ایک تھا منٹو۔ ایک ہوا منٹو


کاملان فن جستجو ادب میں محو، شعور کی رو اور ادب کی خدمت گزاری میں ہمہ تن مشغول عمل دکھائی پڑتے ہیں۔ قدیم ایتھنز نے بلا شبہ مغربی ادب کو شعور کی ارتقاء سے روشناس کرایا، اور بڑے بڑے فنکار اور ادیب پیدا کیے۔ ان ادیبوں نے ادب کی مختلف جہات یعنی اصناف کو بروئے کار لاتے ہوئے کلاسیک انواع کے فن پارے پیش کیے۔ وہیں مشرق نے بھی ادب کی خاص طور پر پذیرائی کی اور بڑے مایہ ناز فنکار اور تخلیق کار پیدا کیے اور انھوں نے اردو ادب کی کم وبیش ہر دو اقسام (سخن وری اور نثر نگاری) کی ہمہ قسمی اصناف میں اپنے فن کے جوہر دکھلائے۔ ولی دکنیؔ، میر تقی میرؔ اور مرزا غالبؔ سے لے کر فیض احمد فیضؔ، ن م راشدؔ، مجید امجدؔ اور ناصر کاظمیؔ تک سخن وری کے میدان میں نابغہ روزگار شخصیات کا جنم ہوا، تو وہیں نثر نگاروں میں بھی ایسی شاہکار شخصیات نے اذہان کو معطر کر نے کے لیے مراۃ العروس، آگ کا دریا، آنگن، امراؤ جان ادا جیسے بیش قیمت ناول اور منٹو، پریم چند، بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور ا ور ہاجرہ مسرور جیسے افسانہ نگاروں نے اعلی کلاسیک قسم کے فن پارے اہل ذوق کی نظر کیے اور رہتی دنیا تک اپنے نام کو زندہ جاوید کر دیا۔ جن کی گواہی آج کی ادبی دنیا دیتی ہے۔ شاعر انجم صہبائی نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ،

؎میرا فن میری عظمت کا امیں ہے، انجم ؔ
کل کی تاریخ میرے حق میں گواہی دے گی

عجب تماشا ہے کہ، اردو ادب کا ایک مایہ ناز افسانہ نگار، اردو کے ہی پرچے میں بار بار فیل ہوتا ہے، اور اچنبھے کی بات یہ ہے کہ وہی اردو ادب ہی اس باکمال مصنف کے بغیر ادھورا ہے۔ اور اتنا اہم جزو کے جس پر لاتعداد کتابیں، مقالے، آرٹیکل، ڈرامے اور فلمیں بن گئیں۔ سعادت حسن منٹو! جی وہی منٹو۔ جو زمانہ شناس تو ہے، مگر سماج سدھارنے کے عوض پانچ پانچ مقدمات کو اپنے نامہ اعمال میں شامل بھی کر جاتا ہے اور لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی روحوں میں پیوست ہو کر انھیں جھنجھوڑ بھی جاتا ہے۔ اسی مستغرق اور منتشر معاشرے کے گھٹے ہوئے ماحول میں منٹو کے چاہنے والوں نے منٹو شناسی کی طرف قدم بڑھایا اور دامے، درمے اور سخنے منٹو گیری میں حلول ہو گئے۔ منٹو کی ہستی میں پنہاں رازوں کو سمجھنے کی روش میں مستغرق ایک نوخیز منٹو شناس اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر طاہر عباس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بیٹھے اسی سلسلے کی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے اپنے علم کو جلا کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان کی منٹو شناسی زمانے سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی ”ادبی و علمی اور منٹوئی“ ذوقیت کا صرف میں ہی معترف نہیں بلکہ خود ان کے اساتذہ ان کے ہم عصر بھی بہ بانگ دہل اقرار کرتے ہیں۔

طاہر عباس، ایک نام۔ منٹو، ایک نام! قارئین گرامی، ادبی جسارت کرنے کی سعی میں خاکہ نگاری کی صنف کے تمام رموز سے واقفیت ہونا اردو ادب کے طالبعلم کے لیے لازم ہے، تو راقم الحروف کی حتی الوسعیٰ کاوش ہوگی کہ خاکے کی ہیئت کو مد نظر رکھا جائے۔ البتہ کہیں کوئی سقم، اس ادب پارے میں محسوس ہو تو صرف نظر کیا جائے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب کی ولادت با سعادت، سعادت حسن منٹو سے قطعاً نہیں ملتی اور نہ ہی ان دونوں شخصیات کے مابین فلکی لحاظ میں کوئی مماثلت پائی جاتی ہے، البتہ آپ دونوں صاحبان ادب کے یوم ولادت میں مبلغ 3 ماہ اور 60 سال کا وقفہ ضرور پایا جاتا ہے۔ مگر نصف صدی اور ایک عشرے کے درمیانی فاصلے میں نہ جانے ڈاکٹر صاحب کو منٹؤ کی زمانہ شناسی کی وہ رغبت کیسے میسر آئی جو بزرگان ادب کو ادب شناسی میں مدتوں سفر نصیب ہو کر میسر آتی ہے۔ طاہر عباس بہ لحاظ جثہ بھی منٹو مرحوم سے قدرے مختلف ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مگر معنی آفرینی اور وسعت خیال بھر پور طریقے سے ویسا پایا جیسے پیران ادب (افسانہ نگاری) حضرت منٹو کو نصیب تھا۔ دراز قد، گاڑھی گندمی رنگت، پیچ دار مونچھیں اور گھنے بال کے ساتھ ایک مکمل مشرقی صورت کا پتا دیتے ہیں۔ غصیلا پن اور جذباتیت گیا کہ موروثی معلوم ہوتی ہے۔ لباس میں خوش لباسی کو برتتے ہیں اور گفتار میں نشتر بھی پروئے رکھتے ہیں۔

مزاج جیسے ناریل سے مطابقت رکھتا ہے، زمانے کی بے ثباتی، قید حیات اور غموں کو سگریٹ کے دھوئیں اور پان کی پیکوں میں زائل کرتے ہیں۔

آہ! ۔ زود رنجی بھی طبعیت کا خاصہ معلوم ہوتی ہے۔ حلقہ احباب میں تنگی نہیں مگر آدم بیزاری کا عنصر بھی طبعیت کا حصہ ہے۔ تنہائی کے معنی سے واقفیت تو ہے ہی لیکن اس سے خوب فائدہ بھی حاصل کرنا جانتے ہیں اور پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس تنہائی کا ساتھی منٹو ہی ہوتا ہے۔ مارکیز کے ناول ”تنہائی کے سو سال“ سے شاید کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں۔ لیکن تقریباً پورے ملک کے ادبی لوگوں سے وابستگی ضرور ہے اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ تنہائی کے ایک ساتھی سے تو ان کی شناسائی بہت پہلے منٹو کی صورت ہو چکی تھی

گویا رسم زمانہ کے عوض استاد محترم کے پاؤں میں بھی بیڑیاں پڑ گئیں اور ماشا اللہ سے آپ کے ہاں دو عدد اولاد ذکور نے جنم لیا، جن میں سے بڑے بیٹے کا نام دائم ہے۔ آپ کی اہلیہ بھی درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں اور دانش سکول فاضل پور میں بطور انگریزی ٹیچر کے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی یہ کہ آنجناب اردو ادب اور خاتون خانہ انگریزی ادب سے وابستہ ہیں اور استاد صاحب کو انگریزی ادب سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی کہ منٹو کو گھریلو خواتین سے تھی۔

یہ ڈاکٹر طاہر عباس کا مختصر مگر جامع ذاتی تعارف تھا۔ آپ نے عملی میدان میں قدم رکھا اور لیکچرر کی حیثیت سے روبرئے ازمنہ ہوئے۔ آپ جہاں ایک اچھے طالبعلم رہے، وہیں آپ ایک اچھے استاد بھی ہیں۔ جہاں بھی بیٹھے ہوں، جس کے ساتھ بھی ہوں زبان سے صرف فروغ ادب اور علم کی گفتگوی نکلتی ہے۔ جن کا دن منٹو سے شروع ہوتا ہے اور منٹو پر ہی رات ختم ہوتی ہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جان ہ ہو گا کہ وہ منٹومیں حلول ہیں اور منٹو ان میں کہیں رچ بس چکے ہیں۔

وہ لاجونت بہت روشنی سے خائف تھا!
سو گل کیا ہے نگاہوں کا نور تک میں نے

استاد صاحب کی منٹو پر نظر شاید ان کے بچپن سے ہی تھی، کیونکہ، منٹو ایک ایسی ہستی ہے جس کا جائز ہ چند سالوں میں کرنا محال ہے۔ البتہ آپ کا منٹو سے باقاعدہ رابطہ جامع بہا الدین زکریا میں ہوا۔ آپ نے ایم۔ اے اردو سے لے کر پی۔ ایچ۔ ڈی تک صرف اور صرف اردو ادب میں منٹو ہی کا محاکمہ کیا۔ ایک بار جب آپ شعبہ اردو کی لائبریری میں بیٹھ کر منٹو کی کتابوں میں مستغرق تھے تو ایک زیرک شخصیت نے آپ کے اندر کا چھپا منٹو بھانپ لیا اور کہا کہ،

”طاہر عباس تمھاری منٹو میں بڑھتی ہوئی رغبت کو دیکھ کر مجھے یہ لگتا ہے کہ تمھیں منٹو پر مقالہ میں ہی کراؤں گا“

اور وہ شخصیت، اور کوئی نہیں، میرے پیر، میرے محبوب استاد جو نہ صرف استاد تھے بلکہ بھائی کی طرح میرے ساتھ محبت کرتے تھے، ڈاکٹر قاضی عابد الرحمنٰ عابد اور اسیر منٹو کو اس سے زیادہ کیا چاہیے تھا کہ خود ایک بہت بڑے ادیب، مشفق استاد کی طرف سے ان کو ایسی پیشکش مل رہی ہو۔

یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر
اک ظاہری اڑان تھی، سو وہ بھی بھر چکے!

ڈاکٹر طاہر عباس، کا منٹو سے یارانہ تو ایم۔ اے اردو کے دور سے چلا آ رہا تھا، مگر منٹو میں محلولیت کی راہ انھوں نے ایم۔ فل اردو میں پائی اور بعد میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے دور کا آغاز ہوا تو اس دورانیے میں جیسے منٹو کی روح سے طاہر عباس کی راتوں میں مسلسل ملاقاتیں رہی ہوں۔ اور منٹویت کے حوالے سے ڈاکٹر نے یہ سو چ لیا کہ، زمیں جنبد نا جنبد گل محمد، اور اتنا ہی نہیں اس کے تعاقب میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ یہی وہ دور تھا جب آپ کی تحقیقی قوتوں نے جوش بھرا اور ایک نہیں، دو نہیں بلکہ منٹو شناسی پر پوری 8 کتابیں مرتب کر دیں۔ جو کہ فروری 2018 ء میں منظر عام ہوئیں

کسی شاعر یا ادیب کی تخلیقی اپچ کو گرفت میں کرنا بہت بڑا کارنامہ ہوتا ہے جو کارنامہ ڈاکٹر طاہر عباس سے ہوا، منٹو کے پھیلے ہوئے خزانے کو یکجا کرنا، اس کے فن کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنا، بلاشبہ لہو رونے کے مترادف ہے۔

منٹو نے جس طرح اس کھوکھلے، دوغلے اور ریا کار سماج کی جراحت کی ہے، بعینہ ڈاکٹر طاہر عباس نے منٹو کے اس پیغام کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی ہمت کی ہے۔ منٹو کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی سچ بولنے کے عادی ہیں اس لیے فسادی ہیں۔ آپ منٹو کی زبان بولتے ہیں، منٹو ہی کی طرح آدمیت کے علم بردار ہیں۔

ڈاکٹر رب نواز مونس، طاہر عباس صاحب کی منٹو شناسی پر یوں رقمطراز ہیں کہ،

”میرے نزدیک جس تعفن زدہ معاشرے میں منٹو نا قبل برداشت ہے، اسی معاشرے میں منٹو پر تحقیق اور منٹو شناسی کے حوالے سے تحقیقی اور تنقیدی کام منٹو جیسی جرات کا تقاضا کرتا ہے۔ یقیناً کسی بھی فکری انقلاب کی ترسیل بذات خود بڑا انقلاب ہوتی ہے اور یہ انقلاب ڈاکٹر طاہر عباس نے برپا کر دیا۔ مجھے امید ہے کہ منٹو کا پیروکار ہونے کے ناتے وہ اپنی جرات اور بہادری کو اسی طرح جاری رکھے گا۔“

بلا شبہ ڈاکٹر صاحب نے محنت شاقہ سے انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قاری کو صاحب فہم بھی بناتے ہیں اور اس کی دلچسپی بھی بڑھاتے ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب ہی کی ایک بات کہہ کر تحریر کا ختتا م کرتا ہوں جو انھوں مجھے دوران سفر کہی تھی کہ،

”یار ایک بات دل کو بے چین کرتی ہے اور روح کو سکون بھی دیتی ہے کہ منٹو اپنے عہد میں نہ سہی، مگر موجودہ عہد میں امر ہو گیا، اور اس نے مجھے بھی جیتے جی امر کر دیا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments