“اکیسویں صدی اردو میں فکشن کی صدی ہوگی” گوپی چند نارنگ


انٹرویو : خالد سہیل

گوپی چند نارنگ اردو کے مایہ ناز ادیب ’نقاد اور مقرر تھے۔ پچھلے دنوں وہ فوت ہو گئے۔ میں نے کئی برس پیشتر کینیڈا میں ان کا انٹرویو لیا تھا۔ میں نے نعیم اشرف سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بڑی محبت سے اس انٹرویو کو میری کتاب۔ پگڈنڈیوں پہ چلنے والے مسافر۔ سے ٹائپ کر دیا۔ اب میں اسے‘ ہم سب ’کے قارئین کے سامنے فخر سے پیش کر سکتا ہوں۔ یہ انٹرویو قدرے طویل ہے لیکن مجھے قوی امید ہے کہ گوپی چند نارنگ کے خیالات اور نظریات آپ کو ادب کے بارے میں نئے خطوط پر سوچنے کی ترغیب و تحریک دیں گے۔

خالد سہیل
۔

سہیل: نارنگ صاحب! یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کینیڈا تشریف لائے اور مجھے آپ کے ساتھ ایک شام گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میری یہ خواہش ہے کہ پہلے میں چند سوال آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں اور پھر چند سوال آپ کی ادبی زندگی کے حوالے سے پوچھوں۔

نارنگ: بصد شوق!

سہیل : میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ نے کس قسم کے ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کا بچپن اور نوجوانی کا زمانہ کیسا گزرا اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے آپ کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا؟

نارنگ : میں نے بہت ہی سخت ماحول میں پرورش پائی۔ میری پیدائش بلوچستان میں ’دکی‘ ضلع ’لورا لائی‘ میں ہوئی۔ یہ علاقہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے پاس ہے۔ میرے والد صاحب بلوچستان کی ریونیو سروس میں افسر خزانہ تھے۔ اور ہر دو تین سال کے بعد ان کا تبادلہ کسی اور علاقے میں ہو جایا کرتا تھا۔ انھیں تحصیل کے عملے کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا تھا اور چھوٹی چھوٹی تحصیلوں میں جانا پڑتا تھا۔ بعض تحصیلیں اتنی چھوٹی ہوتی تھیں کہ وہاں سکول بھی نہ ہوتا تھا یا صرف پرائمری سکول ہوتا تھا۔

میرا آبائی وطن لیہ ہے، جو مغربی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان سے پہلے واقع ہے۔ وہیں ہمارے دادا پردادا کی زرعی زمینیں تھیں اور کاشتکاری تھی۔ والد صاحب خاندان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے۔ فارسی اور سنسکرت میں بھی استعداد رکھتے تھے۔ پشتو بھی بخوبی بولتے تھے۔ اردو گھر کی زبان کی طرح تھی۔ ہماری والدہ سرائیکی بولتی تھیں۔ جہاں سکول نہیں ہوتا تھا میں لیہ کے گورنمنٹ ہائی سکول میں آ جاتا تھا۔ اس طرح میری تعلیم کا سلسلہ بار بار ٹوٹتا اور بنتا رہا۔

لیہ کے سکول میں میرے ایک دوست تھے، ریاض انور۔ افسوس کہ حال ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا تعلق کشفی ملتانی کے خاندان سے تھا اور شعر اچھا کہتے تھے۔ بعد میں جمیل الدین عالی کے ساتھ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ کے لیے بہت کام کیا۔ بنگالی ثقافت کے دلدادہ اور عاشق تھے۔ پیشے کے اعتبار سے ایڈووکیٹ تھے اور لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے۔ اسکول میں میری اور ان کی رفاقت ادبی لگاؤ کی وجہ سے ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ دوسری جماعت میں، میں جب موسیٰ خیل میں تھا۔ جہاں کی آبادی صرف چند سو نفوس پر مشتمل تھی۔ تحصیل کا دروازہ بہت بڑا تھا۔ چوبی، لوہے کی بہت بڑی بڑی کیلوں سے جڑا ہوا، رات کو بند کر دیا جاتا تھا۔ اور دو سنتری سنگین پہنے پہرہ دیتے تھے۔ جب جب انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کا دورہ ہوتا تھا اور رقوم کی ضرورت ہوتی تھی تو خزانے کے قفل اور مہریں کھولی جاتی تھیں۔ روپوں کی مہر بند تھیلیاں مختلف ادائیگیوں کے لیے نکالی جاتی تھیں۔

اس زمانے کا ایک دلچسپ منظر بار بار میری آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے۔ اس زمانے میں بنڈل آتے تھے۔ ابھی پیپر کرنسی یعنی نوٹوں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا چاندی کا روپیہ تھا۔ اصیل چاندی کی مالیت کے اعتبار سے یا پھر اشرفیاں۔ مجھے یاد ہے جو کھوٹا سکہ آ جاتا تھا اسے ایک خاص قسم کی قینچی سے کاٹا جاتا تھا اور دو ٹکڑے کر کے منسوخ کر دیا جاتا تھا۔ اگر کسی کو پانچ سو روپوں کی ادائیگی کرنی ہوتی تو روپے گن کر کم اور تول کر زیادہ دیے جاتے تھے۔

اس زمانے میں ایک خاص قسم کا فرش میں گڑا ہوا ترازو ہوا کرتا تھا۔ جس میں روپے تولے جاتے تھے۔ اور پھر مہر بند کر کے قبائل کو دے دیے جاتے تھے۔ پٹھان یا بلوچ کبھی بھی انگریزوں کے اس طرح سے مطیع نہیں رہے، جس طرح اس زمانے کے ہندوستان کے دوسرے لوگ مطیع تھے۔ زیادہ تر تو سڑکوں پر بجری تھی۔ سڑکیں آج کی طرح پکی نہیں تھیں۔ کمیونیکیشن کے ذرائع کم تھے۔ وڈیروں اور قبائلی سرداروں کو سال میں تین یا چار بار ان کا وظیفہ دے دیا جاتا تھا۔ جرگہ ہوتا تھا۔ کندھوں پر بندوقیں لٹکائے گھیر دار بڑی بڑی شلواریں پہنے سینکڑوں لوگ صبح سے شام تک جرگہ کرتے تھے اور یوں حکومت برطانیہ کا سکہ رواں رہتا تھا۔

والد صاحب کے دفتر میں ایک ٹیلیفون بھی تھا۔ پوری تحصیل کی ڈاک وہیں آتی تھی۔ اور اس ٹیلی فون سے جو کھڑا ٹیلیفون تھا جس میں ریسیور لٹکتا رہتا تھا، اس سے بہت دیر تک ہیلو ہیلو کرنے کے بعد لورالائی، کوئٹہ اور فورٹ سنڈیمن اور دیگر شہروں سے باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ساری تحصیل میں بس یہی ایک ٹیلیفون تھا اور وہ والد صاحب کے پاس تھا۔ اس سے کافی رومانوی ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ والد صاحب کی تحصیل میں مرکزی پوزیشن ہوتی تھی۔

وہ زمانہ دوسری جنگ عظیم کا تھا۔ اس زمانے میں اردو میں بے تحاشا لٹریچر چھپتا تھا۔ والد صاحب کے پاس پچاس پچاس سو سو کے رسائل کے بنڈل آتے تھے۔ جوش ملیح آبادی بعد میں جس رسالے ”آج کل“ کے ایڈیٹر بنائے گئے وہ رسالہ پہلے پشتو میں نکلا کرتا تھا۔ جس کا نام تھا ”نن پرون“ ۔ شاید اس کا مطلب ’آج کل‘ تھا۔ کیونکہ کچھ عرصہ بعد اس کے ساتھ اردو رسالہ بھی نکلنے لگا اور اس کا نام رکھا گیا ’آج کل‘ ۔ یوں تحصیل میں جو رسالے آیا کرتے تھے، والد صاحب ان کو سکول میں اور تحصیل کے اہل کاروں کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک دو کاپی ہم دفتر سے اڑا لیا کرتے تھے۔ ان میں غزلیں، نظمیں ہوتی تھیں اور افسانے بھی۔ اس طرح، غنچہ، پھول، ادبی دنیا، ہمایوں، آج کل، معارف، نگار اور کئی دوسرے رسائل سے تعارف ہوا۔ میں تیسری چوتھی جماعت کا طالب علم تھا کہ یہ رسالے پڑھا کرتا تھا۔ ہر چیز سمجھ میں بھی نہیں آتی تھی۔

والد صاحب کو بھی پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ سنسکرت کی کتابیں بھی پڑھتے تھے اور اردو کی بھی۔ اور ہارمونیم بھی بجاتے تھے۔ سہگل اور اختری بائی فیض آبادی، جو بعد میں بیگم اختر کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان کو بڑے گراموفون پر بڑے چاؤ سے سنتے بھی تھے اور ہارمونیم پر گایا بھی کرتے تھے۔

مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ہم جس علاقے میں رہتے تھے۔ اس کے گرد و نواح میں بہت بڑا باغیچہ تھا۔ اسی سے ملحق پولیٹیکل ایجنٹ کا ڈاک بنگلہ تھا۔ جس میں سوئمنگ پول بھی تھا۔ باغیچے کے تازہ پھل انھیں پیش کیے جاتے تھے ان میں STRAWBERRIES بھی، آلوچے بھی، خوبانیاں بھی، انار بھی، زرد آلو بھی، شفتالو بھی اور ایک خاص پھل بھی جو سیب سے ملتا جلتا تھا۔ ہمارا گھر بھی پھلوں سے بھرا رہتا تھا۔ ان باغیچوں کے مالی اکثر و بیشتر بہار سے آئے ہوئے ”بھومی ہار“ ہوتے تھے جو باغیچے کی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ بارہا میں نے ان جھونپڑیوں میں رامائن کا پاٹھ سنا۔ رامائن کے ضمن میں بالمیکی کا ذکر آتا ہے۔ اس کا تعلق برہمن یا کسی اونچی ذات سے نہیں تھا۔ والد صاحب ان مالیوں کو بالمیکی یا چوہدری کہہ کر پکارتے تھے۔ چوہدری کا لقب یوں یاد ہے کہ تقسیم کے بعد ان مالیوں کا ایک خاندان دہلی میں آ بسا تھا۔

تقسیم کے بعد والد صاحب پاکستان میں رہ گئے تھے۔ انھوں نے پاکستان سروس کا انتخاب کر لیا۔ ان کے احباب کا حلقہ وسیع تھا۔ اور ان کا بھی اصرار تھا کہ وہ نقل مکانی نہ کریں۔ البتہ بچے انھوں نے ہندوستان بھیج دیے۔ 1956 ء میں جب وہ ریٹائر ہو کر ہندوستان آئے تو طبیہ کالج کے اسی دو کمروں کے مکان میں تشریف لائے جہاں میں چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ مقیم تھا۔ بعد میں جب ہم پوسا روڈ پر ذرا کشادہ مکان میں منتقل ہوئے تو چوہدریوں کے خاندان کے افراد جو کسی زمانے میں ہمارے مالی ہوا کرتے تھے۔ والد صاحب سے ملنے آتے تھے۔ گھنٹوں باتیں کرتے تھے اور ناریل کے حقے کا دم لگاتے تھے۔

جہاں تک اسکول کا تعلق ہے، بہت سے اساتذہ نے میری حوصلہ افزائی کی۔ ان اساتذہ میں سے ایک مولوی مرید حسین تھے۔ جن کے احسانات سے میں کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ دوسرے استاد میرے دادا بھائی ماسٹر راجا رام تھے۔ جو سکول کے ڈپٹی ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ ہمیں سائنس پڑھایا کرتے تھے۔ اور بہت سخت گیر تھے۔ انھوں نے مجھے اردو کلاس سے نکال کر سائنس کی کلاس میں ڈال دیا۔ سائنس سے مجھے زیادہ شغف نہ تھا۔ پانچ چھ مہینے تو میں ویسے ہی ضائع کر چکا تھا۔

اس کا اعتراف ضروری ہے کہ مجھے بعد میں سائنس کا بہت فائدہ ہوا۔ اسکول میں مجھے یقین ہو گیا کہ میں اردو کی کلاس میں واپس نہیں جا سکتا تو میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ دسمبر کا امتحان کیسے دوں کہ سائنس کی پڑھائی تو میں نے کی نہیں تھی۔ کھلنڈرا ریاض انور بھی تھا۔ ہم دونوں نے مل کر امتحان کا پرچہ ماسٹر راجا رام کے صندوق سے چرا لیا۔ نقل کیا اور دوبارہ صندوق میں رکھ دیا۔ ریاض انور کے والد اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اگر انہیں پتہ چل جاتا۔ تو دونوں کی چھٹی ہو جاتی۔ بہر حال امتحان میں اچھے نمبر آنا ہی تھے۔ دادا بھائی کہنے لگے تمھیں اتنی اچھی سائنس آتی ہے۔ میں نہ کہتا تھا کہ تمہیں سائنس ہی میں رہنا چاہیے۔ یوں میں اردو کلاس سے دور کر دیا گیا۔ شاید یہی محرومی تھی کہ اردو سے میرا لگاؤ بڑھتا گیا۔

جو چیز مجھے اسکول میں پڑھنے کو نہ ملی، زندگی میں میرا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ پھر کبھی مجھے پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا پڑا۔

اسی زمانے میں ہمارے ایک ڈرل ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ جن کا نام سعادت مند تھا۔ وہ بے پناہ ARTISTICانسان تھے اور مصوری کے دلدادہ تھے۔ انھیں WATER COLOURاور سکیچ بنانے میں کمال حاصل تھا۔ کچھ لڑکے جن کے آگے آگے میں ہی تھا۔ ان سے کلاس کے بعد لان میں بیٹھ کر واٹر کلر سیکھا کرتے تھے۔ تجربے کے اعتبار سے میرا آٹھویں، نویں اور دسویں کا زمانہ بڑی بے فکری اور مزے کا تھا۔ میں نے بہت کچھ سیکھا اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوئی۔

اس زمانے میں، میں تحریری اور تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لینے لگا۔ سیاسی تحریک کی لہر بہت اونچی اٹھ رہی تھی۔ اگرچہ ہمارا قصبہ چھوٹا تھا مگر بڑے بڑے لیڈر آتے تھے۔ بڑے بڑے جلوس نکلتے تھے اور بڑے بڑے شعلہ بیان مقرر گھنٹوں تقریریں کرتے تھے۔ گھر کی روایت یہ تھی کہ رات کے وقت ہم سب کمروں سے باہر بڑے دالان میں بیٹھ جاتے تھے۔ والد صاحب ریت میں ایک چھڑی گاڑ دیتے تھے۔ اور کہتے تھے سمجھو یہ مائیکروفون ہے اور فلاں مسئلے پر اظہار خیال کرنا ہے۔

مجھے خیالات کو مجتمع کر کے پیش کرنے کی عادت وہیں سے پڑی۔ اسکول میں جب تقریری مقابلہ ہوا تو میں نے بھی حصہ لیا۔ حسن اتفاق کے مجھے انعام بھی ملا ”دو روپے“ مگر ان دو روپوں کی لذت کئی برس تک ذہن میں محفوظ رہی۔ اس مقابلے کے بعد کچھ ہمت بڑھی ورنہ مجھ میں بہت جھجک تھی۔ کامیابی اور مناسب حوصلہ افزائی ہر مرحلے پر اپنا کام کرتی ہے۔ ایک دفعہ مقابلے میں پچیس روپے کا انعام ملا۔ خالد سہیل صاحب! اس زمانے میں پچیس روپے بہت بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔ اسکول میں صبح کی دعا کے بعد میرے انعام کا اعلان کیا گیا۔ اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی مگر جب پرنسپل صاحب نے اپنے دفتر میں بلوا کر کہا کہ اسکول کی بھلائی کے لیے بیس ( 20 ) روپے لائبریری کو دے دیے ہیں اور پانچ روپے تمھارے لیے، تو مجھے بہت مایوسی ہوئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments