ڈاکٹر صفیہ عباد کے مقالے “راگ رت، خواہشِ مرگ اور تنہا پھول” پر تبصرہ


کتاب: راگ رت، خواہش مرگ اور تنہا پھول
مصنفہ: ڈاکٹر صفیہ عباد
تبصرہ : علی حیدر علوی

گزشتہ کئی ورشوں سے جرعہ بہ جرعہ نامعلوم اضطراب مجھے پیتا جا رہا ہے آخرکار اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ مجھے اب اپنا اندروں خالی خالی غبارے کی طرح اوپر کو اٹھتا محسوس ہونے لگا ہے۔ حساس طبیعت بڑی مصیبت ہے اس پر آپ کو ایسے دوست جو دشمن کہلانے کے زیادہ مستحق ہیں، کی صحبت میسر آ جائے۔ ایسے ژولیدہ حال جو اس لئے صف ماتم بچھائے رکھتے ہیں کہ انھیں کوئی بڑا غم نہیں ملا۔ سماج سے گریز پا ایسے افراد مقبول تو ہو سکتے ہیں لیکن کامیاب نہیں کیونکہ کتابیں چاٹنا، موسیقی کی نبض پکڑے رکھنا، خاموشی کے پھکے مارنا، مختلف فنون لطیفہ کی رمزیں سمجھنا اور گزرے ہوئے اداس فنکاروں کو اپنی محافل میں زندہ رکھنا جیسے ان پر واجب ہو چکا ہے اور اداسی کی ایسی دلدل سے نکلنے کے لئے سب سے آسان طریقہ مر جانا ہے۔

ایسے دوستوں کی فہرست میں ایک دوست ایسی آتی ہیں جو پاکستان کے مشہور اشرافیہ خاندان سے ہیں مگر ان کی روح میں محلول ہوئی اداسی ایکڑوں پر پھیلے گھر، امپورٹڈ گاڑیوں اور اعلیٰ معیاری زندگی کے باوجود انھیں مضمحل رکھتی ہے۔ ایک دن نیٹشے ء پر ہونے والی گفتگو، خود کشی کے محرکات تک پہنچی۔ تو محترمہ نے لاپرواہی سے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا (گفتگو ادھوری چھوڑ کر اٹھیں ) اور الماری سے نئی کتابیں جو ابھی لائبریری شیلو کی زینت نہیں بنی تھیں، ان میں سے یہ کتاب نکالی ”علی لگتا ہے یہ کتاب پڑھنے لائق ہے۔ “

اگرچہ آپ متفق ہوں نہ ہوں مگر دنیا کی ہر سچی کتاب اور سچا انسان انسداد مسرت پر اکسائے گا اور یہی وہ ماحول ہے جس میں بڑے ذہنوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ یہ کوئی ایسی کتاب تو نہیں کہ فن نثر نگاری پہ واہ واہ کی جائے یا حساس شخص کو کسی کیفیت میں مبتلا کر دے مگر اس میں بہت بڑے فنکاروں کی زندگی کی بنیادی معلومات اور خودکشی کے مختصر مگر بحوالہ وجوہات بیان کی گئی ہیں جس سے اداس نہ ہونا بھی بڑا کام ہے۔ مجھے لگتا ہے آپ شروع سے آخر تک دلچسپی کے حصار میں رہیں گے۔

قدیم تہذیبوں مثلاً مصر، روم، ایران، یونان، اور بھارت میں خودکشی کو بہادرانہ عمل کہا جاتا تھا اور اس کا خوب رواج رہا۔ جاپان میں خودکشی مذہبی اعتبار سے بطور مقدس فعل (کراکری) ابھی بھی مستعمل ہے مگر انڈسٹریل ترقی اور پرانی اقدار کی تبدیلی کے بعد اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مذاہب عالم میں خودکشی کے متعلق مختلف تعلیمات پائی جاتی ہیں مثلاً عیسائیت میں اگر سنت عیسیٰؑ جاودانی عطا کرتی ہے تو اسلام میں یہ سختی کے ساتھ حرام فعل ہے۔ توریت میں خودکشی اگر صریحاً جائز نہیں تو بعض حالات میں جائز تصور کی گئی ہے۔ یونانی Stoic خودکشی کو پسند کرنے والے تھے۔ ڈاکٹر صفیہ عباد نے ہر بڑے مذہب کے تفصیلی نہ سہی مگر خودکشی کے متعلق بنیادی نظریہ مرتب کیا ہے۔

دراصل ہر دور میں ماحول کے مطابق وضع ہونے والے مذہب کی اخلاقیات بدل کر رہ گئی ہیں قدرتی تاثر اور رویوں کے لئے جگہ کم ہوتی گئی ہے، اور ایسا کرنے کی وجہ سے آنے والی نسلوں میں ڈپریشن کا اضافہ ہوا ہے۔ (ریسرچ کے مطابق مردوں میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ عورتوں میں پچیس برس کے بعد خودکشی کا رجحان کم دیکھا گیا ہے۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق حبشیوں کے مقابلے سفید فام لوگوں میں خود کو ہلاک کرنے کی تعداد زیادہ ہے۔ 1967 میں خودکشی کی سب سے زیادہ وارداتیں شمالی یورپ کے ملک آسٹریا میں ہوئیں۔ ایک سال میں 1818 افراد نے خود کشی کی۔ سویڈن دوسرے اور امریکہ فہرست میں تیسرے نمبر پر تھا۔ )

بقول شوپن ہار گناہ کے متعلق اخلاقیات سیکھے بغیر بھی آپ کو قدرتی تاثر یا رویہ ٹھیک ملے گا مثلاً اگر کوئی آپ کے سامنے چوری کرتا ہے آپ ایسے شخص سے نفرت کریں گے۔ یا کوئی آپ کے سامنے کسی کو قتل کرے تو ایسے شخص کے لئے آپ کے دل میں رحم نہیں پیدا ہونا ممکن نہیں۔ اس کے برعکس خود کشی کو حرام ماننے والوں کے دلوں میں خودکشی کرنے والے کے لئے ہمدردی کے جذبات کیوں ہوتے ہیں۔ ؟ یہ ایسا سوال ہے جن کے جواب دینے سے بڑے بڑے مذاہب قاصر ہیں۔

یہ کتاب دراصل ڈاکٹر صفیہ عباد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔

کتاب کا پہلا باب خود کشی کی متعدد تعریفات پر مشتمل ہے مثلاً Suicide کے معنی جہاں ”خود کو مار دینے“ کے ہیں وہاں کسی اور لغت کے مطابق خودکشی میں ”ایسے عوامل بھی شامل ہیں جو انسان کے اپنے ہی مفاد کے لئے مضر اور نقصان دہ ہوں۔“ ماہرین نفسیات نے متعدد تعریفوں کی بنا پر اب خودکشی کو چھ اقسام میں تقسیم کر دیا ہے :

لمبے عرصے پر محیط خودکشی Chronic Suicide
غیر محتاط خود کشی Neglect Suicide
خام ارادہ والی خودکشی Sub Intentional Suicide
مہلک خودکشی Surcease Suicide
نفسیاتی خودکشی Psychotic Suicide
اپنی موجودگی کے فلسفے پر مبنی خودکشی Existential Suicide

ایک اور دلچسپ قسم ”Para Sucicide“ جو Existential Suicide سے نکلتی ہے جس میں خود کشی کرنے والا مرنا چاہتا تو نہیں لیکن ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یا اپنے احباب کو اپنی تکلیف کا احساس دلانے کے لئے مر جاتا ہے۔

اس کتاب میں ڈاکٹر صفیہ عباد نے خود کشی کرنے والوں کو دو طرح سے الگ کیا پہلے وہ جو ”خود کشی کرنے چکے“ اور دوسرے وہ جنھوں نے ”خود کو خودکشی کے راہ پہ گامزن کیا۔“ اس فہرست میں بعض افراد کی موت معمہ ہے۔ کوئی ان کے بارے میں کوئی حتمی بات تو نہیں کہہ سکتا البتہ ان کی خواہش مرگاور حساس طبیعت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انھیں بھی خود کشی کی راہ پہ گامزن ہونے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔

مثلاً اردو ادب میں خود کشی کرنے والوں میں شمس آغا، شکیب جلالی، شبیر شاہد، سارا شگفتہ، آنس معین، اور ثروت حسین قابل ذکر ہیں۔ دوسری قسم میں میراجی، منٹو، علا الدین کلیم، مصطفیٰ زیدی، صغیر ملال، جمیلہ شاہین، اور جون ایلیاء شامل ہیں۔

متعدد خطوں میں موجود ماحول کے واضح فرق کے باوجود جن محرکات و عوامل نے اردو زبان کے شعرا کو جاودانی (خودکشی) کی طرف دھکیلا انہی نے دوسری زبانوں کے ادیب اور شاعر کو بھی اکسایا۔ (ظاہر ہے تفصیل کا مقام نہیں البتہ چند بنیادی اور اہم محرکات دیکھیں اور باقی کتاب کے مطالعہ پر آپ کے سامنے آئیں گے )

ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ خودکشی کے حیاتیاتی اور موروثی محرکات (ایسے افراد جن کے ڈی این اے میں کہیں خودکشی کی شدید خواہش موجود ہو یا ان کے اجداد یا اہل خانہ میں کسی نے خودکشی کی ہو تو یہ قدرتی طور پر ان کے جینز میں موجود ہو گی۔ )

2۔ خودکشی کے سماجی، سیاسی اور مذہبی عوامل (جنگی حالات، نا اہل حکمران کے خلاف احتجاجاً خود کشی کرنا، نا انصافی، بھوک غربت اور بیشتر عوامل)

3۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی اہم تحریکات اور نخل فلسفہ شامل ہیں جنھوں نے انسان کو مرنے پر اکسایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments