کیلے کی پتوں کی پلیٹ اور ہم


کیلے کی پتوں کی پلیٹ اور ہم : جنوبی بھارت کی ایک قدیم روایت اور ٹی نگر ایک مصروف ترین مارکیٹ 1999ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

چنائی پہنچ کر ہوٹل آنے کے بعد ہم نے کچھ دیر آرام کیا۔ اس لیے کہ ٹرین بھی آرام دہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تھکاوٹ نہیں تھی اور رات میں نیند پوری کرنے کا بھی موقع مل گیا تھا۔ دوپہر کے وقت ہم تینوں نے طے کیا کہ ہوٹل سے باہر جا کر کھانا کھائیں گے۔ دنیا کے بڑے ہوٹل اور ریسٹورانٹ تو ایک جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن اصل فرق بازاروں میں واقع ریسٹورانٹ اور ڈھابوں کا ہوتا ہے جہاں عام لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ ان ریسٹورنٹس میں جانے سے آپ کو اس علاقے کے باشندوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

یہ بھی ایک عجیب سی بات ہے کہ اب ہم ریسٹورانٹ کو بھی ہوٹل ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ ہوٹل سے مراد وہ جگہ ہے جہاں قیام کیا جاتا ہے۔ جبکہ ریسٹورانٹ کا مطلب کھانا کھانے کی جگہ ہوتی ہے۔ اب لوگ عام طور پر ریسٹورانٹ کو ہوٹل کا نام ہی دیتے ہیں اور یہ بات اب ہم سب نے قبول بھی کر لی ہے۔ ہم کھانا کھانے کے لیے ایک قریبی ریسٹورانٹ چلے گئے۔ یہاں ہم ایک تجربے سے گزرے جس کا ہمیں کوئی اندازہ نہ تھا۔

جیسے ہی ہم ریسٹورانٹ جا کر ایک چھوٹی سی میز کے گرد بیٹھے، تو ہمارا خیال تھا کہ کوئی صاحب آئیں گے، ہم سے آرڈر لیں گے اس کے بعد برتن چنے جائیں گے اور پھر ہم کھانا تناول فرمائیں گے لیکن سب کچھ اس سے مختلف ہوا۔ ایک صاحب آئے جن کے پاس پانی کی ایک بالٹی تھی اور بڑے سائز کے کیلے کے پتے تھے۔ انھوں نے ہم سب کے سامنے ایک ایک پتہ بچھا دیا۔ انھوں نے بالٹی سے پانی نکالا اور پتوں پر ڈال دیا اور ہمیں انگریزی میں کہا کہ آپ اس پانی سے اپنا پتہ صاف کر لیں۔ میز کے ساتھ ہی فرش پر ایک بالٹی پڑی تھی جس میں پتے دھونے کے بعد پانی ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ ہمیں یہ احساس ہونے لگا کہ باقی معاملات بھی ایسے ہی ہوں گے۔

تھوڑی دیر بعد ایک صاحب آئے ان کے پاس ایک بڑی سی ٹوکری میں بہت سارے برتن تھے جن میں مختلف قسم کے کھانے تھے۔ یہ ریسٹورانٹ ایک ہندو کی ملکیت تھا اس لیے یہاں پر گوشت دستیاب نہیں تھا۔ ان کے ساتھ ایک صاحب تھے جن کے پاس سفید ابلے ہوئے چاول تھے۔ چاول والے صاحب نے ہمارے پتوں پر چاول ڈال دیے اور دوسرے صاحب نے ہم سے پوچھا کہ آپ کیا لیں گے؟ ان کے پاس مختلف قسم کی ڈشز تھیں جو دال اور سبزیوں پر مشتمل تھیں۔ ہم نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق ان سے فرمائش کی جو انھوں نے بخوشی پوری کی۔

وہ دونوں صاحبان بعد میں ہمیں پوچھنے بھی آتے رہے۔ ہمیں میز پر کوئی چمچہ نظر نہ آیا۔ ارد گرد سب لوگ ہاتھوں سے ہی چاول کھا رہے تھے۔ ہم میں سے کوئی بھی ہاتھ سے کھانے کا عادی نہیں تھا۔ لیکن چمچہ ندارد۔ ہم نے بھی ہاتھ سے کھانے کاہی فیصلہ کیا۔ اور اس پر عمل بھی کیا۔ جب ہم نے اپنا کھانا ختم کیا تو ایک صاحب آئے اور ہماری پلیٹ یعنی کیلے کے پتے اٹھا کر لے گئے۔ کیلے کے پتے پرکھانا رکھ کر کھانا ہم تینوں کا پہلا تجربہ تھا۔

چنائی میں مجھے ایک جنرل اسٹور پر جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ اسٹور میں موجود کام کرنے والے لوگوں نے سر پر سفید ٹوپی رکھی ہوئی تھی اور ان سب کے چہروں پر داڑھی بھی موجود تھی۔ اپنے حلیے سے وہ مسلمان لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ دکان میں موجود دینی کتابوں سے اس بات کی تصدیق بھی ہو رہی تھی۔ میں نے انھیں السلام علیکم کہا۔ انھوں نے میرے سلام کا بہت اچھے طریقے سے جواب دیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں۔ اس پر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور پاکستان سے متعلق پوچھنے لگے۔

شروع میں ہم نے انگریزی میں بات چیت کی لیکن جلد ہی ہم نے اردو میں بات کرنا شروع کر دی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اردو کہاں سے سیکھی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ زیادہ تر مذہبی کتابیں اردو میں ہیں اور اس کے علاوہ ہمارا تعلق بھی تبلیغی جماعت سے ہے۔ تبلیغی جماعت کے بہت سے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں جن سے ہمیں اردو سیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ البتہ جب ہم آپس میں بات کرتے ہیں تو تامل زبان میں کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ تامل ناڈو میں مسلمانوں کے حالات کیسے ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

چنائی کا ٹی نگر: ایک مصروف ترین قدیم مارکیٹ

ایک دن وقاص بھائی اور میں نے چنائی شہر کے پرانے علاقے دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ایک صاحب سے اس بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ آپ کو ٹی نگر جانا چاہیے۔ ہمیں جگہ کا نام بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ لگا۔ ہم شروع میں یہ سمجھے کہ ٹی سے مراد چائے ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ چنائی کی تاریخ سے معلوم ہوا کہ 1920 ء میں ٹاؤن پلاننگ ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت چنائی میں بہت ساری عمارتیں، رہائشی بستیاں اور مارکیٹس بنائی گئیں۔ ایک مشہور وکیل اور سیاسی رہنما تھے جن کا نام تھا،

Sir Pitti Theagaraya Chetty
ان کے نام پر اس مارکیٹ کا نام رکھا گیا۔ اب پورا نام لکھنے کی بجائے صرف ٹی نگر لکھا جاتا ہے۔

اس مارکیٹ کے بارے میں معلوم ہوا کہ بھارت کی چند بڑی مارکیٹوں میں اس مارکیٹ کا نام سب سے اوپر ہے۔ تامل ناڈو کا دو تہائی سونے کا کاروبار اسی مارکیٹ میں ہوتا ہے۔

جب ہم مارکیٹ میں گئے تو دیکھا کہ ایک طرف بہت تنگ بازار تھے جہاں پیدل چلنا بھی دشوار تھا۔ دوسری طرف بے شمار پلازے تھے۔ میرا تعلق ٹیکسٹائل سے ہونے کی وجہ سے مجھے معلوم تھا کہ کسی زمانے میں مدراس کے پرنٹ بہت مشہور تھے۔ مدراس وہ پہلا شہر تھا جہاں سے سترہویں صدی میں برطانیہ کو پرنٹڈ کپڑا بھجوایا جاتا تھا۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ مدراس برصغیر کا وہ پہلا شہر ہے جس نے برطانیہ کو کپڑا برآمد کیا۔ حیرت ہے کہ آج بھی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا، برطانیہ کو کپڑا اور ملبوسات برآمد کرتے ہیں۔

نہ بیچنے والا بدلا نہ خریدنے والا اور نہ ہی سامان تجارت۔
اسے ہم کیا کہیں۔ ترقی یا کچھ اور۔
اس کا فیصلہ آپ خود ہی کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments