پیپلز پارٹی کی پنجاب میں ناکامی کا ذمہ دار کون؟


پنجاب کے جیالے ورکر ٹکٹ ہولڈر پنجاب میں ناکامیوں کا ذمہ دار آصف علی زرداری کو ٹھہراتے ہیں۔ حتی کہ خود کو سوشل میڈیا پر پارٹی کی موثر آواز والے بھی اس کا الزام آصف علی زرداری پر لگاتے ہیں۔

کیونکہ! ان کو پتہ ہے زرداری صاحب کا ظرف برداشت کرنے والا ہے اگر یہ ہی تمام لوگ اپنی مقامی قیادت کو احساس دلائیں کہ آپ کو عہدے کس لئے دیے گئے؟ ٹکٹ ہولڈر کو احساس دلائیں کہ آپ نے الیکشن لڑنا لیکن حلقہ کی عوام سے رابطہ نہیں؟ تو ہو سکتا ہے ہر کوئی اس تنقید پر اپنا کام بہتر کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن مقامی قیادت کے گن گانے والے سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر ایسے کرتے ہیں جیسے پنجاب میں بچ جانے والے جیالے صرف ان کی بدولت ہیں۔

صرف ذاتی تعلقات کو ترجیح دینے کے لئے سب او کے رپورٹ کی وجہ سے پارٹی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ جانتی اعلی قیادت بھی ہے جو حالات ہیں۔ اہم۔ میٹنگز میں پنجاب کے وہ ہی پرانے 10 12 لوگ جن کو آپ ایکس وائی اور زیڈ کا نام بھی دیں تو کچھ برا نہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہاں ہر عہدے دار پارٹی پر قابض اپنے آپ میں ملک ریاض بنا ہوا ہے۔ اعلی قیادت سے ملاقات کے وقت جب یہ ہی لوگ موجود ہوتے ہیں تو اعلی قیادت کو اپنا کیا جانے والے کام کی فائلیں دکھاتے ہیں ان میں یہ ہی تو دکھایا جاتا ہے کہ یہ پارٹی کے لئے اتنے پروگرام کر چکے ہیں فلاں فلاں۔

لیکن گراؤنڈ لیول پر ان کا کوئی ایکا ایسا کام نہیں جس سے جیالوں کو اکٹھا ہونے کا موقع ملا ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں تنظیمی ڈھانچہ نامکمل! پاکستان پیپلز پارٹی میں میڈیا مینجمنٹ بالکل نہیں! پاکستان پیپلز پارٹی کا سوشل میڈیا سیل بالکل نہیں! پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں ورکرز کی عزت بالکل نہیں! پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں جیالوں کا آپس میں اتحاد بالکل نہیں تھا! جس کی ایک ہی وجہ کہ اعلی قیادت کا مشترکہ حکومت کے قیام کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدے داروں کا عوام سے رابطہ بالکل نہیں اپنے ورکرز سے رابطہ بالکل نہیں! حالانکہ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے جو اہم باتیں ہیں ان پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔

نمبر 1 : پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں عہدے داروں کی گراؤنڈ لیول تک اپنی ٹیمیں بنا کر ورکرز سے رابطوں میں تیزی لا کر ان کے دیرینہ مسائل کا فوری حل۔

نمبر 2 : پنجاب و وفاق میں سرکاری عہدے ملنے کے بعد اپنے ورکرز کو مختلف شکل میں ریلیف دینے کی کوشش۔

نمبر 3 : حکومت کا حصہ بن جانے کے بعد میڈیا میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہونے والے ترقیاتی و ملکی قومی کاموں کو مختلف چینلز کے ذریعے پروگرامز میں اپنے لوگ بٹھا کر ان کاموں کی لسٹ ان کے فوائد عوام تک پہنچانا۔

نمبر 4 : میڈیا کے ذریعے سندھ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تشہیر۔

نمبر 5 : سندھ میں صحت کے معاملے میں واضح ترقی کو بار بار میڈیا میں کمرشل دلوا کر عوام کو ان کی افادیت بتانا۔

نمبر 6 : میڈیا پر بیٹھ کر بلاول بھٹو زرداری کے وزیر بننے سے اب تک عوام کو ان کی کارگردگی بتانا۔ جس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے سے لے کر دوسرے ممالک کا پاکستان کے ساتھ تجارتی امور پر ساتھ دینا تک شامل ہوں۔

نمبر 7 : حکومت کا حصہ ہونے کیلے بعد اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو مینیج کر کہ ان سے اچھے طریقے سے کام لینا کیونکہ آج کل سوشل میڈیا ایک ٹرینڈ بن گیا ہے اس پر عمران خان جیسے انسان کے جھوٹ کو بھی سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بہت سے کارنامے ہیں جن کو حقیقت میں عوام تک پہنچانے کا اہم کام سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔

نمبر 8 : عہدے دار جو پورے پنجاب کو نہیں دیکھ سکتے وہ اپنی الگ سے ایک ٹیم بنا لیں جو سٹی لیول تک ہو اور ان کو ورکرز کے ساتھ رابطے کرنے اور ان کو الیکشن مہم کو شروع کرنے کے لئے گراونڈ پر لائیں جن کا مسلسل عوامی رابطہ رہے اور عہدے دار ان سے کم از کم ہفتہ وار رپورٹ طلب کرے۔

اس طرح کافی باتیں ہیں لیکن مقامی عہدے دار ٹکٹ ہولڈرز سارا ملبہ اعلی قیادت پر ڈالنے کی بجائے اپنی کارگردگی دکھائیں کہ انہوں نے پارٹی کی بہتری کے لئے کون سا کردار ادا کیا۔ امریش پوری والا یا انیل کپور والا۔ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب کی تنظیم مکمل کرنے اور پنجاب کے صدر کے لئے ایسا مضبوط عہدے دار چاہیئے جو ایک وقت میں مختلف سیاسی جماعتوں جن میں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، اس کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔ اعلی قیادت کو اب اس بارے میں سوچنا چاہیئے تاکہ آنے والے الیکشن میں پنجاب کے لاوارث جیالوں کا کوئی سربراہ بننے کے لئے راضی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments