جہیز میں دینے والی پاکیزہ کتابیں


سنو برخوردار، ’عورت، جنس کے آئنے میں‘ اور ’مرد، جنس کے آئنے میں‘ میری ہی کتابیں ہیں ”

اور یہ بھی جان لو کہ وہ فحش یا گندی کتابیں قطعی نہیں، بلکہ بہت پاکیزہ کتابیں ہیں، اتنی صاف ستھری کہ کوئی بھی باپ بلا جھجک انہیں اپنی بیٹی کو جہیز میں دے سکتا ہے۔ ہم میں خرابی یہ ہے کہ جانے بغیر، پڑھے بغیر نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔ سرورق پر ”جنس“ کا لفظ پڑھا نہیں کہ اس بے چاری کتاب کو ”شجر ممنوعہ“ قرار دے دیا، ۔ یار، پڑھ کر تو دیکھو وہ کوئی ایسی ویسی کتابیں نہیں بلکہ انسانی نفسیات پر انتہائی معلومات افزا سائنسی کتابیں ہیں، ستم کی بات یہ ہے کہ لفظ جنس ”کے ساتھ ہمارے معاشرے نے محض فحاشی کا تصور جوڑ کر اسے حرام قرار دے رکھا ہے۔ منٹو جیسے انسانی نفسیات سمجھنے والے فن کار پر مقدمات چلاتے ہیں اور معاشرے کو ذہنی اور معاشی طور پر مفلوج کرنے والے عناصر کو مسندوں پر بٹھاتے ہیں۔ یہ کہاں کا صحت مند رویہ ہے؟“

استاد محترم پروفیسر سلیم اختر کہہ رہے تھے اور سامنے ششدر کھڑا تھا میں، ایف اے کے سال اول کا طالب علم، جو ابھی ابھی مزنگ کے ایک چھوٹے سے سکول سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تھا۔ اس روز اردو لازمی کی تعارفی کلاس تھی اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے پروفیسر صاحب نے اپنی تخلیقی اور تنقیدی دلچسپیوں کا بھی ذکر کیا اور کتاب ’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ کا حوالہ بھی دیا۔ اس پر میں نے جانے کیسے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ پرانی انارکلی کے ایک بک سٹال پر کچھ ”اور طرح“ کی کتابیں بھی کسی سلیم اختر صاحب کے نام سے بکتی ہیں، وہ صاحب کون ہیں؟

کہنے لگے : ”کون سی کتابیں؟ نام بتاؤ تو پتہ چلے“ ۔ میں نے جھجکتے جھجکتے کہا: ”عورت:جنس کے آئنے میں“ اور ”مرد: جنس کے آئنے میں۔“ فوراً بولے : ”اچھا اچھا وہ کتابیں، بھئی وہ بھی میری ہی تصنیفات ہیں“ اور پھر اوپر درج سارا لیکچر دیا۔ پھر پوچھنے لگے : ”مجھے سچ سچ بتاؤ کیا تم نے ان میں سے کوئی کتاب پڑھی ہے؟“ ۔ میں نے کہا: ”جی نہیں، میں نے کہا نا کہ وہ تو پرانی انارکلی کے ایک بک سٹال پر پڑی دیکھی تھیں“ ۔ بولے : ”وہاں دیکھیں اور بس اندازہ کر لیا کہ ضرور“ مخرب اخلاق ”قسم کی کتابیں ہیں۔ ہے نا۔“ اور پھر انہوں نے ان کتابوں کے موضوع اور ان کی علمی افادیت والی ساری باتیں کی تھیں۔ اور پھر ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے پروفیسرز رومز کی طرف بڑھ گئے اور میں وہیں سرخ کاریڈور میں کھڑا سوچتا رہ گیا۔

کہاں سکول کا ماحول، ماسٹر صاحبان، ادب آداب، لگے بندھے موضوعات اور ہمارا محدود سا وژن اور کہاں یہ فکری وسعت کی دعوت دیتی گفتگو! اور پھر وہ ضیا الحق صاحب کا دور تھا۔ بظاہر معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی سعی ہو رہی تھی۔ مجلس شوریٰ، شرعی عدالتیں، ، اسلامی بنکاری، پردے کی اہمیت، لباس کی دینی تراش خراش جیسے اقدامات دیکھنے میں آرہے تھے اس دور میں کئی فلمیں دیکھتے ہوئے جانے کیوں یہ احساس ہوا کہ رومانی دوگانے دکھانے سے پہلے ہیرو ہیروئن کا ’جبری نکاح‘ پڑھانا سنسر کی ’شرعی‘ مجبوری بن گیا ہے۔ شاید اس دو رکے قانون سازوں کا خیال تھا کہ غیر شادی شدہ جوڑوں کا رشتہ ٔازدواج میں منسلک ہوئے بغیر ’رومانی‘ ہونا معاشرے کے نوجوانوں کو بے راہ روی کی جانب مائل کر سکتا ہے۔

اس پس منظر اور ماحول میں پروفیسر سلیم اختر کی باتیں سن کر پہلے تو عجیب سا محسوس ہوا اور پھر یک دم یوں ہوا جیسے ذہن میں کہیں ایک ننھا سا تالا ٹک سے کھل گیا ہو۔ چیزوں کو قریب سے دیکھنے کی جرات سی پیدا ہو گئی اور کالج کے ماٹو

”Courage To Know“
کے معانی آشکار ہونے لگے۔ گویا میں ’راوین‘ بن گیا تھا۔

یادوں کی دھند سے پار دیکھوں تو گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنے طلبا کے مستقبل سے محبت کرنے والے کتنے ہی اساتذہ کے چہرے ایک ایک کر کے روشن ہو جاتے ہیں۔ اپنے علم و فضل اور انداز تدریس میں سب کے سب منفرد، ممتاز اور اعلیٰ تھے مگر پروفیسر سلیم اختر صاحب اور پروفیسر شاہد ملک صاحب جو بعد ازاں بی بی سی سے منسلک ہو گئے اپنی اپنی جگہ ذرا ”وکھری ٹائپ“ کے استاد تھے۔ ان دونوں سے میرا تعارف ظاہر ہے کالج کے پہلے روز ہی ہو گیا تھا۔ ملک صاحب ایف اے کے طلبا کو انگریزی ( لازمی) جبکہ سلیم اختر صاحب اردو ( لازمی) کے مضامین پڑھانے پر مامور تھے۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے ابھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل نہیں کی تھی اس لیے پروفیسر سلیم اختر کہلاتے تھے۔ لیکچر دیتے تو محسوس ہوتا جیسے سارے کا سارا اردو ادب انہیں ازبر ہو۔ اور پھر وقت پر کلاس میں آنا، نفیس لباس پہننا، زبانی نوٹس لکھانا، موضوعات اور مصنفین پر بے لاگ رائے دینا، کاٹ دار سوال کا اور بھی کاٹ دار انداز میں جواب دینا، خشک موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی طنز و مزاح کی مخصوص اور دھیمی دھیمی آنچ قائم رکھنا، نظم و ضبط کی پاسداری کرنا، خوش طبعی اور ر خوش خطی کو پسند کرنا ان کے کردار کے خصائص میں شامل تھا۔

ابتدائی طور پر یہ خوش خطی ہی تھی جس نے مجھے استاد مکرم کے قریب ہونے کا موقع فراہم کیا۔ ہوا یوں کہ کالج میں نئے سال کا آغاز ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ لاہور میں پتنگ بازی کا ثقافتی تہوار ”بسنت“ آ پہنچا۔ اس روز کلاس میں طلبا کی تعداد کافی کم تھی۔ جرات کر کے پروفیسر صاحب سے کہا کہ بسنت اور طلبا کی کم تعداد کے پیش نظر کلاس جلد ختم کردینے پر غور کریں تو کہنے لگے : ”ٹھیک ہے، بسنت تہوار پر ایک مضمون لکھ دو اور چلے جاؤ“ ۔

سب نے اپنے اپنے طور پر جلدی جلدی مضمون نمٹایا اور چھٹی منانے بھاگ لئے۔ اگلی کلاس میں پروفیسر صاحب نے ہمارے مضامین واپس کیے تو ان پر ان کی آرا بھی درج تھیں۔ میں نے اپنے مضمون کے آخر ان کا لکھا تعریفی جملہ پڑھا تو خوش ہوتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ عینک کے پیچھے مسکراتی آنکھیں گویا مجھے ہی دیکھ رہی تھیں۔ بولے : ”زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کبھی کبھی انسان کی خوبی ہی اس کی شامت کا باعث بن جاتی ہے۔“

”جی! ؟“ میں اس غیر متوقع جملے پر حیران ہوا۔

مسکراتے ہوئے بولے : ”بات یہ ہے کہ ایک تو تمہارا مضمون دل چسپ تھا، اچھا لگا اور دوسرے یہ کہ تم خوش خط ہو۔ یہ اور بھی اچھا لگا۔ سو، برخوردار اب جب تک تم میری کلاس میں ہو تمہیں میرے ادبی مضامین اور افسانے اسی طرح خوش خطی سے نقل کرنے کا کام کرنا ہو گا اور مجھے یقین ہے تم اس اعزاز کو بخوشی قبول کرو گے“ ۔ آنکھوں میں شریر سی مسکان تھی۔

میں نے ادب سے کہا: ”جی بالکل“ ۔
میں نے پوچھا: ”سر، آپ نے کبھی شاعری بھی کی ہے؟“

وہ بولے : ”بہت شروع میں۔ لڑکپن میں۔ عبدالحمید عدم میرے والد کے دوست تھے ان سے اصلاح بھی لی مگر بہت جلد سمجھ آ گیا کہ شاعری میرے بس کا روگ نہیں۔“ پھر ذرا توقف کر کے مسکراتے ہوئے بولے : ”سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے کچھ دوسرے شاعروں کو بھی بر وقت یہ بات سمجھ آجاتی تو ہم ناقدین کی زندگی کتنی آسان ہو جاتی“ ۔

پھر کچھ روز بعد ہی انہوں نے اپنا ایک تازہ مضمون مجھے دیا اور کہا ”جتنی جلدی ہو سکے اسے خوش خط کر کے لکھ دو “ ۔ میں مضمون اپنے کالج کے رنگین بائنڈر میں رکھ رہا تھا تو کہنے لگے : ”پہلے دیکھ تو لو تم میری لکھائی پڑھ بھی سکو گے یا نہیں“ ۔ میں نے کہا: ”پڑھ لوں گا سر، ایسی کون سی بات ہے!“ یہ سن کر ہنسنے لگے اور بولے : ”تم نہیں جانتے میری کج خطی کی وجہ سے ادبی رسالوں کے کاتب مجھ سے کتنی نفرت کرتے ہیں ’ماہ نو“ کے کاتب کا بس چلے تو میری جان ہی لے لے، کئی بار کشور ناہید سے اپنی خفگی کا اظہار کر چکا ہے۔ مگر میں کیا کروں میں اس سے بہتر نہیں لکھ سکتا۔ تمہاری وجہ سے شہر کے کاتبوں کی جان میں بھی جان آئے گی اور ان کے ہاتھوں میری جان بھی بچ جائے گی اور میری بیگم کے ہاتھوں کو بھی کچھ آرام ملے گا کیونکہ میری اکثر تحریریں اسے ہی نقل کرنا پڑتی ہیں۔ یقین مانو دوہری دوہری نیکی کا کام کرو گے تم ”۔

خوش خطی سے محبت گویا ان کی مجبوری تھی اور میری خوش قسمتی کہ ان دو برسوں میں مجھے ان کی کتنی ہی معرکہ آرا تحریریں قبل از اشاعت پڑھنے کا موقع مل گیا۔ ایک روز کالج کے بعد عباس تابش سے ملاقات ہوئی۔ میں نے جلدی گھر جانے کا کہا کہ پروفیسر صاحب کا ایک مضمون نقل کرنا تھا۔ تابش نے یہ سنا تو ہنس کر کہنے لگا: ”کیا اردو میں پی ایچ ڈی کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے؟“ میں نے کہا: ”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں“ ۔ کہنے لگا: ”بھائی میرے، تم نہیں جانتے سلیم اختر صاحب کے مضامین نقل کرتے کرتے ایک پروفیسر صاحب نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر لیا تھا۔“

پروفیسر سلیم اختر صاحب، بقول خود، سحر خیز نہ تھے مگر پھر بھی سب پروفیسرز سے پہلے کالج پہنچتے تھے اور اپنی کلاس کا وقت ہونے تک پروفیسرز روم نمبر 6 میں مسلسل لکھتے رہتے اور کلاس سے واپس آ کر پھر سے لکھنے کا کام شروع کر دیتے جبکہ ساتھ والے کمرے یعنی روم نمبر 7 میں اردو کے دوسرے پروفیسر حضرات چائے پیتے ہوئے باہم خوش گپیوں میں مشغول ہوتے۔

ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کے افسانوں اور نقد و نظر کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کے ادبی کارناموں کے باعث ان کا نام اردو دنیا میں بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان سے طالب علمانہ نسبت میرا عمر بھر کا حوالہ ہے اور بہت معتبر حوالہ ہے۔ اس تعلق نے بالواسطہ اور بلا واسطہ کئی بار میری رہنمائی اور مدد کی۔

محویت کی دبیز دھند چھٹتی ہے تو مجھے یاد آتا ہے کہ وائس آف جرمنی کی اردو سروس کے لیے کام کرتے ہوئے مجھے برلن میں ایک کثیر القومی اردو سیمینار کی کوریج کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سہ روزہ کانفرنس کے مختلف ادوار میں جو ممتاز لکھاری شریک تھے ان میں قرۃ العین حیدر صاحبہ بھی شامل تھیں۔ وہ جانے کیوں صحافیوں سے بالعموم اور پاکستانیوں سے بالخصوص کترا رہی تھیں۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ ان کے اس طرز عمل کا ایک سبب جمیل الدین عالی جی کی موجودگی بھی تھا۔

خیر، عینی آپا سے خصوصی انٹرویو کا وقت ان کے ہوٹل میں طے ہوا۔ وائس آف جرمنی کے کسی رکن سے ماضی میں ان کے مکالمے اور شاید میری ”نوعمری“ اور بظاہر ”نا تجربہ کاری“ کے احساس کے تحت وہ گفتگو کے آغاز میں کافی محتاط اور کھنچی کھنچی سی رہیں مگر جیسے ہی گورنمنٹ کالج لاہور اور ڈاکٹر سلیم اختر صاحب سے میرے تعلق اور ملاقاتوں کا ذکر ہوا تو ایک دم خوش ہو گئیں۔ کہنے لگیں : ”سلیم اختر تو ہمارے دوست ہیں، بہت اچھے رائٹر ہیں“ ۔ اور پھر ایک یاد گار انٹرویو ریکارڈ ہوا۔ میں دل میں اپنے استاد کا شکریہ ادا کرتا رہا۔

عاجز کا ایک اعزاز یہ بھی رہا کہ سلیم اختر صاحب نے والد صاحب محترم یزدانی جالندھری اور طفیل ہوشیار پوری صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی جریدہ ماہنامہ ”محفل“ کے لیے بھی لکھا اور پھر کمال محبت سے والد صاحب کے شعری مجموعہ ”تورات دل“ کا فلیپ بھی تحریر کیا۔

زمانۂ طالب علمی کے کئی سال بعد جرمنی سے واپسی پران سے ملنے اور انٹرویو ریکارڈ کرنے ان کے گھر گیا تو بولے : ”اوپر والے کمرے ہی میں آ جاؤ“ ۔ وہاں بہت مدت بعد طاہر تونسوی صاحب سے بھی علیک سلیک کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ ان کے کمرے کی دیواریں کتابوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ میں نے اس جانب اشارہ کیا تو مسکرا کر کہنے لگے کہ کتابوں کی ان دیواروں کے پیچھے الماریاں بھی ہیں اور وہ بھی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سب کتابیں ترتیب سے تھیں۔ ان میں سے بہت سی کتابیں تو اس ”سالانہ ادبی جائزے“ کا حصہ بننے آئی تھیں جو وہ بہت محنت سے سال ہا سال سے لکھتے چلے آرہے تھے۔

جب جب میں نے حلقہ ٔ ارباب ذوق لاہور کے انتخابات میں حصہ لیا وہ بہت محبت سے ووٹ دینے تشریف لائے اور کامیابی پر مبارک باد دی۔ میں نے حلقہ کے اجلاسوں میں ان کے افسانے بھی سنے اور ان پر ہونے والی گفتگو بھی۔ حبیب جالب کی پہلی برسی پر وائس آف جرمنی کی اردو سروس کے لیے میں نے جو خصوصی ادبی پروگرام تیار کیا تھا اس میں منو بھائی، آئی اے رحمٰن کے ساتھ ڈاکٹر سلیم اختر کی گفتگو بھی شامل تھی۔

لیجیے، یادوں کی دھند میں سے اب کوئی اور منظر طلوع ہو رہا ہے۔ بہت سال ہوئے میں جرمنی سے پاکستان آ رہا تھا۔ ان دنوں شہر کولون میں صرف ایک اردو اخبار دستیاب ہوتا تھا وہ بھی لندن سے ہفتے میں ایک بار پہنچتا تھا۔ اسے خریدنے کے لیے بدھ کے روز ڈاؤن ٹاؤن سے ہوتے ہوئے دریائے رائن اور تاریخی کیتھڈرل ”کولنر ڈوم“ کے پہلو میں واقع مرکزی ریلوے سٹیشن کے ایک بک سٹال تک جانا پڑتا تھا۔ جس روز پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا اسی دن اخبار بھی آنا تھا۔

سو، پہلے دوست امجد علی کے ساتھ جاکر اخبار خریدا، اسے کندھے والے تھیلے میں رکھا اور پھر کولون، بون ائرپورٹ سے براستہ لندن پاکستان روانہ ہو گیا۔ شاعر دوست ارشد لطیف کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لندن ائرپورٹ پر ہی ملنے آ گئے تھے۔ کافی کا دور چلا۔ وہاں سے طیارے نے پرواز بھری تو میں لاہور کے خیالوں میں کھو گیا۔ اچانک اخبار یاد آ گیا، کھولا تو ادبی صفحے پر شعری تخلیقات کے جلو میں ایک افسانہ بھی جلوہ گر تھا۔

عنوان تھا ”چالیس منٹ کی عورت“ اور اس کے لکھاری تھے ڈاکٹر سلیم اختر۔ دل چسپ افسانہ تھا۔ اتفاق سے اسی پرواز میں میرے گورنمنٹ کالج کے ایک پرانے ہم جماعت یعنی ایک اور ”اولڈ راوین“ بھی سفر کر رہے تھے۔ انہیں بھی افسانہ دکھایا اور پھر ہم دونوں کالج کے دنوں اور دوستوں کی باتوں اور یادوں میں کچھ ایسے کھوئے کہ گھنٹوں کا سفر گویا منٹوں میں طے ہو گیا۔

میں لاہور پہنچا تو پتہ چلا کہ حلقۂ ارباب ذوق کے سالانہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اپنے دیرینہ دوستوں ضیا الحسن اور امجد طفیل کے محبانہ اصرار پر ووٹ دینے پہنچ گیا۔ پاک ٹی ہاؤس اندر باہر بھرا ہوا تھا۔ میں باہر نکلا تو خالد احمد، محمد خالد، ابرار احمد، غلام حسین ساجد، علی اصغر عباس، مختار حسین کھرل، ناہید شاہد، ارشاد حسین، عارف محمود، جاوید انور، عباس تابش، سعادت سعید، ظفر منصور، طارق کامران اور کتنے ہی قابل احترام احباب سے ملاقات ہو گئی۔

اسی گہما گہمی میں سامنے نگاہ اٹھی تو استاد مکرم ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کو پروفیسر خواجہ عبدالحمید یزدانی صاحب کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ میں پاس گیا اور مودبانہ سلام عرض کیا۔ خواجہ عبدالحمید یزدانی صاحب کالج میں میرے فارسی کے استاد تھے۔ دونوں مہربان اساتذہ بہت محبت سے ملے۔ جب میں نے ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کو بتایا کہ میری دوران سفر بھی ان سے ملاقات رہی ہے ان کے افسانے کے ذریعے تو ہنستے ہوئے پوچھنے لگے : ”یہ بتاؤ کہ ’چالیس منٹ کی عورت‘ تمہیں کیسی لگی؟ بتاؤ گے بھی یا ابھی تک شرماتے ہو؟“ ۔

پھر پروفیسر حمید یزدانی صاحب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہنے لگے : ”یار، اس پروفیسری سے اور کچھ حاصل ہوا ہے یا نہیں ایک بات ضرور ہے جب کوئی پرانا سٹوڈنٹ اچانک کہیں دیکھ کر پہچان لیتا ہے اور اور محبت سے سلام دعا لیتا ہے تو دل کو عجیب خوش محسوس ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہی ایک استاد کی اصل کمائی ہے“ ۔

مجھے یاد ہے سلیم اختر صاحب کہا کرتے تھے کہ انہیں پسند تو بہت کچھ ہے تاہم

نا پسند صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک کتاب کے صفحات کو نشان زد کرنا اور دوسرے صبح کی سیر۔ ایک روز ہماری کلاس میں کسی طالب علم کو درسی کتاب پر الفاظ کے معانی لکھتے ہوئے دیکھ لیا تو اسے ڈانٹ پلا دی کہ کتاب پڑھنے کے لیے ہوتی ہے، اگر کچھ لکھنا ہے تو نوٹ بک یا کسی دوسرے ورق پر لکھو۔ ایک روز کتاب کے صفحات کو نشانی کے لیے موڑ دینے پر بھی ناراض ہو گئے کہ اس سے کتاب مجروح ہو جاتی ہے۔ پھر کہنے لگے دراصل لیکچرر شپ سے پہلے میں لائبریرین تھا کتاب سے ایسی محبت شاید اسی عہدے کی دین ہے۔

جہاں تک صبح کی سیر کا تعلق ہے وہ یوں ہوا کہ ایک روز میرے ایک ہم جماعت نے بہ نیت سہولت اس موضوع پر مضمون لکھنے کی تجویز پیش کی کہ سکول کے زمانے میں یہ سب کا ہر دل عزیز موضوع ہوا کرتا تھا۔ پروفیسر صاحب نے اس موضوع کو نہ صرف یہ کہ سختی سے رد کر دیا بلکہ اس ”ایکٹیویٹی“ کے دل چسپ اور مفید ہونے کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ہم سب کچھ حیران تھے۔ صبح کی سیر کریں نہ کریں مگر اس کی افادیت سے انکار گویا زندگی کے کسی مسلمہ اصول سے روگردانی کے مترادف محسوس ہوا۔ مجھے یاد ہے میرے مضمون کا آغاز ہی اس شعر سے ہوتا تھا:

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی

مگر یہاں بات کچھ اور بھی عجیب تھی۔ ہمیں حیران پریشان دیکھ کر خود ہی بولے : ”دیکھو، مجھے نہیں پتہ تم سکول میں کیا پڑھتے لکھتے رہے ہو اس بارے میں، اپنا موقف بتا دیتا ہوں۔ مجھے صبح کی سیر سے چڑ ہے۔ اب میرا تجربہ سن لو۔ معروف کالم نگار اور شاعر عطا الحق قاسمی میرے دوست بھی ہیں اور جہاں زیب بلاک اقبال ٹاؤن میں میرے ہمسائے بھی۔ وہ جانتے ہیں میں مارننگ پرسن نہیں ہوں پھر بھی ضد کر کے ایک روز مجھے تمہاری من پسند صبح کی سیر پر اقبال پارک لے گئے۔

کیا دیکھتا ہوں کہ اداس، مدقوق، بوڑھے بوڑھے سے چہرے لئے اتنے سارے لوگ گھاس پر پڑے شبنم کے تازہ تازہ قطروں کو اپنے پاؤں سے روندتے جا رہے ہیں۔ فطرت کی تازگی کو پامال کر رہے ہیں۔ بہت کوفت ہوئی۔ ایک تو اتنی صبح اٹھنا اور پھر اس پر تروتازگی اور حسن دیکھنے کے بجائے ایسے بیمار چہرے دیکھنا۔ انعام ہے یا سزا؟ تم ہی بتاؤ۔ میں نے تو عطا سے صاف کہہ دیا کہ خبردار آئندہ کبھی مجھے اتنی صبح جگانے مت آنا۔ ایک تو صبح کا وقت، اوپر سے دسمبر کی سردی۔ توبہ توبہ۔”

ایسی ہی یادوں کو تہہ بہ تہہ سمیٹے میں جرمنی سے پاکستان اور پھر وہاں سے ادھر کینیڈا آ بسا اور رفتہ رفتہ یہاں کی یخ بستگی کا عادی ہوتا چلا گیا۔ سردیوں ہی کی ایک صبح سوشل میڈیا سے خبر ملی کی کہ ’عظیم نقا، و ادیب ڈاکٹر سلیم اختر آج صبح کے وقت سفر آخرت پر روانہ ہو گئے‘ ’اور میں یہ سوچ کر آبدیدہ ہو گیا کہ پروفیسر صاحب کو تو صبح کی سیر پسند نہ تھی۔ آج صبح کس ان جانے سفر پر روانہ ہو گئے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments