پی ڈی ایم نے تحریک انصاف میں نئی جان ڈال دی۔۔۔


سال 2018 میں بننے والی پی ٹی آئی کی حکومت اپنی ناقص منصوبہ بندی اور انتظامی فقدان کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی بحران اور معاشی ابتری کے بوجھ تلے خو دہی دبی جا رہی تھی۔ تحریک انصاف سے منسلک بہت سے صاحبِ شعور شہری حکومت پر تنقید کرنے لگے تھے۔ پرائے پنچھی نئے گھونسلوں کی تلاش میں تھے۔ طاقت کا مبینہ مرکز مسلسل انگلی اٹھنے پر بدظن ہو چکا تھا۔ وہ اپنا وزن برقرار رکھنے کیلئے کسی قابل اعتماد پلڑے کی تلاش میں تھا۔ ایسے میں پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم اتحاد نے اسے اپنا سہارا دیا اور ڈوبتے ہوئے تنکے میں پھر سے زندگی کی رمق دوڑ گئی۔

عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سازش ہوئی۔ کہاں ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ ان سوالوں سے قطع نظرعمران حکومت کا بے وقت جانا کس کے لئے فائدہ مند رہا؟ پی ٹی آئی کی کارکردگی سے یہ واضح ہو چکا تھا کہ اس کے اقتدار کے ایوانوں تک دوبارہ پہنچنے کے تمام راستے معدوم ہوچکے ہیں۔ ایسے میں تحریک عدم اعتماد والی ڈیڑھ سیانی حرکت سمجھ سے باہر تھی۔

مشہور پرانی کہاوت ”آ بیل مجھے مار“ کی سمجھ اس سے قبل اتنی نہ آئی تھی جتنی اب آئی۔ اب تو بیل اور بیل کے سینگوں میں سر دینے والا آمنے سامنے نظر آئے اور پھر وہی ہوا، جو ہونا تھا۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد سے گھر تو چلے گئے لیکن ان کے زور آور بیانیے نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔

پاکستان کی انتخابی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہاں ہمیشہ سے بیانیے کی ہی جیت ہوتی آئی ہے۔ پیپلزپارٹی ہو یا سندھ اور خیبرپختونخوا کی قوم پرست جماعتیں۔ ان سب کو بیانیے کی سیاست نے ہی زندگی بخشی۔ مسلم لیگ ن کا طرزِ سیاست کچھ مختلف رہا۔ آئی جے آئی سے لے کر اب تک یہ الیکشن مینج کر کے ہی اقتدار میں آتی رہی ہے۔ پہلی بار پارٹی کے تاحیات قائد میاں نوازشریف نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تشکیل دیا تو اس جماعت کے متعلق عوامی ہونے کا ہلکا سا تاثر ابھرا۔ لیکن تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی شہباز حکومت نے جلد ہی اس تاثر کو زائل کر دیا۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک کوڈیفالٹ سے بچانے کا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش لیکن اس لئے ناکام رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی کے خلاف مارچ میں بھی ڈیفالٹ کی بات نہ سنی تھی نہ ہی کسی ملکی یاغیرملکی معاشی ماہر نے ایسے کسی خدشے کا اظہارکیا تھا۔ سیاست کی بجائے ریاست بچانے کا بیانیہ بھی ٹی وی ٹاک شوز تک محدود رہا، پذیرائی نہ پا سکا۔

دوسری طرف عمران خان اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا۔ بیانیہ تشکیل دینے اور اسے گھر گھر پہنچانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ انہوں نے امریکی غلامی اور امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ ہر اس جگہ پہنچایا جہاں پہنچنا چاہئے تھا۔

اس کا نتیجہ پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سامنے آگیا۔ گو کہ پی ٹی آئی اپنی کھوئی ہوئی 20 نشستوں میں سے 15 ہی حاصل کر سکی لیکن اس سے پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی مرکزی و صوبائی حکومتوں پر عوام کی طرف سے عدم اعتماد ہو گیا۔ اس کا اثر آئندہ عام انتخابات کے دوران نا صرف مرکز بلکہ صوبوں پر بھی ہوگا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پنجاب کے ان نتائج کا اثر پیپلزپارٹی پر نہیں ہو گا تو اسے آئندہ عام انتخابات کی بجائے مرحوم عامرلیاقت کی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن سے ہی اندازہ ہوجائے گا۔

مجھے تو آئندہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی سندھ میں ایسی ہی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے جیسی تحریک انصاف کی 2018 میں مرکز میں بنی۔ مطلب حکومت تو ہوگی لیکن ایسی حکومت جو ہر فیصلے میں اپنے اتحادیوں کو راضی کرتی نظر آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments