جمہوری بادشاہتیں یا بادشاہی جمہوریتیں


ویسے تو جمہوریت اور بادشاہت کا دور دور تک ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ یا ترکیب ہی سرے سے غلط ہے۔ لیکن وقت اور حالات کی تبدیلیوں کا کیا کریں۔ سیاست اور وراثت سے کیسے نمٹا جائے جو چلتی ہی ساتھ ساتھ ہیں۔ بادشاہت کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی ہی جمہوریت کے تانے بانے طویل تر ہیں۔ لیکن پھر بھی جمہوریت بادشاہت کی نئی شکل یا بادشاہت کی روایت کی جدت ہے۔

لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی بنی نوع انسان نے اپنے لئے اصول وضع کیے ہیں۔ سب سے پہلے ان ہی نے اس سے روگردانی کی ہے۔ یہی حضرت انسان ہے جو اپنے ہی بنائے ہوئے پیمانوں سے باغی ہوا ہے۔ ویسے بھی انسان دعوے، حق ملکیت اور پاور شیئرنگ کے معاملے میں کمزور اور متنازعہ رہا ہے۔ خوا وہ زمین کی ہو، دولت کی ہو یا پھر وہ حکومت یا اقتدار سے متعلق ہو۔

تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی بادشاہتیں اور سلطنتیں زمین بوس ہو چکی ہیں یا جمہوریت میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اور مقبول عام جمہوریتیں بادشاہتوں اور آمریتوں میں بدل چکی ہیں یا پھر لبادہ اوڑھ چکی ہیں۔

اس اکیسویں صدی میں بھی بادشاہ اور بادشاہتیں موجود ہیں۔ لیکن جہاں جہاں خالصتاً جمہوریت وجود رکھتی ہے۔ ادھر اگر طرز حکمرانی بادشاہت کی نہیں بھی ہے پر زمام اقتدار تک رسائی کے لئے خاندانی پس منظر اور بادشاہی اطوار کو ضرور آزماتے یا تجربہ کرتے ہیں اور کیا کرتے آرہے ہیں۔

بادشاہت میں ریاست یا ریاست کے امور وراثتی انداز میں پہلے اپنائے پھر لائے جاتے ہیں۔ اور جمہوری طرز عمل میں جمہور کے فیصلوں سے ریاست اور حکومت پہلے اپنائی اور پھر چلائی جاتی ہے۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بڑی بڑی جمہوریتوں میں پارٹی سیاست میں جمہوریت کے نام پر آمریت اور وراثت چلتی آ رہی ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنی پارٹی بناتا ہے یا ایک بار اقتدار تک جمہوریت کے بل بوتے پر پہنچ جاتا ہے تو پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعد بچوں میں سے کسی کو اپنا جانشین لائے اور باہر سے پارٹی میں وہ جمہوری طریقے سے اپنے بچوں کی پینیٹریشن کراتا ہے لیکن پارٹی کے اندر ان کا رعب، دبدبہ اور لابی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ کسی کو جراءت نہیں ہوتی کہ جو وہ چاہتا ہے کوئی ان سے اختلاف کرے پھر بادل ناخواستہ وہ ینگ مین یا ینگ لیڈی سب تجربہ کار اور سینئیر کار کنوں سے ٹاپ پر آ جاتے ہیں اور وہ پھر ان کے پیچھے پیچھے یا عوام کے ساتھ نیچے ان کے ہر فرمان پر آمنا و صدقنا اور ان کے ہر بول پر تالیاں بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پارٹیوں کے اندر بادشاہتیں ہیں اور جمہوریت کے نام پر تمام حلقے چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں کا سماع پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ مجال ہے کہ اس حلقے میں کوئی خالصتاً جمہوری بنیادوں پر آئے اور اگر آ بھی جائے تو وہ جیے گا کیسے اور جیتے گا کیسے؟

عوام کے ساتھ ساتھ امید واروں کو ڈرایا، دھمکیاں، خریدا اور اغوا کیا جاتا ہے حتی ’کہ جیت سے پہلے یا جیت کے بعد مروا بھی دیے جاتے ہیں۔

الیکشن کے نام پر سلیکشن اور ووٹ کے نام پر دھاندلی ہوتی رہتی ہے۔ جمہوریت کے راستے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے ایک دوسرے کی اکثریت کو قبول ہی نہیں کرتے۔ اور بادشاہوں کی طرح اقتدار کی رسہ کشیوں میں الجھتے رہتے ہیں۔ ایک بار اقتدار کا نشہ یا چسکا جب لگ جائے تو بہت مشکلوں سے اقتدار کی منتقلی پر موصوف راضی ہوتا ہے۔

اگر جمہوریت ہی میں وراثت چلانی ہے تو پھر تو اس سے بادشاہت اچھی تھی کم ازکم وہ بادشاہ تو تھے بقول شخصے کوئی ایرے غیرے نتھو خیرے تو نہیں تھے۔

بادشاہت میں بھی اپنے حسب نسب کو پہچان اور فخر کے لئے پیش کیا جاتا ہے اور آج کل سیاسی وراثت کو بھی اپنی پہچان اور سیاسی قد کاٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کے خدمات پارٹی میں وقت اور پارٹی کی وفاداری کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ایک ہی اختلافی نقطے پر ان کو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے جو بادشاہت کی ایک زندہ مثال سمجھی جا سکتی ہے اور ایسا ہوتا رہا ہے۔

اب اگر جمہوریت میں ہی خاندانی سیاست اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے تو پھر ”غیر خاندانی“ لوگ کیا کریں وہ اپنے حسب نسب پر فخر کریں یا پھر اپنے پارٹی ورکرز ہونے پر اونچا سری کو شیوا بنائیں یا پھر اپنی قربانیوں کو ثبوت کے طور پر پیش کریں یا پھر پارٹی میں وقت دینے کو دلیل کے طور پر آزمائے یا پھر ورکر ہی رہیں۔ اور بڑے بڑے ناموں والے، بڑے بڑے خاندانوں والے، دوسرے پارٹیوں سے منحرف لوگوں کی دراندازی اور پارٹی لیڈران کے بچوں کی وراثتی آمد پر تالیاں بجاتے رہیں اور ان کے لئے جلسے جلوسوں یا الیکشن کیمپین کی مشقت میں بوڑھے ہوتے رہیں۔

لیکن پھر ان سب باتوں کے باوجود یا خامیوں کو مد نظر رکھ کر ایک ہی جملہ جمہوریت کے حق میں یا ہم جیسے جمہوریت کے حامیوں کے لئے کافی ہوتا ہے کہ بد سے بد تر یا بد تر سے بدترین جمہوریت بادشاہت یا آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments