رپورٹر ڈائری: ‘ووٹ کیا ڈالیں؟ سیاست دانوں سے دل اٹھ گیا ہے’


پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو برتری حاصل ہے۔
لاہور — جب آپ میری یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت ٹی وی اسکرینز پر سرخ ڈبے گھوم رہے ہوں گے۔ بریکنگ نیوز اور انتخابی نتائج کی بھرمار ہوگی اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے اکثر لوگ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ رہے ہوں گے۔

لیکن میں بات کرتی ہوں آج کے دن کی جو میں نے لاہور کے مختلف حلقوں میں مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر گزارا۔ 17 جولائی 2022 بروز اتوار پنجاب کے ان 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کا دن تھا جہاں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار منحرف ہوئے تھے۔

پنجاب کی روایت رہی ہے کہ یہاں الیکشن کا دن تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔ گلی، محلّوں میں پارٹی ورکرز اپنے اپنے حامیوں کے گھروں کے دروازے صبح سویرے ہی کھٹکھٹانا شروع کردیتے ہیں۔

عام طور پر یہ کام خواتین ورکرز کو سونپا جاتا ہے جو محلّے کے تقریباً ہر گھر تک رسائی رکھتی ہیں اور خواتین ووٹرز کو گھروں سے باہر نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کی پابند ہوتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پر پہنچانے کے لیے رکشوں اور ویگنوں کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔

لاہور میں اتوار کا دن بھی کچھ ایسے ہی شروع ہوا۔ مختلف جماعتوں کے کارکنان پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لگے پارٹی کیمپس میں صبح سے ہی موجود رہے۔ گاڑیوں اور رکشوں کا انتظام بھی ہر انتخابی حلقے میں نظر آیا لیکن دوپہر تک اُن میں بیٹھے ووٹرز کی تعداد کم ہی نظر آئی۔

وائس آف امریکہ کے دیگر ساتھیوں کی طرح میں نے بھی اپنے رپورٹنگ کے فرائض نبھانے کا سلسلہ پولنگ کا عمل شروع ہوتے ہی شروع کردیا تھا۔ لاہور کے حلقہ پی پی 167 میں دو لاکھ 20 ہزار 338 رجسٹرڈ ووٹرز کے لیے 140 پولنگ اسٹیشنز قائم تھے۔

بطور رپورٹر میں نے پولنگ اسٹیشنوں کے قریبی علاقوں کا جائزہ لیا تو زیادہ تر کیمپس پر بیٹھے ورکرز کو ووٹرز کے انتظار میں ہی پایا۔ وقتاً فوقتاً مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی حلقوں میں اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے چکر لگاتے رہے۔

لاہور میں چونگی امر سدھو کے مقام پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے علاقے کا دورہ کیا۔ میری ان سے بات ہوئی تو فواد چوہدری نے کہا کہ وہ لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال سے مطمئن ہیں اور ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کو بھی اچھا دیکھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما کو یقین تھا کہ اگر ووٹر ٹرن آؤٹ اچھا رہا تو ان کی جماعت کو کوئی نہیں روک سکتا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ انہیں الیکشن کمیشن کی نااہلی کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں ردّ و بدل کی گئی ہے اور پولنگ اسکیم میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ لوگوں کو پتا نہیں کہ انہوں نے ووٹ کہاں ڈالنے جانا ہے۔ لیکن ان شکایات کو حل کیا جاسکتا ہے۔

اس حلقے کے ساتھ ہی ایک لاکھ 51 ہزار 484 رجسٹرڈ ووٹرز رکھنے والے حلقہ پی پی 168 میں بھی ووٹنگ کا عمل صبح نو بجے سے شام پانچ تک جاری رہا۔

پی پی 168 کے علاقے پاک عرب ہاؤسنگ سوسائٹی میں میری ملاقات اقرا ارشد سے ہوئی جو ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑی تھیں اور اپنا ووٹ کاسٹ کرنے آئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ پولنگ کا عمل تو سکون سے جاری ہے اور زیادہ رش بھی نہیں ہے۔

اقرا ارشد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ “میں اپنی فیملی میں واحد فرد ہوں جو ووٹ کاسٹ کرنے پہنچی ہوں۔ کیوں کہ زیادہ تر لوگوں کی دلچسپی انتخابی عمل سے ختم ہوچکی ہے۔”

“جب میں نے اپنے بچوں سے ووٹ ڈالنے کا کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ جب ووٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تو ہم اپنا حقِ رائے دہی کیوں استعمال کریں؟”

میں نے پولنگ اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر ایک گھر کے باہر کرسیاں لگائے بیٹھے رہائشیوں سے بھی پوچھا کہ کیا آپ اپنا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو وہ صرف صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

انہی میں سے ایک اشفاق نامی شخص نے کہا کہ “سیاست اور سیاست دانوں سے تو دل ہی اُٹھ گیا ہے۔ اقتدار میں آکر کون ہے جو عوام کی بات کرتا ہو۔ جن لوگوں کے ووٹ سے آگے آتے ہیں اُن کی بات کرتا ہو۔ تو جب کوئی ہمارے بارے میں نہیں سوچتا تو ان کے بارے میں ہم کیوں سوچیں۔ ہم بھی اپنی چھٹی گھر پر رہ کر آرام سے گزارنے کا سوچ رہے ہیں۔ ووٹ ڈال کر کیا کرنا ہے۔”

لاہور کے حلقہ پی پی 170 کی کوریج کرنے پہنچے تو ایک لاکھ 14 ہزار 652 رجسٹرڈ ووٹرز والا یہ حلقہ بھی سیاسی جماعتوں کے بینرز کی چھاؤں میں دکھائی دیا۔ یہاں پولنگ اسٹیشنز کے قریب پارٹی ورکرز کے نعرے ماحول گرما رہے تھے۔

یہاں مسلم لیگ (ن) کے ایک ووٹر راشد نذیر سے بات کی تو انہوں نے صوبہ پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والے مقابلے کو کانٹے دار قرار دیا۔ راشد کے ساتھ آئی ان کی اہلیہ نے بھی شیر کی جیت کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں اقتدار میں آنے والا ملک کی بہتری کے لیے کام کرے۔ اور مسلم لیگ (ن) چوں کہ پہلے بھی ان کے حلقے میں کام کرا چکی ہے، اس لیے اُن کا ووٹ اس بار بھی شیر کو جائے گا۔

لاہور کے حلقہ پی پی 158 میں انتخابی مہم کے دوران خاصی گہما گہمی دیکھنے میں آئی۔ گڑھی شاہو، ریلوے روڈ، دھرم پورہ جیسے علاقوں پر مشتمل اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 36 ہزار 394 ہے۔ اس حلقے کے عوام نے 151 پولنگ اسٹیشنز میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔

یہاں بھی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کی ملی جلی تعداد دیکھنے میں آئی۔ حساس حلقوں کے باہر پارٹی ورکرز نظر جمائے بیٹھے رہے اور کسی بھی قسم کی مشکوک سرگرمی محسوس ہوتی تو شور مچا دیا جاتا۔

صوبے بھر کے 14 اضلاع کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے 175 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ تو ووٹرز نے لکھ دیا ہے۔ اب ووٹرز اور امیدواروں کو حتمی نتائج اور اپنی پسندیدہ جماعتوں کی آئندہ حکمتِ عملی کا انتظار ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments