جیمز ویب ٹیلیسکوپ، دھرم اور ایک ”آستک“ ہندو


جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ سے حاصل کردہ تصویروں کی رونمائی کی ہے تب سے پوری دنیا میں ایک عجیب سی خوشی (جس میں کائنات کی وسعت کو لے کر ششدر کر دینے والا خوف شامل ہے ) منائی جا رہی ہے۔

کئی حلقے اس واقعے کو انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے بعد سب سے بڑا واقعہ قرار دے رہے ہیں، یقیناً اس کے بعد کائنات کے مزید راز افشا کرنے کی طرف سفر مزید تیز ہو گا، جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ سے لی گئی تصاویر تقریباً تیرہ ارب سال پہلے ہونے والے واقعات کی عکاسی کر رہی ہیں۔

ناسا کے سائنسدانوں کا شکریہ اور ان کی عظمت کو سلام کہ جن کی محنت اور سوچ نے آج ہم جیسے عام انسانوں کو بھی اس قابل کر دیا کہ وہ آسمانوں کی دوریوں میں گھس کر یہ سب کچھ دیکھنے کے قابل ہوئے۔

سائنس اور اس کے کمالات پر یقین رکھنے والوں کے اس جشن کے ساتھ دنیا بھر کے مذہبی حلقے ان تصاویر کو لے کر اپنے اپنے عقائد کے خول کو مزید پختہ کرنے کے چکر میں ہے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بعض لوگ تو چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ جماتے ہیں کہ جیسے انہیں تو پہلے سے ہی سب معلوم تھا، ساتھ ہی تمکنت کے ساتھ گویا ہوتے ہیں کہ ان سائنسدانوں کو کیا پتا؟ ابھی تو یہ بہت کچھ ڈھونڈیں گے، ہمارے مذہب نے تو ہزاروں سال پہلے سب کچھ بتا دیا تھا، بس ہم ٹیلیسکوپ نہیں بنا سکے تھے، اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ بس آپ کا ایمان مضبوط ہونا چاہیے، قدرت سارے راز آپ پر خود ہی کھول دیتی ہے، ہاں ہم انجن بھی نہیں بنا سکے تھے اسی لیے گدھے گھوڑوں پر سفر کرتے رہے، تو کیا ہوا؟ ویسے بھی جب تک ہم گھوڑوں پر رہے سکون میں رہے، اس سائنس نے تو ہمیں ویسے ہی جھنجھٹ میں ڈال دیا ہے اور لوگوں کے ایمان بھی کمزور ہو رہے ہیں۔

ایک دھارمک ہندو دوست سے ٹاکرا ہو گیا، اس نے ہزاروں سال پر محیط متھالوجی بیان کر ڈالی کہ دیکھو بھگوان نے کتنی اننت برہمانڈ (وسیع کائنات) بنا رکھی ہے، دھرم میں فلاں فلاں جگہ ان ساری باتوں کے ثبوت ملتے ہیں، میں نے کہا مثال کے طور پر؟

وہ بولا فلاں جگہ لکھا ہے کہ یہ کائنات تہہ در تہہ کھلتی چلی جاتی ہے جس کا کوئی انت نہیں، میں نے کہا کہ وہ سائنسدان جن کی بدولت ہم یہ بات کر پا رہے ہیں وہ شاید تمہارے اس فلسفے کو بہت عامیانہ لیں، وہ بولا ایک وقت آئے گا جب یہ سب سائنسدان انہی باتوں کو مانیں گے، سائنسدانوں نے یہ ساری رہنمائی دھرم کی ہی کتابوں سے حاصل کی ہے، بہت سے سائنسدان تو وقت کے ساتھ دھارمک ہو گئے وغیرہ وغیرہ۔

اور کل یگ (قیامت کے قریب کا وقت ) میں ہی کائنات کے یہ سارے راز فاش ہونے ہیں، یہ کل یگ ہی تو ہے، پھر اس نے قیامت کے قریب کے وقت کی نشانیاں گنوانی شروع کر دیں۔

میں نے کہا سائنس اور سائنسدانوں کا سوچنے کا انداز مختلف ہے، مجھے دیکھتے ہوئے بولا کہ میرے اور بھی مسلمان دوست ہیں، ہماری بہت سی باتیں ملتی جلتی ہوتی ہیں، صرف طریقہ کار پر اختلاف ہوتا ہے مگر تمہارا سوچنے کا انداز بہت مختلف ہے، میں نے فوراً کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں، الحمدللہ، اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ پھیل گئی جیسے کہہ رہا ہو ”ناستک کہیں کا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments