پاکستان کا تابناک معاشی مستقبل: چند تجاویز


تھر میں پچھلے سال پندرہ لاکھ سیاح آئے تھے۔ میری تجویز ہے کہ اسلام کوٹ کے مائی بختاور انٹر نیشنل ائر پورٹ کے لئے جہاں سے ائر چائنا شنگھائی اور بیجنگ کے لئے پروازیں لے جاتی ہے کراچی کے لئے دن میں ایک پرواز چلائی جائے۔ یہ ایک منافع بخش روٹ ہے جس سے تھر میں مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والوں اور عام سیاحوں کو بڑی سہولت ہو جائے گی۔

اسلام کوٹ تحصیل میں 2025 تک SDG کے اہداف حاصل ہوجائیں گے۔ آخر باقی ملک میں 2030 کی مقررہ مدت میں یہ اہداف کیوں حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اسلام آباد کے صحافی حضرات تھر کا دورہ کرچکے ہیں اور مزید صحافی بھی وہاں جانے والے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ سینیٹ کا ایک وفد تھر کا دورہ کرے تاکہ صحرا کو گلزار بنانے والے عوامی تجربے سے پورا ملک فائدہ اٹھا سکے۔ نیز یہ کہ تھر میں ہونے والے کام میں جہاں جہاں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کی بھی نشاندہی ہو سکے۔

سندھ حکومت نے بسوں کے لئے overhead راستے بنانے کے بجائے جہاں ایک بس اور دوسری بس کے درمیان تقریباً 2 کلو میٹر سڑک خالی رہتی ہے اور جن کی تعمیر پر اربوں روپے کے سرمائے اور برسوں کے وقت کا ضیاع ہوتا ہے چین اور ترکی کے اشتراک کے ساتھ کراچی کے سات اہم روٹس کے لئے چین سے 250 الیکٹرک بسیں منگائی ہیں۔ اگلے سال کے بجٹ میں سندھ حکومت نے 700 مزید الیکٹرک بسوں کے لئے رقومات مختص کی ہیں تاکہ پورے سندھ میں عوام کو سستی ٹرانسپورٹ مہیا ہو سکے اور پٹرول کی بھی بچت ہو۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ الیکٹرک بسیں ملک میں بنائی جاتیں۔ میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ ایندھن کی بچت کرنے اور عوام کے ٹرانسپورٹ مسائل حل کرنے کے لئے چین کے اشتراک کے ساتھ ملک میں الیکٹرک بسیں بنانے کے کارخانے لگائے جائیں۔ امراء کے لئے مہنگی ترین گاڑیاں بنانے کے لئے جو پٹرول نگلتی ہیں کئی کار خانے لگ چکے۔ اب غریبوں کی ٹرانسپورٹ کے لئے بھی تھوڑی بہت کوشش کرلی جائے۔

قریب المرگ صنعتی شعبہ

پاکستان کی آزادی کے چار ماہ کے اندر اندر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے فیصلہ کیا کہ واہ کے مقام پر آرڈیننس فیکٹری لگائی جائے۔ 1952 میں پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے واہ آرڈیننس فیکٹری کا افتتاح کیا۔ سرکاری شعبے کی یہ فیکٹری پاکستان کی آرڈیننس کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ بھی بہت سی اشیا تیار کر رہی ہے۔ تقریباً ایک لاکھ لوگوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ ایک پورا شہر اس فیکٹری کے ساتھ بس چکا ہے۔ ابھی ڈیفنس پروڈکشن کی مجلس قائمہ کی میٹنگ میں ایک محترم سینیٹر نے سوال کیا کہ اس فیکٹری کی ویلیو کیا ہے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اس کی قیمت کا حساب روپوں میں لگانا ناممکن اور نامناسب ہے۔

شہید ملت لیاقت علی خان نے 1950 میں سرکاری شعبے میں PIDC قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1952 میں PIDC نے اپنے کام کا آغاز کر دیا۔

PIDC کا چارٹر ملک میں ایسی صنعتیں قائم کرنے کا تھا جو مقامی خام مال کا استعمال کریں، جو ملکی درآمدات کا متبادل اپنے ملک میں تیار کریں، ایسی صنعتیں جو پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میں قائم کی جائیں تاکہ وہاں کے لوگوں کو روز گار کے مواقع ملیں، ملک کے معدنی وسائل کو ترقی دی جائے اور ایسی بڑی صنعتیں لگائی جائیں جو ملک کے لئے ضروری ہوں لیکن نجی شعبہ ان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہو۔

یہ صنعتی ترقی کا ایک ایسا چارٹر تھا جو ملکی ضروریات کے عین مطابق تھا اور ملک میں روزگار اور پروڈکشن کو بڑھا کر ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع کر رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے PIDC نے ملک میں 94 بڑے منصوبے شروع کر دیے جن میں کرنا فلی پیپر ملز اور کراچی شپ یارڈ جیسے میگا منصوبے شامل تھے۔

اس دور کا اسٹاک مارکیٹ آج کا جوا خانہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسا مارکیٹ تھا جہاں نئے صنعتی منصوبوں کے لئے سرمایہ جمع کیا جاتا تھا اور ہر عام شہری کو یہ موقع ملتا تھا کہ وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی بچت کو صنعتوں کے حصص میں لگا سکے۔

سرکاری شعبے کی اس بے مثال ترقی سے نجی شعبے میں اعتماد پیدا ہوا اور نجی شعبے نے نئی صنعتوں میں سرمایہ لگا نا شروع کیا۔ باہر کی سرمایہ کاری کے پیچھے ہم نہیں بھاگتے تھے بلکہ باہر سے سرمایہ کاری کرنے والوں پر پابندی تھی کہ نئی صنعتوں میں 51 فیصد سے زیادہ حصص قومی سرمایہ کاروں کے ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کار مقامی پارٹنر ڈھونڈتے پھرتے تھے۔

ملک کے دو لخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں سرکاری شعبے میں بھاری صنعتیں لگائیں۔ ہیوی میکینکل کمپلیکس، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، اسٹیل مل اور دوسرے بہت سے کارخانے اتنی وسعت رکھتے تھے کہ ان میں سیمنٹ پلانٹ اور شوگر ملز جیسی صنعتیں صنعتیں تیار کی جاتی تھیں۔ ملک کی دفاعی طاقت بڑھانے کے لئے، کامرہ کمپلیکس، ٹینک ریبلڈ فیکٹری، ایٹمی بجلی گھر اور یورینیم کی افزودگی جیسے منصوبے ملک میں شروع کیے گئے۔ شاہراہ ریشم تعمیر کی گئی جس نے دوسرے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی پسماندہ علاقے کو غربت سے اوپر اٹھا دیا۔

جب بلوچستان میں انہوں نے ایران کی شراکت سے دو ٹیکسٹائل ملیں لگائیں تو اعتراضات اٹھے کہ بلوچستان میں تو کپاس ہی نہیں پیدا ہوتی وہاں ملیں کیسی۔ شہید بھٹو نے سوال کیا کہ کیا کراچی میں کپاس پیدا ہوتی ہے جہاں آپ اتنی ٹیکسٹائل ملیں لگا چکے ہو۔

زمانہ بدلا۔ آمروں کے دور میں یہ کہا گیا کہ private sector is the engine of growth اور اس نظریے کے عملی نفاذ کے طور پر یہ کرنے کے بجائے کہ نجی شعبے میں نئی صنعتیں لگائی جائیں سرکاری شعبے کی صنعتوں کو نقصان میں لے جاکر ان کی نجکاری کی گئی اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ بینکوں کو چھوڑ کر باقی تقریباً تمام نجکاری کی گئی صنعتیں بند کردی گئیں اور ان میں بیشتر میں موجود زمینوں کو رہائشی پلاٹ بنا کر بیچ دیا گیا۔ یہ ہے طاقت ان لوگوں کی جو ملک میں در آمد کنندگان کی موناپولی چاہتے ہیں اور پاکستان کو دوسروں کی مصنوعات کے لئے ایک زرخیز منڈی بنانا چاہتے ہیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ جو چیز درآمد ہو رہی ہے اس کو ملک میں بنانے کے لئے سہولت دی جائے پالیسی یہ ہو گئی کہ جو چیز تیار ہو رہی ہے اس کی تیاری کو بند کر کے وہی چیز باہر سے درآمد کی جائے۔

اور جب خود نجی شعبے میں بھی دھڑا دھڑ صنعتیں بند ہونے لگیں تو معیشت کے یہی ماہرین کہنے لگے کہ ملک بیرونی سرمایہ کاری سے ہی چل سکتا ہے۔ اور بیرونی سرمایہ کاروں کو جو وہ مانگیں سہولت دی جائے۔ اگر ملک میں نہ تو سرکاری شعبہ صنعتیں لگا رہا ہے اور نہ ہی نجی شعبہ صنعتیں لگا رہا ہے تو بیرونی سرمایہ کار کس طرح یہ فیصلہ کرے گا کہ اچھا جو کام آپ خود نہیں کر رہے وہ آپ کی جگہ ہم کر دیتے ہیں۔ اب ملک کے معاشی بحران کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ ہر چیز سر کے بل کھڑی کردی گئی ہے تاکہ درآمدات کرنے والوں کی چاندی ہوتی رہے۔ ہم کو معیشت کو اس کے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

جس وقت پی آئی ڈی سی کو نئی صنعتیں قائم کرنے سے روکا گیا اس وقت اس کے پاس ساٹھ سے زیادہ نئی صنعتوں کی فیزیبلٹی تیار تھی۔ اس کے پاس ایک انتہائی تربیت یافتہ اور تجربہ کار مینجمنٹ اور ٹیکنیکل افرادی قوت تھی۔ اس کے پاس ان صنعتوں کو لگانے کے لئے سرمایہ موجود تھا۔ میں تجویز دوں گا کہ PIDC کو دوبارہ اس کے ابتدائی چارٹر پر متحرک کیا جائے۔

ہم تھر کے منصوبے کے لئے جناب یوسف رضا گیلانی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے آئین کے مطابق بیس سال سے رکے ہوئے اس منصوبے کو صوبائی حکومت کے حوالے کیا۔ سرمایہ کاری کی پہل حکومت سندھ نے کی اور اپنے سرمائے سے 54 فیصد ایکوئٹی ڈالی۔ نجی شعبہ آگے آیا اور اس نے ایکوئٹی ڈالی۔ بینکوں نے لوکل اور بیرونی قرضے فراہم کیے۔ ہم نے تھر منصوبہ مقررہ مدت سے پانچ ماہ قبل مکمل کر لیا اور پورے 180 ملین ڈالر کی لاگت میں بچت کی۔ اب تھر میں mining اور بجلی کی پیداوار کے شعبے میں دوسرے ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ہماری سرکار اور ہمارا نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے گا تب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ہوگی۔ آپ ملک کے صنعتی شعبے میں ترقی کا آغاز بیرونی سرمایہ کاری سے نہیں کر سکتے۔

تھر میں کوئلے کے ذخائر سے کوئلے کی پیداوار دراصل سرمایہ کاری کا ایک نیا ماڈل پیش کرتی ہے۔ تھر کا کوئلہ درآمد شدہ نہیں ہے بلکہ ہمارے قدرتی وسائل کا ایک حصہ ہے جس کو ترقی دینے کا عزم اور اس کی پلاننگ حکومت نے کی ہے۔ اس پلان کے اندر حکومت اور نجی شعبے اور اسٹاک ایکس چینج کے ذریعے سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ منصوبے کو مقررہ وقت سے پانچ ماہ قبل مکمل کر کے 180 ملین ڈالر کی بچت کی گئی ہے۔ اور اب سب سے آخر میں بیرونی سرمایہ کار آ کر وہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے صنعتی شعبے کو ترقی دینے کے لئے، نئی صنعتیں قائم کرنے کے لئے نیز بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کے لئے یہ ایک قابل عمل ماڈل ہے جس پر سوچ بچار کے بعد ایک پانچ سالہ منصوبے کے تحت تیزی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے macro control اور پانچ سالہ پلان میں رہتے ہوئے نجی شعبے کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ وہ کھل کر ملک میں سرمایہ کاری کرسکیں۔

ابتدائی قدم کے طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ نجی شعبے کی جو بھی پراجیکٹس اپنا financial closure مکمل کر لیں اور جن میں پانچ سو سے زیادہ افراد کو روزگار مل رہا ہو ان کر اپنی پراجیکٹ لگانے کے لئے مطلوبہ زمین مفت دی جانی چاہیے تاکہ ان کا سرمایہ زمین کی خریداری کے بجائے بہتر سے بہتر مشینری خریدنے میں صرف ہو۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج نجی شعبے میں جو ہزاروں صنعتیں بند پڑی ہیں اور جن میں سرمایہ کاروں، بینکوں اور حصص رکھنے والوں کا اربوں کا سرمایہ پھنسا ہوا ہے۔ جن میں مہنگی زمین اور عمارات بے مصرف پڑی ہیں، جن کی مشینری زنگ کھا کھا کر ختم ہو چکی ہے ان کو دوبارہ چلانے یا

ان جگہوں پر نئی صنعتیں قائم کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئی قانون سازی کی جائے اور حکومت ان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے بجٹ میں مناسب رقومات مختص کرے۔

تعمیراتی اور رہائشی شعبہ

کنسٹرکشن انڈسٹری کے اہم شعبے میں کالا دھن سفید کرنے کی تمام تر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ بیس بیس اور پچیس پچیس منزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔ بنگلے اور محلات تعمیر کیے جا رہے ہیں لیکن قابل مذمت بات یہ ہے کہ جو مزدور ان محلات کی تعمیر کر رہے ہیں وہ ان عمارتوں کی تکمیل کے بعد ان میں قدم نہیں رکھ سکتے اور وہ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں یا فٹ پاتھوں پر رات کو سوتے ہیں۔ آج کے تیزی سے بیس منزلہ عمارتوں بنانے والے شہر کراچی میں کم از کم سوا کروڑ افراد کچی آبادیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اور خاص طور پر چین میں بہت بڑے پیمانے پر slum transformation پر کام ہوا ہے۔ سینیٹ کی CPEC کمیٹی نے خاص طور پر اپنے دورہ چین میں اس پروگرام کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔

سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی کچی آبادیوں کی زمین کی قیمت مقرر کی جاتی ہے اور پھر اس افقی سمت میں پھیلی ہوئی آبادی کو ایک بہترین رہائشی منصوبے میں 35 منزلہ عمودی عمارتوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ وہاں کے اصل رہنے والوں کو اپارٹمنٹ رعایتی قیمتوں پر دیے جاتے ہیں باقی اپارٹمنٹ مارکیٹ کی قیمتوں پر فروخت کیے جاتے ہیں جس میں ڈیویلپر اور سرکار دونوں پارٹنر ہوتے ہیں۔ صرف شہر کراچی میں اگر ہم کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو لے لیں تو ہمیں بائیس لاکھ اپارٹمنٹ یہاں کے رہنے والوں کے لئے تعمیر کرنے ہیں۔ مارکیٹ کے لئے تعمیر کیے جانے والے اپارٹمنٹ جو اس منصوبے کو سرکار اور نجی سرمایہ کاروں کے لئے انتہائی سود مند بناتے ہیں اس کے علاوہ ہیں۔

جناب چئیر مین معیشت کے ہر شعبے میں بے انتہا مواقع موجود ہیں۔ میں نے ایک دفعہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کہا تھا کہ فیصلے کرنے مشکل ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ فیصلے کرنے انتہائی آسان ہوتے ہیں۔ جو فیصلے بھی غریب کے مفاد میں ہوں وہی بہترین فیصلے ہوتے ہیں۔ آج ہر چینل پر مشکل فیصلوں کی گردان سن سن کر ہمارے عوام کے کان پک چکے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم کچھ آسان سے اور قابل عمل فیصلے کر لیں۔

PEACE WITHIN AND PEACE WITHOUT – JINNAH

جناب چیئرمین نو آبادیاتی طاقتیں جس جس بھی محکوم ملک سے واپس گئی ہیں وہاں انہوں نے ان ملکوں میں مسائل کو طے کر کے جانے کے بجائے ان میں سے بہت سے مسائل کو ادھورا چھوڑا ہے۔ برصغیر سے جاتے وقت برطانیہ نے کشمیر اور دریائی پانی کے معاملے کو طے کر کے جانے کے بجائے ادھورا چھوڑ دیا کہ اب تم دونوں ملک ان مسائل پر آپس میں لڑتے رہو۔ ان علاقائی جھگڑوں کی وجہ سے ہمارے دفاعی اخراجات بڑھے۔ دفاعی اخراجات بڑھنے کی وجہ سے جو مالی وسائل عوام کی خوشحالی پر خرچ کرنے تھے وہ دفاع پر خرچ ہونے لگے اور ناکافی وسائل کی وجہ سے ہمارا بجٹ خسارہ بڑھتا چلا گیا۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اندرون ملک اور باہر سے قرضے لینے پڑے۔ آج صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہماری debt servicing ہمارے دفاعی بجٹ سے ڈھائی گنا زیادہ تک پہنچ چکی ہے اور ہمیں ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کب ہمارا ملک ڈیفالٹ میں چلا جائے گا۔ اور اس ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر ہمیں غیروں کا دست نگر ہونا پڑتا ہے اور ان کی ہر شرط مان کر اپنے عوام پر مزید بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔

ایک دن میرے بابا نے بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو ہماری نسل انگریز کی غلام تھی اور غلام اور آقا کے تعلق کی وجہ سے وہ ہمارے وسائل اور ہماری افرادی طاقت کے محتاج تھے۔ ہم نے آزادی حاصل کی اس لئے کہ ہم برابر کی حیثیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن آج ہم ان کے محتاج بن چکے ہیں۔ آقا اور غلام کے رشتے کی جگہ اب ہمارا اور ان کا تعلق مولی اور موالی کا ہو گیا ہے۔ جب تک وہ ہماری جھولی میں کچھ نہ ڈالیں ہم اپنا ملک نہیں چلا سکتے۔ تم میں بھی وہ سرکاری افسر اور وہ سیاست دان کامیاب ترین سمجھا جاتا ہے جو باہر سے قرضہ یا امداد لا سکے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟

مسئلے کی بنیاد regional conflict ہے۔ ہمارے دونوں ملکوں کو اس conflict کو ختم کرنے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔ دریائی پانی کے معاملے پر وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے کامن ویلتھ کانفرنس میں جس میں جواہر لال موجود تھے ناقابل تردید دلائل پیش کیے تھے جو اس مسئلے کے جائز حل کی جانب ایک مضبوط قدم تھا۔ جواہر لال ان دونوں مسئلوں کو حل کرنے کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ ہندوستان کی خوش قسمتی کہ جب ورلڈ بینک نے پانی کے مسئلے کو طے کرنے کے لئے پیش رفت کی تو سہروردی معتوب تھے اور ملک میں ایک آمر کی حکومت تھی جو ورلڈ بینک کے پیش کردہ حل کو حرف آخر گردانتا تھا۔ ہمارے نقصان میں سہی لیکن پھر بھی معاہدہ ہوا جو گزشتہ ساٹھ سال سے اپنی جگہ موجود ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر جواہر لال نے شیخ عبداللہ کو رہا کر کے پاکستان بھیجا تھا اور یہاں ان کے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان کی ٹیم سے مذاکرات ہوئے تھے۔ افسوس کہ جس وقت شیخ عبداللہ مظفر آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے جا رہے تھے جواہر لال کی وفات کی خبر آئی اور شیخ صاحب کو مذاکرات کو نامکمل چھوڑ کر انڈیا واپس جانا پڑا۔

یہ سمجھنا کہ ہندوستان میں ہمیشہ مذہبی انتہا پسندوں ہی کی حکومت رہے گی خام خیالی ہے۔ ہندوستان کے عوام مذہبی انتہا پسندی کے بوجھ کو اور عالمی رائے عامہ انسانی حقوق کی کشمیر میں پامالی کو کب تک برداشت کریں گے۔ بی بی صاحبہ شہید کی ہدایت پر میں نے اور محترم سینیٹر نثار کھوڑو نے پاکستان کا دورہ کرنے والے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے وفد سے طویل مذاکرات کیے تھے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آ خر ان کی پارٹی نے کشمیر میں استصواب رائے کے اپنے اصولی موقف کو کیوں ترک کر دیا تو سیکریٹری جنرل محترم ہرکشن سنگھ سرجیت کا جواب تھا کہ کامریڈ ہم موقع پرستی کا شکار ہو گئے تھے اور ہم واپس جاکر پارٹی کے اندر بھرپور کوشش کریں گے کہ استصواب رائے

کے اصولی موقف پر ہماری پارٹی لوٹ آئے۔ ہرکشن سنگھ تھوڑے دن بعد وفات پا گئے۔ CPI اسی موقع پرستی کی پالیسی پر کاربند رہی اور انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کی موقع پسندی نے ان کی پارٹی کو کتنے بڑے نقصانات پہنچائے ہیں۔

ہندوستان میں ترقی پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو کہ کشمیر کے مسئلے کو حق خود اختیاری کی بنیاد پر حل کرنا چاہتی ہے۔ کشمیر پر میرے مضامین کول کتہ سے نکلنے والے جریدوں میں شائع ہوئے ہیں جس کی وہاں پر دل کھول کے ستائش کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا کمیشن گزشتہ چار سال سے اپنی سالانہ رپورٹ میں استصواب رائے کو مسئلہ کشمیر کا اکیلا حل بتا رہا ہے۔ کشمیر میں حالیہ انسانی حقوق کی پامالی اور آئینی ترمیمات کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی ہے۔ ہمیں محض روٹھ کر نہیں بیٹھنا ہے۔ ہمیں عالمی رائے عامہ کی جانب سے مذمت کو وہاں تک لے جانا ہے جہاں بھارت اس مسئلے کے جائز حل کے لئے مجبور ہو جائے۔ ہمیں بھارت میں رہنے والے انصاف پسند اور ترقی پسند عناصر سے بامعنی مذاکرات کرنے ہیں تاکہ بھارت کے اندر سے کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف اور کشمیریوں کی رائے سے کشمیر کا فیصلہ کرنے کے حق میں اور زیادہ توانا آوازیں بلند کی جائیں۔

جناب عالی اندرونی دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب ہم بنگلہ دیش کی ترقی کا ذکر کرتے ہیں تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم گزشتہ چالیس سال سے اندرون ملک جنگی حالت میں ہیں اور بنگلہ دیش کسی سے جنگ نہیں کرتا اور اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر پوری توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ان دہشت گرد گروہوں میں تمام افرادی طاقت محروم اور بے روزگار طبقے سے آ رہی ہے۔ 80000 پاکستانیوں کی جانیں جانے کے بعد کم از کم یہ بین حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے آ جانی چاہیے۔

ملکی پیداوار بڑھے گی اور پیداواری لاگت کم ہو گی تب ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہر شعبے میں ملکی پیداوار میں اضافہ ہو گا تب ہی مہنگائی کنٹرول میں آئے گی۔ سرمایہ گردش میں آئے گا تب ہی ملکی مارکیٹ اوپر اٹھے گا اور بغیر ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ کے ملکی ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ ہمارے بجٹ میں مجبوریوں کا ذکر بار بار کیا گیا ہے اور یہ رقت آمیز ذکر ماضی کی ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ لیکن میرا جی چاہتا تھا کہ مستقبل کی تعمیر کے لئے بھی کچھ منصوبوں کا اعلان اس بجٹ میں شامل ہوتا اور اس کے لئے بھی کچھ وسائل مختص کیے جاتے۔ لیکن میری تلاش افسوس ہے کہ لاحاصل رہی ہے۔

آئیے اپنے فکر و عمل کو آزاد کر کے وہ فیصلے کریں جو ملک سے غربت، جہالت اور بیماری کا خاتمہ کرنے کی جانب ہماری معیشت کو لے جائیں۔ مستقبل انتہائی روشن ہے۔ اگر ایک نو آزاد ملک کو جس میں ملازمین کی تنخواہ کے پیسے تک نہ ہوں اور ایک ایسے ملک کو جو بدترین شکست کے بعد ٹوٹ چکا ہو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے تو آخر ہمارے سامنے کیا رکاوٹ ہے۔

sky Sir, is not the limit

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
رہ آسماں نوردن بہ ستارہ راز کردن۔

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود۔
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments