ہیدونزم یا فلسفہ خوشی کیا ہے؟ مختصر تعارف اور اردو شاعری میں بطور تناظر


 

اردو شاعری میں حزن و ملال کے موضوعات ہوں یا پھر غم زیست بطور فلسفہ، ایسے موضوعات کی اردو شاعری میں بھرمار ہے اور ان موضوعات کے حوالے سے کئی شعرا نمائندہ ہیں۔ میر ؔ نے غم کو فلسفہ بنایا تو وہیں فانی ایک قنوطی شاعری کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ غم کے بعد خوشی یا نا امیدی کے بعد رجائیت کا بیان یہ بھی ایک رواجی بات ہے۔ اردو شاعری بیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی، متنوع تناظرات اور تحریکوں کے نرخوں میں آ گئی، اور اکیسویں صدی میں تو ادب برائے زندگی یا ادب برائے فن کے مباحث کہیں پیچھے چھوٹ گئے۔

اب شاعری کرنٹ افیئر بن گئی ہے۔ انسان کی داخلیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اجتماعیت کے مہابیانیوں نے انسان کی فردیت کو طاق نسیاں کر دیا۔ جدیدیت، نوآبادیات و مابعد نوآبادیات کے مباحث اور سوشلزم کے اجتماعی انقلاب نے فرد کی انفرادی حیثیت کو ختم کر دیا۔ جس کے نتیجے میں وجودیت کی تحریک و فلسفے نے جنم لیا اور انسان نے گویا غم و الم کو ہی مقدر مان لیا۔ بہر کیف اردو شاعری میں ایسے شعراء کرام بھی موجود ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں خوشی کو بطور فلسفہ پیش کیا اور انسان کے اس عقلی احساس کو جلا بخشی جسے ”خوشی“ کا نام دیا جاتا ہے۔

خوشی کے فلسفے کے اس بیان میں فضا اعظمی کا نام ایک معتبر حوالہ ہے۔ اور ان کے علاوہ ملتان سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر مبشر سعید بھی اس فلسفے کو اپنی شاعری میں بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نوجوان شعراء کی شاعری میں فلسفہ خوشی ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ آج کے شورش زدہ معاشرے میں جس طرح ماسوکزم نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہاں پر رجائیت کا بیان ممکن ہی نہیں اور آج کی نسل کے جذبات کی نمائندگی بھی دکھ درد کے بیانیوں میں ہوتی ہے۔

”نفسیات میں، خوشی کے دو مشہور تصورات ہیں : ہیڈونک اور یوڈیمونک۔ Hedonic خوشی خوشی اور لطف کے تجربات کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، جبکہ eudemonic خوشی معنی اور مقصد کے تجربات سے حاصل کی جاتی ہے۔“ بہر کیف خوشی بطور بیانیہ ہم نے موضوع بنا رکھا ہے تو اس کا سراغ اردو شاعری کی جدید منظر نامے سے لگاتے ہیں وہ بھی انتہائی محدود اور مخصوص مطالعے کی حد تک۔

ہیڈونزم ایک قدیم یونانی فلسفہ ہے، جو ایپکورس سے منسوب ہے۔ ایپکورس یا ابیقورکے مطابق ؛ خوشی ایک ایسے عقلی احساس کا نا م ہے جس میں سکون، اطمیانینت، تحفظ، پیار اور راحت و مسرت کی کیفیات اجاگر ہوتی ہوں۔ خوشی اور غم کے حوالے سے مختلف مفکرین نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ مغربی و مشرقی مفکرین اور دانشوروں نے اپنے خیالات و افکار سے اس ضمن میں بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ فضا اعظمی نے اپنی شاعری میں سماج میں زندگی کی تلخیوں اور دکھوں کا مداوا اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔

غم زدہ معاشرے میں خوشیوں کے پھول بانٹنے والے عظیم لوگ ہوتے ہیں۔ عہد حاضر میں دکھوں اور مسائل میں الجھے ہوئے انسانوں کے چہرے پر ہلکی پھلکی مسکراہٹیں بکھیرنا کسی عبادت سے کم نہیں ہے۔ فضا اعظمی نے ہمارے پریشان حال لوگوں کو خوشی اور خوشحالی کی طرف راغب کیا ہے۔ ان کی شاعری میں اس فلسفہ کو غالب رکھا گیا ہے۔ انہوں نے زندگی کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کو مزید روپ عطا کیا ہے۔

فضا اعظمی نے خوشی کے حوالے سے جو اصول اپنی شاعری میں وضع کیے ہیں ان کو مختلف ناقدین نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اور ان اصولوں کی بدولت غموں، دکھوں اور مغموم چہروں پر پڑے کرب کے دبیز پردوں کو ہٹا کر خوشی کے در وا کرنے کے ضمن میں اعظمی صاحب کے شاعرانہ کردار کی تحسین پیش کی ہے۔ نسیم انجم اس حوالے سے لکھتی ہیں۔

” جناب فضا اعظمی نے انسان کی زندگی کی تلخیوں کے خاتمے کے لیے کچھ اصول شاعری کی زبان میں وضع کیے ہیں۔ اس کی وجہ انسانی زندگی میں بے شمار دکھ ہیں اور یہ غم ازل سے ابد تک کے لئے اس کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں۔ لہذا یاسیت اور غموں کی کسک کو مٹانے کے لیے خوشیوں کے دروازے کو وا کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔“

فضا اعظمی کی شاعری میں فلسفہ کے حصول کے ضمن میں جگہ جگہ مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً
خوشی کے لفظ میں مستور درس فطرت ہے
یہ ایک لمحہ نہیں عمر بھر کی دولت ہے
نشان راہ نہیں زاد عمری ہے
اسے سنبھال کے رکھو یہ پیش قیمت
خوشی کو اصل تناظر میں دیکھنا ہے ہمیں
جہاد زیست کے محور سے جانچنا ہے ہمیں

خوشی کے حصول اور خوشی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں خوشی کے اثرات اور احساسات کے ضمن میں فضا اعظمی کی شادمانی، انداز اور طمانیت کو زیست کی رعنائی کہا جاسکتا ہے۔ فضا اعظمی نے اظہار خوشی اور زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی معنویت اور اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے نظام زیست میں خوشیوں کی روشنی جگمگ کرتی نظر آتی ہے۔

فضا اعظمی کی شاعرانہ اسلوب سے خوشیوں اور مسرتوں کی تلاش کی بو آتی ہے۔ وہ سماج میں انسانی رویوں کے خوبصورت پرچار کے ساتھ ساتھ سماج سے ظلم و بربریت اور جبر و تشدد کے بازار پر سخت نالاں ہیں۔ انسان کی زبوں حالی اور پستی ان کو مجبور کرتی ہے کہ انسان کے لیے خوشی کی کوئی روح اور امن کا کوئی گوشہ تخلیق کریں، جس میں انسان سماجی ناسور سے کٹ کر امن و آتشی کی زندگی جی سکے۔

خوشیوں کے جو خوش رنگ زاویے فضا اعظمی کے شاعرانہ فلسفے سے تلاش کیے جا سکتے ہیں ان میں فلسفہ خوشی، غم زیست اور خوشی، رشتے اور خوشی، مزاج اور خوشی، معاشیات اور خوشی، تبدیلی نصاب اور خوشی، نجات اور خوشی، اہل مغرب اور خوشی، ادب اور خوشی، حضرت آدم اور خوشی، نمود اور خوشی، شہرت اور خوشی، جنگی جنون اور خوشی، ملن گھڑی اور خوشی، ایٹمی دھماکا اور زوال اور خوشی اور مناجات اور خوشی وغیرہ شامل ہیں۔ فضا اعظمی کی جو شاعرانہ روح ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ فضا اعظمی نے شکوہ ظلمت شب نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے اس سماج میں خوشیوں کی شمع روشن کی ہے۔

خدا کرے تجھے حاصل کمال ہو جائے
خدا کرے تیرا رتبہ بحال ہو جائے
خدا کرے یہ دنیا ہو مثل خلد بریں
تیرا جہاں فقیدالمثال ہو جائے

ان کے علاوہ مبشر سعید کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ مبشر سعیدؔ کو لفظوں کا جادوگر شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی شعری کائنات منظر نگاری، جذبات نگاری، لطافت خیال، پیکر تراشی و تصویر کاری، زندہ دلی و خوش طبعی سمیت مکالمانہ انداز ان کے شعری بنا نیے کو سحر انگیز بنا دیتا ہے۔ سعید کی سب سے بڑی خصوصیت ان کے اسلوب کا سہل ممتنع ہو نا ہے۔ رجائیت پسند یہ شاعر اپنی شاعری میں ریشمی اور نازک خیالی پر مبنی الفاظ سے پر امید اور خوش رہنے کی دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں عشقیہ موضوعات میں وفاداری بشرط استواری کا بیان ملتا ہے۔

اب ترے ساتھ تعلق کی گزر گاہوں پر
وقت مشکل ہے، مگر ہاتھ چھڑانے کا نہیں
قریۂ سبز سے آتی ہوئی پرکیف ہوا!
طاق پر رکھا مرا دیپ بجھانے کا نہیں
(خواب گاہ میں ریت)

فلسفہ خوشی اب عالمی سطح پر بھی رواج پاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ خوشی کا جو سکہ فضا اعظمی اور مبشر سعیدؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے اس معاشرے میں رائج کرنے کی کوشش کی ہے وہ آج کے شورش زدہ معاشرے کی ضرورت ہے۔ تخلیق کار اور تنقید نگار دونوں کو اپنی علمی و ادبی بصیرت سے قارئین کے چہروں کو تابانی اور شگفتگی عطا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments