزا“ نہیں ملنی چاہیے۔ انہیں دھتکارنے یا مذاق اڑانے کے مترادف رویہ رکھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

ملک بھر کے یوٹیلٹی سٹورز کا یہی عالم ہے، لمبی قطاریں، اشیاء کی قلت، سٹاف کا رویہ اور عوام کی تضحیک۔ ملک کے معاشی حالات جس سمت جا رہے ہیں، ایسے میں جہاں سفید پوش افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں یوٹیلٹی سٹورز کی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔ ملک بھر میں لگ بھگ 4 ہزار یوٹیلٹی سٹورز ہیں، جو مختلف اشیاء پر مجموعی طور پر 17 ارب سالانہ کے قریب سبسڈی دے رہے ہیں۔ متوسط طبقے کے علاوہ بالخصوص خط غربت کی لکیر کو چھوتا طبقہ یوٹیلٹی سٹورز سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس وقت بھی کم و بیش 2 کروڑ سے زائد خاندان اس سبسڈی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ بلکہ استفادہ کیا کر رہے ہیں، سستی اشیاء لینے اور چند روپے بچانے کے لئے اپنا آدھا دن برباد کرنے کی گویا ”سزا“ بھگت رہے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات جس سمت جا رہے ہیں، مستقبل قریب میں یہ مذکورہ تعداد 2 کروڑ سے دگنی ہونے کا اندیشہ ہے۔

دوسری جانب بجٹ تقاریر میں بھی وزرائے خزانہ یوٹیلٹی سٹورز کا بجٹ پیش کرتے ہوئے عوام کو اشیائے خورد و نوش سستے داموں فراہمی یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یہ عزم صرف یوٹیلٹی سٹورز تک محدود رکھا جاتا ہے۔ اسے وسعت دے کر گلی محلوں میں بھی پھیلانا چاہیے۔ ہر یوسی میں کم از کم 100 دکانیں اس ضمن میں مختص کی جانی چاہئیں تاکہ عوام کو لائنوں میں لگ کر خواری نہ ہو۔ ان 100 دکانوں میں حکومت کی متعین کردہ سبسڈائز اشیاء کی وافر فراہمی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ یوں حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو گا۔

یہ امر بھی ضروری ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر رش کا دباؤ کم کرنے کے لئے بڑے ڈپارٹمنٹل سٹورز پر ڈی سی کاؤنٹر بنائے جائیں جہاں اشیاء کی تسلسل کے ساتھ فراہمی ہوتی رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کے باہر قطاروں میں لگے افراد کے لئے سائے اور پانی کا بندوبست کیا جانا چاہیے، تاکہ افراد کو انتظار زحمت نہ لگے۔ نیز عملے کے رویے کی شکایات کے لئے کوئی موثر نظام بنایا جائے تاکہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ کی جا سکے۔

جس ملازم کے رویے کی شکایت کی جائے اس کے بارے میں فوری تحقیقات عمل میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ یوٹیلٹی سٹور پر آنے والے افراد کو احساس کمتری نہ ہو کہ ان کی غریبی یا سفید پوشی کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ عزت اور خوش دلی سے پیش آنا عملے کی ذمہ داری ہے، جس سے عہدہ برا ہونا ان پر واجب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments