کیا پی ٹی آئی کے منحرف اراکین مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پنجاب میں میدان مار سکیں گے؟


لاہور — پاکستان کے صوبہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات ان دنوں پاکستان کی قومی سیاست میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے لیے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان کانٹے کے مقابلے متوقع ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد ہونے والے ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے انہی اراکین کو میدان میں اُتارا ہے۔

پی ٹی آئی کے ان 25 منحرف اراکین میں سے پانچ خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی سیٹوں پر منتخب ہوئے تھے جب کہ 20 جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے جہاں اب پولنگ 17 جولائی کو ہو گی۔

ان میں سے چار نشستوں پر لاہور میں مقابلہ ہو گا جب کہ دیگر 16 نشتوں پر جھنگ، لیہ، بھکر، ملتان اور دیگر شہروں میں مقابلہ ہو گا۔

ان انتخابات کے نتائج سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کا منصب حمزہ شہباز کے پاس رہے گا یا یہ تحریکِ انصاف کے وزارتِ اعلٰی کے اُمیدوار چوہدری پرویز الہٰی کی جھولی میں جا گرے گا۔

دونوں جماعتیں ان ضمنی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت پارٹی کی نائب صدر مریم نواز جب کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان خود انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔

انتخابی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی وزرا اویس لغاری، ملک احمد خان اور خواجہ سلمان رفیق نے استعفیٰ دے دیا ہے جب کہ سردار ایاز صادق بھی بطور وفاقی وزیر مستعفی ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق وزرا انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔

مسلم لیگ (ن) کی رُکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ کہتی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے ان افراد کو دوبارہ ٹکٹ دیے ہیں جنہوں نے پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت گرانے میں مسلم لیگ (ن) کی معاونت کی تھی۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کے منحرف اراکین جو اب مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، انہیں اپنے حلقوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

‘پارٹی رہنماؤں نے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا’

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضمنی انتخابات کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر مختلف آراء سامنے آئیں تھیں اور بہت سے سینئر مرکزی رہنماوں نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ن لیگ کا ٹکٹ دئیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

سینئر لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مرکزی رہنماؤں نے اپنے تحفظات کا اظہار جماعت کی کور کمیٹی میں بھی کیا تھا جس میں نواز شریف بھی آن لائن شریک تھے۔

اُن کے بقول کیوں کہ پی ٹی آئی کے ان منحرف اراکین نے عدم اعتماد کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا، اسی لیے مسلم لیگ (ن) نے انہیں ٹکٹ دیے ۔پارٹی کے دیرینہ کارکن بے دلی سے انتخابی مہم میں شریک ہیں جنہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اُنہیں آئندہ انتخابات میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

البتہ حنا پرویز بٹ اس تاثر کو رد کرتی ہیں، اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے۔ لہذٰا ان انتخابات میں وہ تحریکِ انصاف کو باآسانی شکست دے دی گی۔

اس سوال کے جواب میں کہ ان حلقوں میں موجود مسلم لیگ (ن) کے اُمیدواروں کا کیا ہو گا؟ حنا بٹ کا کہنا تھا کہ ان اُمیدواروں کو عام انتخابات میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

انتخابی مہم کے حوالے سے حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ مریم نواز جہاں بھی جاتی ہیں، ایک ہجوم اُن کا منتظر ہوتا ہے جب کہ دوسری جانب عمران خان صرف اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

‘جلسوں کے سائز سے ہی فرق واضح ہے’

تحریکِ انصاف کے رہنما بھی اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے پراُمید ہیں۔

پارٹی کی مرکزی رہنما عندلیب عباس کہتی ہیں کہ تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کی اکثریت ان انتخابات میں کامیاب ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے جلسوں کا فرق ہی دیکھ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ 17 جولائی کو کون جیتے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے جلسوں میں عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے جب کہ جو چینل عمران خان کا جلسہ دکھاتے ہیں، ان کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

عندلیب عباس کہتی ہیں کہ تحریکِ انصاف نے ان انتخابات میں نئے چہروں کو بھی آزمایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی پارٹی کے لیے خدمات ہیں اور وہ مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے تھے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان اور اُن کی جماعت کی کوشش ہے کہ لوگ اُن کے بیانیے کو ووٹ دیں۔ اُن کے خیال میں پی ٹی آئی کا بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔ ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں ہیں جبکہ دوسری جانب صرف اکیلا عمران خان کھڑا ہے۔

پنجاب میں 17 جولائی کو ضمنی انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پنجاب میں سیاسی بحران اور وزیرِ اعلٰی کے انتخاب پر قانونی لڑائی کے بعد سپریم کورٹ نے صوبے میں 22 جولائی کو وزارتِ اعلٰی کا انتخاب دوبارہ کرانے کا حکم دیا تھا۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ یہ ضمنی انتخابات دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ جس کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

پاکستان میں انتخابی عمل اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ یہ ضمنی انتخاب یوں بھی توجہ حاصل کرتے جا رہے ہیں کہ اِن کے نتیجے میں پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کا فیصلہ ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ان انتخابات کا اثر صرف پنجاب تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ وفاق پر بھی حکومت پر اس کا اثر پڑے گا۔

اُن کے بقول مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے نظریات سے زیادہ ضرورت کے مطابق سیاست کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اتحاد بناتی اور اُمیدواروں کا چناؤ کرتی ہیں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف کے کئی اُمیدوار ایسے تھے جن کا پارٹی نظریے سے دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں تھا اور یہی اُمیدوار کامیاب بھی ہوئے تھے۔

 

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments