Will You Marry Me?


”کیا آپ مجھ سے دوسری شادی کریں گی؟“
”دوسری؟ آپ کی تو ابھی پہلی نہیں ہوئی؟“
”پہلی تو ہماری ذات میں خاندان میں ہی ہوتی ہے۔ مگر مجھے آپ جیسی بیوی چاہیے ”۔
”تم بھی سنگل ہو، میں بھی سنگل ہوں۔ ہمارے آئیڈیاز بھی ملتے ہیں تو ہمیں ایک ہو جانا چاہیے“
”میرے خیال میں آپ کے قدموں تلے میرے بچوں کی جنت ہے“
”میں آپ کو اپنی حوروں کی ملکہ بنانا چاہتا ہوں“

”میں ویسے سوچ رہا تھا کہ آپ کی اور میری سوچ بہت ملتی ہے۔ اگر آپ کی شادی نہ ہوئی ہوتی تو میں آپ سے شادی کر لیتا“

” میں آپ کی ایج گروپ کا ہوتا تو میں آپ سے شادی ضرور کرتا آپ کو کیوں کسی نے یوں جانے دیا۔ آپ تو بالکل پرفیکٹ ہیں“

”میرا بہت دل کرتا ہے میری ماں کے پاس بھی کھانا بنا کر دینے والی کوئی آپ جیسی سگھڑ بہو ہو“

”میری بیوی آپ جیسی تعلیم یافتہ ہو تو میری بہن کا تھیسس کروا سکتی تھی۔ آپ اگر شادی کے لئے ہاں کر دیں تو گھر اور تعلیم اکٹھے ہو جائیں گے۔ ورنہ میرے جیسی کرسی والوں کو لڑکیاں بہت مل جاتی ہیں“

”اگر آپ مجھ سے شادی کر لیں تو شادی کے بعد آپ کو تو آرام سے ٹی وی پہ نوکری مل جائے گی یوں ہم امیر لوگوں جیسی زندگی گزاریں گے“

”میں آپ سے شادی کے لئے تیار ہوں۔ مجھے چاہیے بھی کچھ نہیں۔ بہت مختلف لڑکا ہوں۔ بس آپ کی فیملی ہمیں، آپ کے گھر میں رہنے کو ایک کمرا دے دے۔ میں شہر میں سیٹ ہونا چاہتا۔ جب میری نوکری لگ جائے گی تو ہم اپنا الگ گھر لے لیں گے“

”دیکھو میں اتنا بڑا ٹی وی سٹار ہوں اب اتنا تو ڈیزرو کرتا ہوں کہ اکلوتی لاڈلی بیٹی ایک کنال کا گھر اپنے ساتھ لائے۔ آخر ایک نام ایک مقام ہے میرا اور میرے خاندان کا ۔ دنیا کو پتا لگنا چاہیے“

”میرا ایک گھر آپ کے شہر میں بھی ہے سوچتا ہوں آپ کے ساتھ بسا لوں۔ “
” میرے گھر والے رشتہ تلاش کر رہے ہیں۔ کیا آپ کے گھر والے بھی کر رہے ہیں؟“

”بس اور کچھ نہیں لڑکی شہر کی ہو وہ اپ ہو۔ گاؤں میں بہت رعب پڑتا ہے سچی۔ جس کی بیوی شہری ہو۔ ویسے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد واپس نہ جانے کا جواز مل جاتا ہے۔ بس دنیا یہی کہتی ہے بیوی تھلے لگا ہوا ہے“

”ارے ہم تو آپ کے غلام بن کر رہیں گے۔ بس ایک نظر کرم کر دیں“

”جب سے آپ کو دیکھا ہے بس یہی کہنا چاہتا تھا کہ ہمیشہ سے میری خواہش تھی آپ جیسی بیوی ہو نی چاہیے مگر یا نصیب تین شادیوں کے بعد آپ ملیں۔ مگر میں آپ سے ابھی بھی شادی کرنا چاہتا ہوں“

”میری بہت خواہش ہے کہ میری ماں کی خدمت کرنے والی سمجھ دار اور نرم مزاج بیوی مجھے ملے۔ جو بھلے مجھ پہ ڈومینیٹ کرے مگر میری ماں کو خوش رکھے۔ میری بہنیں ابھی تو پڑھ رہی ہیں ہم ان سے گھر کا کوئی کام نہیں کرواتے۔ شادی ہو کر اپنے ہی گھر چلی جائیں گی۔ ماں نے تو ہمارے پاس ہی رہنا ہے۔ مجھے آپ میں یہ سب خوبیاں دکھائی دیتی ہیں“

یہ اور ایسے بہت سے بے تکے قسم کے جملے ہمارے سماج میں لڑکیوں اور عورتوں کو سننے پڑتے ہیں۔ جابجا سننے اور سہنے پڑتے ہیں بلکہ چھپانے بھی پڑتے ہیں۔ ان سب جملوں میں صرف ”میں“ موجود ہے۔ دوسرے کی رائے، خواہش، ارمان، خواب کی کوئی اہمیت نہیں نہ گنجائش ہے۔

کہنے والوں کو یہ علم نہیں ہو تا کہ ان کے ایک ایک جملے میں ان کی پوری پوری نیت اور سارے کی ساری تربیت عیاں ہو رہی ہے۔
دوسرے کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ بد تہذیب اسے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔

چونکہ سماج نے انہیں سمجھایا کہ وہ مرد ہیں ان کو ایک عدد مرجھایا ہوا پھول لگا ہوا ہے اس لئے وہ کسی کو کچھ بھی، کہیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ گھروں میں مردوں کی جہاں کسی قسم کی تربیت نہیں ہوتی وہاں یہ بھی نہیں ہوتی کہ ایک عورت کو پر پوز کیسے کیا جاتا ہے اسے بات کیسے کی جاتی ہے۔

بہت نفیس بنیں گے تو انگریزی پہ اتر آئیں گے۔ ایک چاکلیٹ ایک پھول ایک بھالو اور ول یو میری می۔ ایسے واقعات کچھ برس قبل یونیورسٹیوں سے وائرل بھی ہوئے۔

لیکن کیا مرد نے کبھی یہ سوچا کہ وہ ایسا خود کیوں نہیں بنتا کہ ایک تربیت یافتہ عورت اس کو پروپوز کر سکے۔

جوانی تو سب پہ رنگین آتی ہے۔ اس کے بعد ذرا عمر پہ شام کی اداسی آئی تو مرد بارہ مہینے کی حاملہ پیٹ، پتلون، گالوں والی گھوڑی بنا ہوتا ہے۔ اچھا کما بھی رہا ہو گا تو اجڈوں جیسا حال احوال بنا ہوتا ہے۔ کمینوں جیسا رہین سہن فیشن سمجھے گا۔ جسم سے بدبو الگ آ رہی ہو گی۔ دوست یاروں سے معلوم ہو گا کہ سادہ بندا ہے۔ دل کا صاف ہے۔

اب دل کے پکوڑے کب تک زندگی میں کھا کے سادگی سے پیٹ بڑھا جا سکتا ہے اور کب تک دنیا میں رہتے ہوئے قبر کی آگ میں سویا جا سکتا ہے؟

آپ یقین کر لیں دولت لاکھ آپ کی زندگی کو مصنوعی رنگ دے سکتی ہے مگر آپ اصل نہیں بدل سکتی کبوتر کے گھر کبوتر اور کوے کے گھر کوا ہی پیدا ہو گا۔

والدین تربیت نہ کریں سماج سے کچھ سیکھ لیں۔
عورتوں کے دلوں پہ راج کرنا آسان نہیں ہو تا وہ خمیر لطیف کی پیداوار ہیں۔

فیس بک کی کمرشل دنیا پہ پچھلے دنوں ایک پوسٹ فیصل آباد کے حوالے سے لگائی تھی۔ جس کو تعصب سمجھا گیا لیکن چند ماہ پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شہر میں کورٹ میرج کے سب سے زیادہ کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے اس شہر کا اپنا ہی مقام ہے اس کی وجہ وہاں کی بڑھتی ہوئی کوئی سماجی گھٹن ہے۔

ایک ہی ہفتے میں تین کیس ذات پہ ریل کے انجن کی طرح ویگ پہن پہنے ٹھہرے ہوئے حمل، مرے ہوئے مرکز اور دھتکارے زمانہ شوقینوں کے سامنے آ جائیں تو دل پھٹنے والا ہو جاتا ہے۔

دوسری قسم ان رشتہ ڈالنے والے مردوں کو وہ ہوتی ہے جو اپنی کولیگز اور دوستوں کو ”اوپر پیش کیے گئے پیراہن“ کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی دوشیزہ تلاش کی جائے۔

او ماں کے لاڈلو۔ غور کرو اپنے آپ پہ۔

جب ماں باپ کی منتخب شہزادیاں تمہاری پھوڑوں پھنسیوں سے بھری ناک پہ نہیں چڑھتی تھیں۔ جب یہ پھوڑے پھنسیاں داغ بن کے جم گئے تو اب تم کو ساری عیاشیوں کے بعد گھر بسانا یاد آ گیا۔ اب تمہاری بادشاہی دماغ سے اتر گئی۔ اب تم پی ایم والے فقیر بن گئے۔

اس سماج میں عورت کی شادی نہ ہونے کی درجنوں وجوہات نکالی جا سکتی ہیں لیکن مرد کی شادی نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ مرد خود ہے۔

جب بڑھاپا دستک دینے لگتا ہے تو انہیں بیوہ کرنے کو کسی کی بیٹی درکار ہوتی ہے پدر شاہی نظام ہے عورت کو کسی بھی عمر میں گدھا مل جائے تو ۔ اسے کلمہ شکر ادا کرنے کو کہا جاتا ہے

عورت کے در پہ بڑھاپا دستک دے تو اس کے لئے تسببح کے دانے اور جائے نماز کے سجدے بچتے ہیں کچھ دعائیں موت کی اور ڈر مولوی کے بچتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھنے سے پہلے کہیں وہ شرط نکاح نہ رکھ دے۔ پہلے مجھ سے نکاح پڑھوا دیں پھر میں جنازہ پڑھوا دوں گا۔ کہ بے نکاحی عورت کا جنازہ نہیں ہوتا۔

وہ کبھی کسی سہیلی کو خود نہیں کہتی کہ کسی گدھے کی تلاش کر دو ۔ گرچہ کچھ مخلص سہیلیاں سمجھا رہی ہوتی ہیں کہ گدھوں کا سماج ہے۔ گدھے کو گدھے کی اوقات پہ رکھو تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ کچھ گدھوں نے ہمیں بھی دوشیزہ تلاشی پہ لگا رکھا ہے۔ اگر کہو تو بات کروں۔

اس پہ کمال مہان وہ خواتین کولیگز ہوتی ہیں جن کے اندر کی ماں جاگ جاتی ہے۔ بس پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ جو لڑکی بالی، عورت ذرا خوش نظر آئی اس پہ مدعا ڈال دیا اور ایسی تعریفیں کہ دل کرے ان ظالموں سے کہہ دو ”یار طلاق لے اور اسے شادی کر لے“

ہم شادی کو گناہوں والی میت سے زیادہ وزنی کرتے جا رہے ہیں۔ جس سے اس کے نا ہونے کے امکان مزید روشن ہوتے جائیں گے۔ جن مردوں کو ابھی تک کسی نے بیٹی نہیں دی۔ ان کے دوستوں سہلیوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ بابا جی کلچر پرموٹ مت کریں۔ ان کے نخرے جوانیوں میں کاجل، مادھوری، کرینا کترینہ والے تھے۔ نہ انہوں نے اسلام قبول کیا نہ انہوں نے ہاں کی۔

جب آپ نے رشتہ ڈال کر اپنا جی ہلکا کر دیا۔ دوسرے کا بھاری اتنا ہی کافی ہے لیکن دوسرے کو اس شودر کے ساتھ شادی کے لئے شگون کے دھاگے باندھنے پہ مجبور مت کریں۔

اپنی شادی اگر آپ کی وقت پہ ہو گئی اور آپ کا موقف تھا کہ رشتے آسمانوں پہ بنتے ہیں تو ان بچی کھچی خواتین اور مردوں کے بھی رشتے آسمانوں پہ ہی بننے دیں۔ زمین پہ فساد ڈالنے کی کوشش مت کریں۔

بقلم معروف ادیبہ آمنہ مفتی ”پاٹے پرانے بابے“۔ پاٹے پرانے بابے ایک وسعت سے بھرا لفظ ہے اس کا تعلق عمر سے ہی نہیں ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے جو کسی عمر کے مرد کو بھی کسی بھی عمر میں طاری ہو سکتی ہے کیونکہ معاشرہ مردانہ ہے۔ یہ ذہنی پاٹے پرانے بابے بھی ہو سکتے ہین جن کی عمر کی گنتی زیادہ نہ ہو۔ یہ عمر کی گنتی زیادہ ہو جانے والے بھی ہو سکتے ہیں، یہ اپنے آپ کو تجربہ کار ماہر دکھانے کے شوقین حلیہ پاٹے پرانے میں بھی بدل سکتے ہیں۔ اس جغرافیے و تاریخ والے کی لسانیات کا آپ ہم خود اندازہ فرما سکتے ہیں۔

وسعت پہ بات کریں، تو ایک کالم اسی کی وسعت پہ لکھا جا سکتا ہے۔

لیکن اب سب حضرات و خواتین سے گزارش ہے یہ دنیا بہت وسیع ہے مگر اب آپ کی ہاتھوں کی پوروں پہ ہے۔ ہمت کریں اپنا رشتہ آپ تلاش کریں۔ اس کے لئے دائی کی مدد بالکل مت لیں۔

بہت سے فیس بک پیج، وٹس ایپ گروپ، سائٹس یہ کام کر رہے ہیں۔ کسی کا دل دکھانے سے بہتر ہے اپنا منہ شیشے میں دیکھے بنا فوٹو اور پروفائل سائٹ پہ لگائیں تو آپ کو اپنی پوری قابلیت اور اہلیت کا اندازہ خود ہو جائے گا۔

شادی سے بچے کچھے لوگ بھی آپ کے شر سے محفوظ رہ جائیں گے اور پہلے سبق تربیت کے طور پہ بتا دیں کہ سکول سے آپ کو علامہ اقبال کی یہ شاعری تربیت کے لئے پڑھائی جا رہی تھی۔ آپ تشریح کے لئے پڑھتے رہے ہیں۔ اب ذرا تربیت کے طور پہ پڑھیں

لیکن آپ پاٹے پرانوں سے پھر التماس ہے کہ

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر !
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

میں شاخ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments