قاسمی صاحب اور میں


* *

گزشتہ دنوں جناب حامد میر کا کالم پڑھ کے پتہ چلا کہ اشفاق احمد صاحب، جناب عطاءالحق قاسمی کو اردو کا سب سے بڑا کالم نگار قرار دے چکے ہیں۔ جناب قاسمی کو ان کا دیرینہ قاری ہونے کی بنا پر ایک مدت سے اسی قسم کا ایک ٹائٹل یہ کم ترین بھی دے چکا ہے لیکن ظاہر ہے جو قبولیت عامہ اور وزن راجہ بھوج کی طرف سے دیے خطاب کا مقدر ہے وہ گنگوا تیلی کے عقیدت بھرے ٹائٹل کے نصیب میں کہاں۔ میری نظر میں بھی جناب عطاءالحق قاسمی اردو کے سب سے بڑے کالم نگار ہیں۔

کالم، صحافت کی وہ صنف ہے جس کی کوئی متفقہ تعریف دستیاب نہیں۔ تاہم مجھ سے اگر کوئی کالم کی تعریف پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ ”روزن دیوار سے“ جھانک کر دیکھ لیجیے جو نظر آئے یہی کالم ہے۔ روزانہ اخبارات کے ادارتی صفحات پر جو کچھ چھپتا ہے وہ تجزیہ نگاری ہے، روداد نویسی ہے، معاشیات، سیاسیات، سماجیات کی کہانیاں ہیں، کالم کی اصل شکل ”روزن دیوار سے“ ہی دکھائی دیتی ہے۔

پچھلے سولہ سترہ برس سے کالم کے نام پر چونکہ میں بھی رودادیں رقم کیا کرتا ہوں سو فطری طور پر جناب قاسمی میرے آئیڈیل کالم نگار ہیں۔ میں جانے ان جانے ان کی نقل کی کوشش بھی کیا کرتا ہوں۔ میں ہی نہیں، میری اہلیہ ڈاکٹر عالیہ نکہت بھی قاسمی صاحب کے مداحوں میں شامل ہیں۔ بچپن سی ہی ڈاکٹر صاحبہ گھر میں نوائے وقت آتا دیکھتی رہیں اور اس میں روزن دیوار سے کی خصوصی قاری رہیں چنانچہ قاسمی صاحب ان کے بھی پسندیدہ لکھنے والے ہیں۔

یادش بخیر! سن دو ہزار دو کے ابتدائی دن تھے۔ ہم ان دنوں لاہور میں رہا کرتے تھے، سمن آباد میں رہائش تھی۔ ایک روز انجم کاظمی سے ملنے نوائے وقت گیا تو وہاں اس نے سر راہے والے بابا وقار انبالوی سے ملوایا۔ جیسا وہ کالم لکھتے تھے ویسے ہی خوشگوار مزاج کے ساتھ ملے۔ مجھے پتہ تھا کہ عالیہ کو سرراہے بہت پسند ہے۔ میں نے بابا جی سے کہا کہ اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو آپ کی ایک قاری سے بات کروانا چاہتا ہوں۔ بابا جی نے کہا ”ضرور“ ۔

شام کو گھر آیا تو بیگم کہنے لگیں ”کبھی قاسمی صاحب کو بھی ملنے چلیں“ میں نے کہا ”ابھی ٹھہر جاؤ، تھوڑا تم ادھیڑ عمری کو پہنچ جاؤ، کچھ قاسمی صاحب مزید بزرگ ہو جائیں تو چلیں گے ضرور“ کہا میں نے یہی تھا تاہم یہ ازراہ تفنن تھا۔ اصل بات اس گریز کے پیچھے یہ تھی کہ میں دودھ کا جلا تھا اور نذر بلوچ کی ٹھنڈی یخ دودھ والی بوتلوں کو بھی پھونک مار مار پیتا تھا۔

ایک دفعہ پھر یادش بخیر! 1989 ء کا سن تھا۔ تازہ تازہ بی اے کی ڈگری پوری ہوئی تھی۔ اس زمانے میں جن کو پڑھتا تھا ان سے رابطے کی کوشش میں انہیں خط لکھا کرتا تھا۔ خال ہی جواب آتے۔ خدا غریق رحمت کرے ڈاکٹر صفدر محمود جواب دیا کرتے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ بھی ہر اس خط کا یک سطری جواب دیتے تھے جس میں جوابی لفافہ ساتھ ہوتا۔ ایک دفعہ میں نے ان سے ملنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے لکھا فلاں دن آ جاؤ۔ مجھے وہ پتہ آج تینتیس سال بعد بھی یاد ہے۔

بائیس جے، گلبرگ تھری، لاہور۔ رکشے والا پوچھتا پچھتاتا گھر تک لے گیا۔ سردیوں کے دن تھے۔ کتابوں سے اٹی بیٹھک میں بٹھا دیا گیا۔ تارڑ صاحب کچھ دیر بعد کالی چادر کی بکل مارے ہوئے تشریف لائے۔ سنجیدہ سنجیدہ اور چپ چپ سے۔ ویسی ہی چند باتیں کیں جیسی ایک مداح کرتا ہے۔ تارڑ صاحب نے ویسے ہی gesture دیے جیسے ایک سلیبرٹی کو زیبا ہیں۔ میں نے نہایت عقیدت سے ملتان کی سوغات سوہن حلوے کا ڈبہ میز پر رکھتے ہوئے عرض کیا ”سر! یہ میرے شہر کی سوغات ہے، قبول فرمائیے“ تارڑ صاحب ایک دم برہم ہو گئے۔ تند اور ناگوار لہجے میں فرمایا ”جب کوئی اس طرح سے کچھ لاتا ہے تو مجھے لگتا میں کنجری ہوں جسے ویل دی جا رہی ہے“ پھر ڈپٹ کر کہا ”اٹھاؤ اسے“

ٹین ایج سے تازہ تازہ قدم باہر رکھنے والے لڑکے کے بائیں پہلو میں، پسلیوں کے پیچھے ایک چھناکا سا ہوا۔ کوئی بلوریں بت تھا کہ ٹوٹ گیا۔ ان دنوں یہ لڑکا نوائے وقت ملتان میں ہفتہ وار ٹی وی ڈراموں پر تبصرہ لکھا کرتا تھا۔ تارڑ صاحب کا ”سورج کے ساتھ ساتھ“ شاید ان دنوں چل رہا تھا۔ مجھے سنبھلنے میں کچھ وقت لگا پھر میں نے ان کے ڈراموں پر گفتگو شروع کردی۔ ہزاروں راستے و دیگر۔ اب تارڑ صاحب کی طبیعت رواں ہو گئی، چہرے پر درشتی کہ جگہ مسکراہٹ آ گئی اور کوئی گھنٹہ بھر ہم نے ان کے ڈراموں پر گفتگو کی۔ بعد میں سوہن حلوہ بھی انہوں نے قبول کر لیا۔

یہ وہ دودھ تھا جس سے جلنے کے بعد میں پھر کبھی کسی بڑے لکھنے والے سے نہیں ملا۔ بہت پیار آیا تو خط لکھ دیا۔ چھ سات برس لاہور رہا تب اشفاق احمد، اے حمید، انتظار حسین و دیگر کئی بڑے نام جن کو میں پڑھا کرتا تھا، حیات تھے مگر کبھی نہ مل سکا۔ میرے اندر کوئی ڈر بیٹھ گیا تھا کہ تارڑ صاحب جیسا سلوک نہ ہو۔ قاسمی صاحب کے پاس حاضر نہ ہونا بھی دراصل اسی نفسیات کا حصہ تھا۔ لیکن بہت بعد میں جب مرزا یاسین بیگ کی تقریبات میں جناب عطاءالحق قاسمی سے ملاقات ہوئی تو ان کی شفقت نے احساس دلایا کہ سبھی بڑے لوگ ایک سے نہیں ہوتے۔ یہی احساس جناب وجاہت مسعود، جناب خورشید رضوی، جناب معین نظامی، جناب افضل عاجز اور ڈاکٹر مبارک علی سے مل کر بھی ہوا۔

خیر! میں عرض کر رہا تھا کہ شعوری، لاشعوری طور پر میں اور میری بیگم جناب عطاءالحق قاسمی کو آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ میں نے ایک مدت سے بزرگانہ رنگ پہننے شروع کر رکھے تھے۔ جب سے فیس بک پر قاسمی صاحب کے ساتھ ایڈ ہوا ہوں اور ان کی تصاویر دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں تو بیگم صاحبہ میرے لئے شوخ اور جواں رنگوں کے کرتے اور شرٹس لے کر آتی ہے۔ کبھی اعتراض کروں کہ ”بھلیے لوکے میری عمر ویخ“ تو بیگم صاحبہ کہتی ہیں قاسمی صاحب پہن سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں پہنتے۔

اس دلیل کے بعد میں نے یہ رنگ بخوشی پہننے شروع کر رکھے ہیں۔ پچھلے دنوں ملتان ٹی ہاؤس میں میری کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ میں نے بیگم کی لائی مسٹرڈ کلر کی ٹی شرٹ اور جینز پہنی۔ ناصر شیخ اور ایسے ہی چند دیگر بے تکلف دوستوں نے میری کلاس بھی لی کہ سینکڑوں لوگ تجھے دیکھنے، ملنے آئے ہیں، سوٹ پہنتے یا کم از کم ڈریس شرٹ اور پتلون ہی پہن آتے۔ میں نے دل میں ان سب کا تمسخر اڑایا کہ بھلا تمہیں کیا پتہ، میں نے یہ رنگ کیوں پہنا ہے۔

تاہم پچھلے دنوں ڈاکٹر عائشہ عظیم کی کتاب ”مشاہیر کے خطوط عطاءالحق قاسمی کے نام“ کی تقریب رونمائی کی تصویریں فیس بک پر دیکھ کے مجھے حیرت کا جھٹکا سا لگا۔ تقریب کے دولہا قاسمی صاحب نے سفید رنگ کی ہلکی گلابی لائننگ والی ڈریس شرٹ پہن رکھی تھی۔

سجاد جہانیہ
Latest posts by سجاد جہانیہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments