انسان کی تعمیر ہر تعمیر سے پہلے ہے!


چند دن پہلے کسی عربی پیج پر ایک اقتباس نظر سے گزرا جو حکمت کے شہد میں ڈوبا ہوا محسوس ہوا۔

اقتباس کو نقل کرنے والے نے اسے مصر کے معروف طبیب اور ادیب مصطفی محمود کی کتاب (القراءة للمستقبل) یعنی ریڈنگ فار دی فیوچر کی طرف منسوب کیا تھا۔ یہ ڈاکٹر مصطفیٰ محمود کی لکھی ہوئی تقریباً ایک سو پانچ صفحات پر مشتمل کتاب ہے جو پہلی بار 1997 ء میں شائع ہوئی تھی، اس کتاب میں مصنف نے نوے کی دہائی اور اس کے بعد کے دور پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مستقبل قریب کے لیے سیاسی معاملات کی پیشن گوئی اور مصر میں سیکولر اسلامی سیاسی دھاروں کے بارے میں بات کی ہے۔

یہ کتاب جہاں، بامقصد آراء اور عقلی تنقید سے مالا مال ہے، وہاں اس میں سوشلزم پر سخت حملے بھی کیے گئے ہیں، جسے مصنف مرحوم ہر مصیبت کی جڑ کے طور پر دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر مصطفی محمود کی بعض کتابیں چونکہ بہت مختصر، مگر انتہائی دلچسپ ہیں، اس لیے جو اقتباس میں نقل کرنے جا رہا ہوں اس کی خاطر میں نے پوری کتاب پڑھ ڈالی لیکن مجھے انٹرنیٹ پر موجود نسخہ میں یہ اقتباس نہیں ملا۔ ممکن ہے کسی دوسری ایڈیشن، یا پھر ان کی کسی اور کتاب میں موجود ہو۔

بہرحال! اقتباس یہ ہے کہ ”جب قدیم چینیوں نے پرامن طور پر رہنے کا خواب دیکھا تو انہوں نے چین کی عظیم دیوار، دیوار چین بنائی، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کی زبردست اونچائی کی وجہ سے کوئی بھی اس پر چڑھ نہیں سکے گا، لیکن دیوار چین کی تعمیر کے بعد پہلے سو سال ہی میں چین پر تین بار حملہ کیا گیا! اور عجیب بات یہ ہے کہ ہر بار دشمن کے لشکروں کو دیوار کے توڑنے یا پھلانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، بلکہ ہر بار دشمن نے گارڈ کو رشوت دی، گارڈ نے دروازہ کھولا اور وہ آرام سے کھلے دروازہ سے اندر داخل ہوئے۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ چینی باڑ بنانے اور دیوار تعمیر کرنے میں تو کامیاب ہو گئے مگر اس دوران وہ چوکیدار کی تعمیر کو بھول گئے! حالانکہ، ہر چیز کی تعمیر سے پہلے انسان کی تعمیر ضروری ہے۔ کسی مستشرق نے کیا خوب لکھا ہے کہ: اگر تم کسی قوم کی تہذیب کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو اس کے تین طریقے ہیں : 1 / اس کے خاندان کو تباہ کرو۔ 2 / تعلیم اور نظام تعلیم کو برباد کرو۔ 3 / اس کے رول ماڈل اور اصل مآخذ پر سے ان کا اعتماد ختم کردو۔ خاندان کو تباہ کرنے کے لیے آپ کو انہیں (ماں ) کے کردار سے محروم کرنا پڑے گا، اور اس کا طریقہ یہ کہ ماں کو ایسا گمراہ کرو کہ وہ“ گھریلو خاتون ”کے طور پر اپنا تعارف کرتے ہوئے شرم محسوس کرے۔

تعلیم کو تباہ کرنے کے لیے آپ کو استاد کے اوپر وار کرنا ہو گا، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے مقام و مرتبہ کو معاشرے میں اتنا گھٹاؤ کہ اس کے اپنے ہی شاگرد اسے حقیر سمجھنے لگ جائیں۔

رول ماڈلز کے گرانے کے لیے آپ کو وہاں کے (علماء) پر حملہ کرنا ہو گا، ان کے مقام و مرتبے کو گھٹانا ہو گا، ان کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے ہوں گے تاکہ نہ کوئی ان کو اہمیت دے، نہ بات سنے اور نہ ہی ان کی پیروی کرے۔ پس جب تربیت کرنے والی باشعور ماں بیچ میں سے غائب ہو جائے گی، بچوں کو آگہی اور شعور دینے والا وفادار استاد کا وجود نہیں رہے گا، رول ماڈلز، اصل مصادر، مقتدا اور پیشواؤں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا تو پھر نئی نسل کو اعلی اقدار اور پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پروان کون چھڑائے گا؟ اور یوں آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ”

اگر غور کیا جائے تو یہ قدیم چینی تجربہ ہماری حکومت کے طرز عمل کے ساتھ زبردست مماثلت رکھتا ہے۔ ہم ہر سال دفاع، فلم انڈسٹری، تفریح، پرتعیش سامان درآمد کرنے اور دیگر بہت سی فضولیات ​​پر بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں لیکن ہر اس چیز کے بارے میں رجعت پسند بن کر کنجوسی سے کام لیتے ہیں جو تعلیم، صحت، ثقافت، تحفظ اور شخصی تعمیر کے حوالے سے معاون اور معاشرے میں تخلیقی فکر کے ماحول کو پیدا کرتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ہماری سیکورٹی کا مسئلہ نت نئی ہتھیار خریدنے، حفاظتی باڑ بنانے اور بلند و بالا دیواریں تعمیر کرنے سے زیادہ چوکیدار کی تعمیر سے حل ہو سکتا ہے۔

چنانچہ سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمیں ایسے چوکیداروں کی ضرورت ہے کہ جو اپنے حلف کے مطابق ملک کے وفادار اور ملکی آئین کے پاسدار ہوں، جنہیں سیاسی ایوانوں کی راہداریوں میں گھومنے سے زیادہ سرحدوں کی حفاظت عزیز ہو، جو اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات پر ملکی اور قومی مفاد کو ترجیح دینے والے ہوں۔ وطن عزیز کو اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم سے بھی زیادہ ایسے سپہ سالار کی ضرورت ہے جو اپنے ماتحت فوج کے نوجوانوں کو کرائے کی فوج کی طرح استعمال کرنے والا نہ ہو۔ ‏‎ انصاف کی بالادستی کے لیے ایسے ججوں کی ضرورت ہے جو خود، خدا کے انصاف سے ڈرنے والے ہوں، جن کے ہاں قانون سب کے لیے برابر ہو اور جو امیر و غریب دونوں کو یکساں انصاف فراہم کرنے والے ہوں۔

نئی نسل کی شخصی تعمیر کے لیے ایسی ماں کی ضرورت ہے جو خود کو گھریلو خاتون کہلائے جانے پر شرمائے نہیں، بلکہ فخر محسوس کرے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، اس لیے ہمارے گھروں میں ایسی ماؤں کا ہونا ضروری ہے جو انسانیت کی بقاء کی خاطر اپنے بچوں کی بہترین شخصیت سازی کریں، تاکہ وہ بڑے ہو کر کامیاب معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ نرسری، اسکول، مدرسہ اور یونیورسٹی میں ایک پیشہ ور، پڑھے لکھے، قابل احترام، اور ماہر استاد کی ضرورت ہے جو اپنی باوقار زندگی سے خود مطمئن ہو اور کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہ ہو تاکہ وہ طلباء کو بیک وقت تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے انہیں اس قابل بنا سکے کہ جو آگے چل کر مستقبل میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔

خوب یاد رکھیں! جس ملک میں عوام کی بحیثیت مجموعی اخلاقیات بگڑ جائیں، افراد بگڑے ہوئے ہوں، سرحدوں کے محافظ سیاست دان بن جائیں، معاشرتی رسم و رواج کی بگاڑ اور بری قدروں نے اسلام کی معاشرتی قدروں کو کھوکھلا کر دیا ہو، جہاں چور لوگ ہر شعبے میں موجود ہوں، نظام انصاف سے کوئی بھی مظلوم مطمئن نہ ہو، اور جہاں افراد کی وابستگی مذہب کے ساتھ عملی نہیں، صرف جذباتی رہ گئی ہو، اس ملک کو تباہی اور بربادی سے ایٹم بم بچا سکتا ہے، نہ کسی قسم کی باڑ اور نہ ہی کوئی آہنی دیوار۔

خلاصہ یہ کہ جب تک ہم انسان کی کردار سازی اور اس کی شخصی تعمیر پر توجہ نہیں دیں گے تب تک ہم انحطاط کا شکار رہیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments