تحریر نہ لکھ پانے کی تصویر کشی !


یہ اوکاڑہ کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ الفاظ کی محبت یہاں بار بار لے آتی ہے کہ یہاں موجود بک شاپ اپنے اندر، نہ جانے کیوں بے حد کشش رکھتی ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ گھر اور اس کے درمیان کا کم فاصلہ بھی ہو۔ آج بھی الفاظ کے حوالے سے مختلف سوالات اور ان سے پیدا ہونے والا تجسس یہاں لے آیا ہے۔ یہ سوالات کیا ہیں اور کیوں ہیں، آئیں اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

خالی کاغذ پر حروف کیسے ابھر آتے ہیں۔ یہ حروف یکجا ہو کر مختلف الفاظ کی شکل میں کیسے ڈھلتے ہیں۔ پھر ان الفاظ سے جملے کیوں کر جنم لیتے ہیں، اور بالآخر ایک مکمل تحریر کس طرح وجود میں آتی ہے۔

یہ سوالات، مسلسل تعاقب کے باوجود، معمے کی صورت، حل نہ ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ گھر میں آنے والے رسائل و جرائد کی بھر مار بھی، ان سوالات کو زندہ رکھنے میں پوری توانائی کے ساتھ معاون تھی کہ جب مہینے کے آغاز پر بچوں کے لئے خصوصی طور پر شائع ہونے والے میگزین کی یکے بعد دیگرے آمد شروع ہوتی تو ہر نیا جریدہ، اپنے ساتھ نئے سرے سے ان سوالات کو سامنے لے آتا کہ یہ لکھنے والے، جو کچھ لکھتے ہیں، آخر وہ، یہ سب، کیسے لکھتے ہیں۔ جواب ملنے میں ناکامی ان، ان دیکھے لکھاریوں سے بلا سبب رقابت پر اکساتی اور اس ہنر سے عدم واقفیت اور محرومی، دل ہی دل میں غصے اور جھنجھلاہٹ میں پہلے سے زیادہ شدت پیدا کر دیتی۔

اجنبیوں تک معاملہ رہتا تو شاید وقت کے ساتھ ساتھ، ان سوالات کے جواب حاصل کیے بغیر، یہ جذبہ کب کا دم توڑ دیتا اور ان رسالوں سے تعلق صرف ( اوراق پلٹنے یا ) پڑھنے تک کا ہی رہ جاتا۔ یہاں صورت حال کچھ اور تھی جس نے اس کم مائیگی کو کم نہ ہونے دیا اور دن بہ دن اس صلاحیت سے دوری، غم و غصے کے قریب رہنے کی وجہ بنتی رہی۔ غصہ ( اور تلملاہٹ ) اس بات کی تو تھی ہی کہ یہ قلم کاری، ادھر کیوں کر ممکن نہیں، اور دنیا بھر میں، اتنی خلقت، اتنی آسانی سے، اتنی بڑی بڑی تحاریر، اتنے تواتر کے ساتھ، آئے دن سوچنے، لکھنے ( اور مشتہر کرنے ) پر کیسے قادر ہے۔

جلتی پر تیل کا کام، ان تحریروں نے کیا جو کسی اور نے نہیں، ایک ہی چاردیواری میں رہنے والے اپنوں کا کارنامہ تھا۔ ایسا لگا جیسے اسی موقع کے لئے کسی نے کہا ہو گا کہ جب کمیں گاہ کی طرف دیکھا، تو اپنے ہی بھائیوں سے ملاقات ہو گئی۔ یہ نشتر ان تحریروں کی صورت میں تھے جن سے نظریں چرانا کسی طرح ممکن نہ تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی تحریریں اس چیلنج کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب تھیں۔ اس سلسلے کی شائع ہونے والی ہر تحریر دل پر کچوکے لگاتی کہ اس پر کوئی دوسرا نام کیوں درج ہے، وہ نام کیوں نہیں جسے دیکھنے کی آرزو، دن بہ دن، حسرت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

یہ چیلنج، وقت کے ساتھ ساتھ، بتدریج اپنے حجم اور شدت میں اضافہ کرتا رہا اور، رشک، غیر محسوس طور پر، حسد کی سرحد تک آ پہنچا۔ اخبارات اور جرائد کی ہر نئی اشاعت، یوں محسوس ہوتا جیسے صرف اور صرف نئے زخم لگانے کا ذریعہ ہو اور ان میں وہ نام خاص طور پر تشویش کو، اس کے بلند تر درجے تک لے جاتے، جن کا لاحقہ اور سابقہ، تینوں میں گہری مماثلت کا حامل تھا۔ ایسے میں وہی تڑپ، یہاں عروج پہ ہوتی کہ ان کے درمیان موجود شناختی اسم ویسا کیوں نہیں، جیسا دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئی ہیں۔

دوسری، اور بہت سی تحاریر کے علاوہ، ماہنامہ چاند میں ایک بھائی کے تحریر کردہ ”سیاسی ابجد“ اور روزنامہ امروز کے بچوں کے ایڈیشن میں ستلج ہائی اسکول اوکاڑہ کے ہیڈ ماسٹر قاضی عبدالحکیم کے حوالے سے، دوسرے بھائی کے تحریر کردہ ”اوکاڑہ کے سر سید“ کی اشاعت اور احباب میں ان کی مقبولیت اور دوستوں میں ان کے تعریفی تذکرے، زخم پر مزید نمک چھڑکنے کے مترادف تھے۔ اس ہولناک احساس سے دل ڈوبنے لگتا کہ قلم کاروں کی یہ صف، شاید اوروں کے لئے ہی وقف ہے ( اور رہے گی ) ۔

پھر ایک اور قیامت یہ گزری کہ ان دونوں کی رفاقت میں، ہاتھوں کی خوش خط تحریر سے مزین آٹھ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ گھر میں مرتب کیا جانے لگا جس کی سرکولیشن محض قرب و جوار کے دوستوں اور شناساؤں تک محدود ہوتی تھی اور وہ بھی اس شرط پر کہ پڑھنے کے بعد ، پڑھنے والا، لازما ”رسالہ واپس کرے گا کہ یہی اس کی واحد، اکلوتی، اوریجنل کاپی ہے۔ گلدستہ کے نام سے منسوب ہونے والے، اس رسالے میں دوسرے جرائد سے منتخب کی گئی تخلیقات کے علاوہ ان دونوں کی اپنی تحاریر بھی مسلسل شامل ہوتی تھیں،

جو مرے کو مارے سو درے کی کیفیت نمایاں کرنے کے لئے کافی ہوتیں۔

یہ الگ بات کہ یہ گھریلو رسالہ، اے بی سی سے رجسٹرڈ نہ پونے اور صحافت کی اے بی سی سے نابلد ناشرین کے باوجود، ہم عمر پڑھنے والوں کی پسندیدگی اور پذیرائی سے ہمکنار ہوا اور عمررسیدہ لوگوں نے، جنہیں بھی اس کی گھریلو اشاعت کی اطلاع ملی، اس انوکھی تخلیقی کوشش کو سراہا مگر یہ مثبت کوشش بھی یہاں منفی محسوس ہوئی کہ اس میں بھی رسالے کے قاری بننے کے سوا، کوئی اور کردار ممکن نہ تھا کیوں کہ لکھنے کی صلاحیت ( اور شرط ) ، منطقی طور پر، بنا کہے، یہاں بھی لاگو تھی جس سے تمام تر خواہش کے، تاحال، تعلقات استوار ہونے کے دور دور آثار نہ تھے۔

اب اس ساری صورت حال کا واحد حل یہ نظر آیا کہ خواہش اور آرزو کے حصار سے نکل کر، عمل کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ عمل یہ کہ کوئی ایسا نسخہ ہاتھ لگے جو منجمد قلم ( اور ذہن ) کو متحرک کردے اور اس کے نتیجے میں خالی صفحات پر الفاظ جگنو کی طرح جگمگا نے لگیں۔ اس کام میں کسی کتاب سے بہتر معاون اور مددگار، اور کون سی چیز ہو سکتی ہے۔ پھر شہر کا ریلوے اسٹیشن بھی کون سا دور ہے۔ سو، اس وقت آزمودہ دکان اور دیکھے بھالے دکاندار، دونوں بالمقابل ہیں۔

سوال کے جواب میں مسکراہٹ کے ساتھ ایک کتاب آگے بڑھائی گئی۔ سرسری ورق گردانی پر ہی منزل، قریب تر دکھائی دینے لگی۔ کالم نویسی، مضمون نویسی، اداریہ نویسی، سبھی کچھ تو اس میں موجود ہے۔ مگر افسوس کہ کام کے یہ موضوعات اپنی جگہ، وہ منزل جو ورق پلٹتے، بہت قریب دکھائی دے رہی تھی، کتاب کی قیمت کا جان کر اوجھل سی ہونے لگی کیوں کہ ساتویں جماعت کے طالب علم کے لئے، بتائی گئی قیمت بساط سے کہیں زیادہ تھی۔ کتاب ادب اور اداسی کے ساتھ واپس کی گئی اور تحریر سے ربط رکھنے کا جذبہ اس لمحے مکمل طور پر مدھم ہوتا دکھائی دیا۔

مگر، یہ، تجسس کی اس کہانی کا شاید، انجام نہیں تھا۔

درحقیقت، یہ تب کی بات ہے جب، قانون کشش ( law of attraction ) کا کہیں چرچا نہیں تھا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے اسی طرح سرگرم عمل رہا ہے۔ برسہا برس بعد حیرانی سی حیرانی تھی کہ وہ ہی کتاب جس کی طرف ساتویں جماعت میں طبیعت مائل ہوئی، بی اے آنرز / ایم اے ( صحافت ) کے کورس میں شامل تھی۔ ( یہ کتاب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی تحریر کردہ کتاب فن صحافت تھی! )

اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ قلم اور کاغذ سے رشتہ، تاخیر سے سہی، بہر طور استوار ہوا، کس سطح کا ہوا، اس بارے میں کچھ نہ کہنا ہی اس پر دانش مندانہ بلکہ حقیقت پسندانہ تبصرہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments