کیا اسقاط حمل عورت کا انسانی حق ہے؟


آئیں آج میں آپ کو زمانہ طالب علمی کا ایک دلچسپ واقعہ اور ایک نظم سناؤں۔

آج سے چالیس برس پیشتر جب میں کینیڈا کی میموریل یونیورسٹی میں نفسیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آیا تو پہلے ہی دن پروفیسر جون ہونگ نے میرا خوش دلی سے استقبال کیا اور پھر کہنے لگے

اگر آپ چاہیں تو میرے ساتھ پہلا مریض دیکھ سکتے ہیں۔
میں نے کہا کیوں نہیں یہ آپ سے کچھ سیکھنے کا سنہری موقع ہے۔

پھر ڈاکٹر ہونگ نے میری موجودگی میں ایک سولہ سالہ لڑکی کا انٹرویو لیا۔ وہ حاملہ تھی اور اسقاط حمل کرانا چاہتی تھی۔

جب وہ لڑکی چلی گئی تو میں نے ڈاکٹر ہونگ سے پوچھا۔ اس لڑکی کا حاملہ ہونے کا نفسیاتی علاج سے کیا تعلق ہے؟

کہنے لگے نیوفن لینڈ کے قانون کے مطابق لڑکیاں اسقاط نہیں کروا سکتیں جب تک اسے تین ڈاکٹر اجازت نہ دے دیں۔ فیمیلی ڈاکٹر۔ گائناکالوجسٹ اور ماہر نفسیات۔

پھر ڈاکٹر ہونگ نے اس لڑکی کی والدہ کا انٹرویو لیا۔ اس نے کہا ’میں کیتھولک ہوں اور میرا ایمان ہے کہ اسقاط گناہ ہے۔ اگر میری بیٹی اپنے بچے کا خیال نہیں رکھنا چاہتی تو وہ بچہ پیدا کر کے مجھے دے دے۔ میں اسے گود لے سکتی ہوں۔ ‘

جب وہ چلی گئی تو میں نے ڈاکٹر ہونگ سے پوچھا
’لڑکی کی ماں کا انٹرویو لینے کی کیا ضرورت تھی؟‘

ڈاکٹر ہونگ نے کہا کہ اسقاط حمل کرنے کے لیے مریضہ کو اینستھیزیا دے کر بے ہوش کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ یہ لڑکی اٹھارہ سال کی نہیں ہے اس لیے وہ کاغذات پر دستخط نہیں کر سکتی اور ہمیں اس کی ماں کے دستخط کی ضرورت ہے۔

جب لڑکی کی ماں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو ڈاکٹر ہونگ قدرے پریشان ہوئے۔ انہیں پریشان دیکھ کر میں نے کہا

میرا ایک مشورہ ہے۔
وہ کیا؟ ڈاکٹر ہونگ نے کہا
آپ لڑکی کے باپ کو فون کریں۔
وہ کیوں؟
وہ دستخط کر دے گا۔

کیا آپ اس کے والد کو جانتے ہیں؟ ڈاکٹر ہونگ نے حیرانی سے پوچھا
نہیں۔ میں نے جواب دیا
تو پھر آپ کیسے جانتے ہیں کہ وہ دستخط کر دے گا۔
آپ فون کر کے تو دیکھیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر ہونگ نے والد کو فون کیا اور وہ دستخط کرنے کو تیار ہو گیا۔
ڈاکٹر ہونگ میرے مشورے سے بہت متاثر ہوئے۔
میں نے کہا ’میرا تاثر یہ ہے کہ مائیں لڑکیوں کے بارے میں زیادہ جذباتی ہوتی ہیں‘

کینیڈا میں بھی ایک وہ زمانہ تھا جب عورتوں کو اسقاط حمل کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن پھر عورتوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی۔

کینیڈا میں عورتوں کے حقوق کی جنگ میں ایک مرد بھی شامل تھا جس کا نام ڈاکٹر ہینری مارگن ٹیلر تھا۔ انہوں نے کینیڈا کے مختلف شہروں میں ابارشن کلینک کھولے۔ ان پر مقدمے چلے اور انہیں جیل بھیجا گیا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔ آخر وہ جنگ جیت گئے اور کینیڈا کا قانون بدل گیا۔

اب جو بھی کینیڈین عورت چاہے وہ اسقاط حمل کروا سکتی ہے۔

کینیڈا کے ڈاکٹر ہینری موگن ٹیلر پاکستان کے ڈاکٹر شیر شاہ سید کی طرح ایک معزز و محترم ڈاکٹر ہیں جنہوں نے عورتوں کی بہت خدمت کی۔ ڈاکٹر ہینری مورگن ٹیلر ایک ہیومنسٹ ہیں اور انہیں ان کی زندگی میں انسان دوستی کے بہت سے انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔

میں ان عورتوں سے جو مردوں سے بہت شاکی رہتی ہیں کہتا ہوں کہ دنیا میں ڈاکٹر ہینری مارگن ٹیلر اور ڈاکٹر شیر شاہ سید جیسے مرد بھی ہیں جو نہ صرف عورتوں کی خدمت کرتے ہیں بلکہ ان کے حقوق کے لیے جنگ بھی لڑتے ہیں کیونکہ وہ انسان دوست ہیں۔

یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے اس دور کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال میں کام کیا کرتا تھا۔

وہاں ایک شام ایک عورت آئی اور کہنے لگی میں اسقاط حمل کروانا چاہتی ہوں۔

میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی میرے پہلے سے چھ بچے ہیں میں ساتواں بچہ نہیں پال اور سنبھال سکتی کیونکہ میں بہت غریب ہوں۔

میں نے اپنی پروفیسر سے پوچھا تو انہوں نے اسقاط حمل کرنے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگیں اسقاط غیر قانونی ہے۔ معاشی مسئلہ قابل قبول جواز نہیں ہے۔ میں نے دکھی ہو کر اس عورت کو گھر بھیج دیا۔

چند دنوں کے بعد وہی عورت ایمرجنسی میں بے ہوش لائی گئی۔ پتہ چلا کہ وہ اسقاط کرانے شہر کی کسی تاریک گلی میں گئی تھی جہاں کسی ان پڑھ اور ناتجربہ کار عورت نے کوٹ کے ہینگر سے غیر محفوظ طریقے سے اسقاط کرنے کی کوشش کی اور وہ بے ہوش ہو گئی۔

میری پروفیسر نے یہ کہہ کر اسے داخل کر لیا کہ اب اس کی جان خطرے میں ہے۔

میں نے مریضہ کو داخل کرتے ہوئے سوچا کہ اگر ہم اسے چند دن پہلے داخل کر لیتے تو وہ اس عذاب سے بچ جاتی۔

پاکستان میں نجانے کتنی حاملہ عورتیں اس عذاب سے گزرتی ہیں اور کتنی اس عمل میں مر بھی جاتی ہیں اور کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ وہ کتنی خاموشی سے یہ سارے دکھ جھیلتی ہیں۔

امریکہ میں جب ریپبلکن پارٹی کا ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو اس نے روایتی ججوں کی تقرری شروع کر دی جنہوں نے عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا شروع کر دیا۔ اب امریکی عورتوں سے ان کا اسقاط حمل کا حق چھینا جا رہا ہے جو ترقی معکوس کی ایک مثال ہے۔

آج سے پچاس برس پیشتر جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال کے لیبر روم میں ایک طالب علم کی حیثیت سے عورتوں کے مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کر رہا تھا اور زندگی کے راز سیکھ رہا تھا ان دنوں میں نے عورتوں کی جدوجہد کے بارے میں کئی نظمیں لکھی تھیں۔ ان نظموں میں سے ایک نظم حاضر خدمت ہے

یہ مرا جسم ہے یہ مری زندگی
اک قیامت ہی گویا بپا ہو گئی
گھر کی ہر بات سرگوشیوں میں ڈھلی
ہولے ہولے سبھی نے خبر یہ سنی
نوجوانی میں میں حاملہ ہو گئی
دھیرے دھیرے ہر اک شخص مجھ کو بلاتا رہا
میری رنجیدہ حالت پہ وہ رحم کھاتا رہا
کوئی شادی کے فرسودہ نغمے سناتا رہا
کوئی اسقاط کے مجھ کو نسخے بتاتا رہا
کوئی بے باپ بچوں کے قصے سناتا رہا
کوئی مجھ کو گناہوں سے ہر دن ڈراتا رہا
میں یہ سب کچھ خموشی سے سنتی رہی
چاہتی تھی مگر میں نہیں کہہ سکی
ساری خلق خدا کیا نہیں جانتی
یہ مرا جسم ہے یہ مری زندگی
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments