سوویت یونین کے انہدام کی وجوہات – قسط نمبر 1


اپنے پچھلے کالم میں میں نے دنیا کی ایک بڑی سلطنت سوویت یونین کے انہدام کے متعلق لکھا تھا۔ اسی کو لے کر آج ہم تفصیل سے ان عوامل کا جائزہ لیں گے جو اتنی بڑی سلطنت کے زوال کا سبب بن گئے۔ سوویت کے ٹوٹنے کے بعد اس کا کوئی والی وارث نہیں رہا۔ جتنی بھی ممبر ریاستیں تھیں سب نے اپنی الگ الگ حکومتیں قائم کر لیں۔ کسی نے بھی ان اسباب کا غیر جانبداری سے جائزہ نہیں لیا جس کی وجہ سے اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا۔ اس کے برعکس مغربی اور سامراجی دنیا نے اس کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ نے اپنے مغربی اور دیگر سرمایہ دار طاقتوں کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دیدی۔جس کی وجہ سے وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گیا۔

دوسری طرف ایک اور گروپ تھا جو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کر رہا تھا۔ انہوں نے اس کر مذہبی رنگ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سوویت یونین کو افغانستان میں جہادی گروپوں نے شکست دی اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ الغرض جتنی منہ اتنی باتیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ چونکہ سوویت یونین کا کوئی والی وارث نہیں رہا اس لیے کسی نے غیر جانبداری اس کے متعلق تحقیق نہیں کی۔

اس کالم میں اور اس کے بعد آنے والے کالموں میں ہم اس کا ایک غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی جائزہ لیں گے۔ اس پہلے والے کالم میں میں نے سوویت یونین کے اندر ہزاروں پاکستانی طلباء کا ذکر کیا تھا جو وہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔ پاکستانی طلباء کو سوویت بھیجنے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کا باضابطہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت سوویت یونین نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات پر توجہ دی۔

کراچی میں اس وقت کے ایشیا کے سب سے بڑے سٹیل ملز کا قیام اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانی طلباء کو سوویت یونین کے یونیورسٹیوں میں سکالرشپ دینے کا پروگرام بھی شروع کیا۔ جن میں سے اکثریت کا تعلق میڈیکل اور انجنیئرنگ کے شعبوں سے تھا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی قوانین اور صحافت کے شعبوں میں بھی پاکستانی طلباء تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ طلباء سوویت یونین کے طول عرض میں پھیلے اعلیٰ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے جو آج کل پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

ان میں پاکستان کے دو صوبوں یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے طالب علموں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب سے بھی کچھ طالب علموں کو وظائف ملے تھے۔ یہ تعلیمی وظائف مکمل طور پر مفت تھے۔ جن میں جہاز کے ٹکٹ سے لے کر تمام اخراجات بشمول ہاسٹل اور ماہانہ جیب خرچ کے سوویت حکومت کے ذمے تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 5000 طلباء اس وقت سوویت یونین میں زیر تعلیم تھے۔

لیکن جنرل ضیاء کے اقتدار میں آنے کے بعد اور افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف پراکسی وار میں پاکستان کی امریکہ کے ساتھ قریبی اتحاد کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں دوبارہ دراڑیں پڑنی شروع ہوئی۔ پاکستانی حکومت نے اپنے طالب علموں کو سوویت بھیجنے پر پابندی لگا دی۔ لیکن پاکستانی طلباء کا افغانستان کے رستے سوویت یونین میں پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا۔ اور ہر سال کافی تعداد میں طلباء پہنچنے لگے۔ ان سب کا تعلق پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والی پارٹیوں سے تھا۔

پاکستان کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک سے طلباء سکالرشپ پر وہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ جن میں انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، اسرائیل، اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک شامل تھے۔ 1985 میں مجھے بھی سوویت یونین میں پڑھنے کا موقع ملا۔ ایک سال میں نے موجودہ روس کے شہر رستوف آن ڈون میں روسی زبان کا کورس مکمل کیا۔ اور اس کے بعد مجھے یوکرائن کے شہر خارکوف میں میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔

ہمارے ہاسٹل اور یونیورسٹی ایک بین الاقوامی شہر کی طرح تھے جن میں دنیا کے مختلف ممالک سے لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے۔ ان سب کے لئے روسی زبان لازمی تھی۔ اس لیے ایک دوسرے کو سمجھنے اور بات کرنے میں آسانی تھی۔ وہ لوگ صرف روسی زبان میں بات کرتے اس لیے زبان بہت جلد سیکھ گئے۔ دنیا کے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے طلباء کے ساتھ بات چیت میں دنیا کے متعلق بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ سیاست کا مضمون چونکہ لازمی تھا اس لیے اس وقت کے گریجویٹ سیاسی امور کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔

جب سوویت صدر گورباچوف نے ”پیری سترویکا“ اور ”گلاسنست“ کی پالیسیوں کا اعلان کیا۔ تو ہمیں باقاعدہ نصاب میں اس کے بارے میں بتایا گیا۔ چونکہ ایک پارٹی کی حکومت تھی اس لیے ان پالیسیوں کے بارے میں ”سب اچھا ہے“ کی گردان ہونے لگی۔ کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ لیکن جلد ہی اس کے سائڈ ایفیکٹس نظر آنے لگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے 5 سالوں کے اندر سوویت یونین تحلیل ہو کر 15 آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوا۔ سوویت یونین کی تحلیل کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس کی تاریخ کو 1917 کے انقلاب سے زیر بحث لانا ہو گا۔ اور اس کے ساتھ ہمیں گورباچوف کی پیریسترویکا اور گلانست کی پالیسیوں کے ساتھ افغانستان میں سوویت افواج کی موجودگی تک سب کو زیر بحث لانا ہو گا۔

اس سلسلے میں اس وقت کے گریجویٹ طالب علموں کی آرا بھی شامل کی جائے گی۔ اور ان سے دیگر سوالات کے ساتھ سوویت یونین کے انہدام کے متعلق بھی رائے لی جائے گی۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان کی آرا کو قارئین تک پہنچائیں کہ وہ کیا عوامل تھے جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کا سبب بن گئے۔ آرٹیکل کی طوالت کی وجہ سے اس کو قسطوں میں شائع کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ایک آرٹیکل میں یہ ناممکن ہے۔ مزید اگلے کالم میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments