جذباتیت پر مبنی پاپولسٹ پالیٹکس


پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی حیران کن کامیابی کا مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا۔ اسید (میرا بیٹا) اور گلون (بھتیجا) کے ساتھ آبادی سے باہر شام کا چکر لگا رہا تھا کہ واٹس ایپ پر شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی استہزائیہ تصاویر موصول ہوئی جن کے نیچے لکھا تھا، ”آپ کو مبارک ہو“ ۔ اس کے بعد ایک بندے کا فون آیا جو حمزہ شہباز کو نہایت نامعقول ناموں سے پکار رہا تھا۔ یہ جلدی میں تھا اور فون بند کرنا چاہتا تھا۔ مجھے لگا کہ بندے کو خرچے کی فکر تھی۔ میں نے چھیڑنے کے لئے بات کو طول دی۔ آخر میں اس بندے نے طلعت حسین، رؤف کلاسرا اور شاہ زیب خانزادہ کو جلی کٹی سنائیں اور صابر شاکر، ہارون رشید، عمران ریاض زندہ باد کا نعرہ لگا کر فون بند کر دیا۔ میں نے سوشل میڈیا چیک کیا تو تحریک انصاف واقعی الیکشن جیت رہی تھی۔

فیسبک پر دیکھا تو تین لوگوں نے طنزیہ کمنٹس کیے تھے۔

کل ملا کر یہ پانچ بندے ہوئے اور سب کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ان سب میں مشترک قدر یہ ہے کہ سب کے سب ماشاء اللہ بیروزگار ہیں اور تنگدستی میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ ایک صاحب تو پچھلے چار سال سے مسلسل میرے سامنے ذاتی طور پر اپنی مالی بد حالی کا رونا روتے رہے ہیں۔

گھر پہنچا تو فیسبک پر موجود لوگوں پر تھوڑی تحقیق کا ارادہ کیا، ایسے چہرے ڈھونڈے جن کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ایک صاحب کی وال پر نظر آیا، ”آج میری زندگی کا سب سے بڑا خوشی کا دن ہے“ ۔ ایک اور وال پر یہ عبارت ملی، ”وہ لوگ سامنے آئیں جن کو آج زندگی میں سب سے زیادہ خوشی ملی ہے“ ۔ یہ دونوں صاحبان بھی ماشاءاللہ نوجوان اور بیروزگار ہیں۔

بیروزگاری اور مالی تنگدستی کے علاوہ ان میں دوسری مشترک بات یہ تھی کہ سب کا تعلق پختونخوا سے ہے۔ عمریں ان کی پچیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر کو معاشی مسائل کے شکار لوگ کسی سیاسی جماعت کی کامیابی پر یوں آپے سے کس طرح باہر ہو سکتے ہیں؟ میں نے کبھی عمران خان کو گالی نہیں دی، کبھی شریف فیملی کو اپنا لیڈر یا اس ملک کے لئے ناگزیر نہیں جانا۔ آخر کو وہ کیا چیز ہے جس نے ان کو اتنا جذباتی کیا کہ میرے پیچھے پڑ گئے۔

میرا بنیادی کام بچوں کو پڑھانا ہے اور جن حضرات نے مجھے نشانہ بنایا وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ میں کئی سالوں سے کئی بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ ان کے علم میں ہے کہ میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر مستحق افراد کی مدد کرتا رہتا ہوں، ان مستحق افراد میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ان صاحبان نے مجھے ریفر کیے ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ پارٹی سے وابستہ افراد کروڑ پتی ہونے کے باوجود کسی غریب کی مدد پر یقین نہیں رکھتے۔ میں نے پچھلے کئی دنوں سے کوئی خاص آرٹیکل بھی نہیں لکھا بس کبھی کبھی ہلکی پھلکی تنقید کر لیتا ہوں اور یہ تنقید صرف کپتان تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کی زد میں پی ایم ایل این اور دیگر جماعتیں بھی آتی ہیں۔

پھر کیوں ان صاحبان نے مجھے تکلیف پہنچانے سے (ان کی دانست میں ) خوشی کشید کرنی کی کوشش کی؟ اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چار سال میں جب ان کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی تو یہ کس بھرتے پر پی ٹی آئی کی کامیابی پر خوشی میں آپے سے باہر ہو گئے؟ ان سوالات کا کھوج لگانے کے لئے کافی سوچا تو کچھ نقاط ذہن میں روشن ہوئے۔ یہ سب مجھے پاپولس پالیٹکس کی مار لگے۔ یعنی ان کی زندگیوں میں جتنی تلخی بھر سکتے ہو، بھر دو لیکن ان کے جذبات کو ہمیشہ دھیمی آنچ پر رکھو اور جب ضرورت پڑے شعلہ تیز کرو، یہ ابلنے لگیں گے اور جب یہ ابلنے لگیں تو اس تپش میں ان کی نظروں سے حقیقت خود بخود چھپ جائے گی اور یہ خالی خالی نعروں سے آمادہ رقص ہو جائیں گے۔

تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کو پاکستانیوں کی نفسیات کا زبردست ادراک ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں تیرہ کروڑ لوگ تیس سال سے کم عمر ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ٹی آئی نے سیاست کو گلیمرائز کیا۔ ہر روز کپتان کی کوئی سٹائلش تصویر ڈال دو اور اپنے ٹرول کے ذریعے اس کو وائرل کر دو۔ چور چور کی صدائیں مسلسل بلند کرتے رہو۔ ریاست مدینہ کا ذکر کرتے رہو۔ لوگوں کی محرومیوں کو سیاست دانوں کی دولت سے نفی کرو۔ ان سب چیزوں سے ان کو انگیج رکھو اور جب برا وقت آئے تو امریکہ کو بیچ میں لے آؤ۔ اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش قرار دو اور انتخابات جیت کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments