کیا آپ کائنات کے راز جانتے ہیں؟


انسان ہزاروں سالوں سے جب اپنے ارد گرد پھیلی وسیع و عریض کائنات کو دیکھتا ہے تو حیرت زدہ ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں یہ خواہش سرگوشی کرتی ہے کہ وہ اس کائنات کے خفیہ راز جانے۔

ایک وہ زمانہ تھا کہ انسان سمجھتے تھے کہ اس کائنات کو خدا چلا رہا ہے لیکن پھر ایک یونانی فلسفی تھیلز آف میلیٹس نے ہمیں یہ راز بتایا کہ یہ کائنات چند قوانین فطرت سے چل رہی ہے۔ اس دن کے بعد سے دانشوروں اور سائنسدانوں نے ان رازوں کا سراغ لگانا شروع کر دیا۔

یونانی فلسفی ارسطو نے چوتھی صدی قبل مسیح میں اپنی کتاب

On the Heavensیہ نظریہ پیش کیا کہ ہماری زمین جو چپٹی دکھائی دیتی حقیقت میں گول ہے۔ اپنے موقف کی تائید میں انہوں نے ایک یہ ثبوت پیش کیا کہ جب زمین سورج اور چاند کے بیچ میں آ جاتی ہے اور گرہن لگتا ہے تو زمین کا چاند پر عکس گول دکھائی دیتا ہے۔

دوسرا ثبوت یہ تھا کہ جب ہم کسی جہاز کو سمندر سے ساحل کی طرف واپس آتا دیکھتے تو ہمیں پہلے بادبان دکھائی دیتا ہے اور پھر پورا جہاز۔

انسانی تاریخ کا ایک وہ دور تھا جب انسان یہ سمجھتے تھے کہ وہ ساری کائنات کا مرکز و محور ہیں اور چونکہ کرہ ارض ان کا گھر ہے اس لیے یہ زمین بھی کائنات کا مرکز و محور ہے۔

ارسطو کا بھی یہی موقف تھا کہ زمین ساکت ہے اور چاند ’سورج اور ستارے اس کے گرد دن رات گھومتے رہتے ہیں۔

ارسطو کے موقف کو دوسری صدی عیسوی کے ماہر افلاکیات کلوڈیس پٹولومی نے افلاکیات کے علم سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسا نقشہ بھی بنایا جس میں زمین مرکز میں ہے اور چاند سورج اور سیارے اس کے گرد گردش کر رہے ہیں۔

پٹالومی کے نقشے کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ گرجوں کے پادریوں نے بھی اسے قبول کر لیا اور اس موقف کی تائید میں بائیبل کی چند ایسی آیات بھی نکال لیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ انسان اور زمین کائنات کا محور و مرکز ہیں۔

ارسطو اور پٹالومی کے نظریے کو پندرہ سو سال تک قبولیت اور مقبولیت حاصل رہی اور پھر سولہویں صدی میں پولینڈ کے ایک نکولس کوپرنیکس نامی پادری نے چیلنج کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب انسان ایک خوش فہمی اور غلط فہمی کا شکار ہیں اور اصل معاملہ بالکل الٹ ہے۔ زمین کی بجائے سورج مرکز میں ہے اور زمین اور سیارے اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔

کوپرنیکس کو اپنے مشاہدے پر یقین تھا لیکن وہ گرجے کے عتاب سے خوفزدہ تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے مشاہدات کو مشتہر کرنے میں کافی تاخیر کی اور جب وہ نظریات منظر عام پر آئے تو ایک سو سال تک کسی نے ان پر سنجیدگی سے غور نہ کیا۔

آخر ایک سو سال کے بعد جرمنی کے جوہینس کیپلر اور اٹلی کے گیلیلیو گیلیلی نے کوپر نیکس کی تائید کرنی شروع کی۔ 1609 میں جب گیلیلیو نے اپنی دوربین کے مشاہدات سے ثابت کیا کہ کوپرنیکس کے تصورات حقائق پر مبنی ہیں تو وہی ہوا جس کا کوپر نیکس کو خطرہ تھا۔ یورپ کے گرجوں میں پادریوں کا ایمان خطرے میں پڑ گیا اور انہوں نے گیلیلیو کو نہ صرف اپنے ہی گھر میں عمر بھر کے لیے قید کر دیا بلکہ ان کی نگارشات اور سائنسی تصنیفات پر پابندی عاید کر دی تا کہ انہیں پڑھ کر باقی عیسائیوں کا ایمان خطرے میں نہ پڑ جائے۔ گیلیلیو کو اپنے سچ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔

جب سائنسدانوں نے کائنات کا یہ راز فاش کر دیا کہ چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ایسا کیوں ہے؟ وہ ایسی کون سی قوت ہے جو ان سب سیاروں اور ستاروں کو گردش میں رکھتی ہے اور وہ دن رات خلاؤں میں رقص کرتے رہتے ہیں؟

اس سوال کا جواب سترہویں صدی کے آخر میں آئزک نیوٹن نے اس وقت دیا جب انہوں نے 1687 میں اپنی معرکتہ الارا کتاب PRINCIPA MATHEMATICS چھاپی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اس کائنات کے سب سیارے اور ستارے ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور انہوں نے اس قوت کو کشش ثقل کا نام دیا۔ اس کشش کی وجہ سے جب درخت سے سیب گرتا ہے تو وہ اوپر کی طرف جانے کی بجائے نیچے کی طرف آتا ہے۔

کشش ثقل کائنات کا ایک ایسا راز تھا جس سے نیوٹن نے انسانوں کو پہلی بار متعارف کروایا۔

نیوٹن نے اپنی سائنسی تحقیقات سے کائنات کے چند اور راز بھی جانے جو حرکت کے تین قوانین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

نیوٹن کا پہلا قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی چیز ساکت و جامد ہے تو وہ ساکت و جامد ہی رہے گی اور اگر وہ حرکت میں ہے تو حرکت میں ہی رہے گی جب تک کہ اس پر کوئی خارجی قوت عمل نہ کرے

نیوٹن کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ جب کوئی قوت کسی چیز پر عمل کرتی ہے تو اس چیز کی رفتار بڑھتی ہے اور اسی سمت میں بڑھتی ہے جس سمت میں وہ قوت استعمال ہوتی ہے۔

نیوٹن کا تیسرا قانون یہ تھا کہ ہر عمل کا برابر اور مخالف سمت میں رد عمل بھی ہوتا ہے۔

جب سائنسدان زمین کے چند راز جان گئے تو انہوں نے آسمانوں کی طرف توجہ مبذول کی اور روشنی کے راز جاننے چاہے۔ سترہویں صدی میں ڈنمارک کے سائنسدان اولے کرسچنسن نے روشنی کی رفتار جاننے کی کوشش کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چالیس ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ بعد کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ اصل رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔

سورج چونکہ زمین کے قریب ہے اس لیے اس کی روشنی ہم تک چند منٹوں میں پہنچ جاتی ہے لیکن کائنات میں ایسے ستارے بھی ہیں جن کی روشنی ہم تک پہنچتے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے جب ہم اس ستارے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس وقت تک وہ ستارہ فنا بھی ہو چکا ہو۔

نیوٹن کے بعد جس سائنسدان نے سائنس کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کیا وہ البرٹ آئن سٹائن تھے۔

آئن سٹائن نے یہ ثابت کیا کہ نیوٹن کے قوانین اجرام فلکی کے لیے موزوں ہیں لیکن ایٹم اور ایٹم سے چھوٹے ذرات کے لیے ناموزوں ہیں۔

آئن سٹائن نے ہمیں کائنات کا یہ راز بھی بتایا کہ زمان و مکاں ’جگہ اور وقت‘ SPACE AND TIME جو دو مختلف حقائق سمجھے جاتے تھے حقیقت میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

آئن سٹائن نے کائنات کا یہ راز بھی جانا کہ مادہ اور توانائی میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ ان کا یہ فارمولا E=MC 2 سائنسی دنیا کا مشہور ترین فارمولا ہے جس میں یہ منکشف کیا گیا ہے کہ مادہ توانائی میں اور توانائی مادے میں بدل سکتی ہے۔

آئن سٹائن نے بیسویں صدی کے آغاز میں جو سائنسی نظریات پیش کیے ان کے اطلاق سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ کائنات کے پھیلنے کے امکانات ہیں لیکن آئن سٹائن ایک پھیلتی ہوئی کائنات کو تصور نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ کائنات محدود ہے۔ آئن سٹائن مرتے دم تک یہ سمجھتے رہے کہ وہ موقف ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

آئن سٹائن کو اس وقت اپنی رائے بدلنی پڑی جب امریکی سائنسدان ایڈون ہوبل نے 1920 کی دہائی میں اپنی جدید دوربین سے یہ دیکھا کہ کائنات کے وہ دھندلے دھندلے اجسام جو نیبولا کہلاتے تھے دراصل کہکشائیں ہیں۔ ان کے مشاہدے سے یہ ثابت ہوا کہ ہماری کہکشاں دنیا کی واحد کہکشاں نہیں ہے۔

بقول علامہ اقبال ؎ ستارے سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ہوبل کے لیے یہی بات حیران کن نہ تھی کہ کائنات میں ہماری کہکشاں کے علاوہ اور بھی بہت سی کہکشائیں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ کہکشائیں ہماری کہکشاں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔

ہوبل نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کس رفتار سے ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ جب اس رفتار کا پتہ چل گیا تو یہ حساب لگایا گیا کہ ماضی بعید میں ہماری کہکشاں کا آغاز کب ہوا تھا۔

جب حساب مکمل ہوا تو پتہ چلا کہ ہماری کہکشاں تیرہ اشاریہ سات بلین سال
پہلے ایک بگ بینگ سے پیدا ہوئی تھی۔

پیدا ہوتے وقت وہ ایک حد سے زیادہ گرم مادے کی طرح تھی۔ جب قدرے ٹھنڈی ہوئی تو اس کی کوکھ سے ستاروں نے جنم لیا۔ پھر ان ستاروں کی کوکھ سے سیاروں نے جنم لیا۔ اس طرح پہلے ہماری کہکشاں پیدا ہوئی اور پھر اس کہکشاں کی کوکھ سے ہمارا سورج پیدا ہوا۔

اب سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ہماری کہکشاں ہمارے ملکی وے کی عمر تیرہ اشاریہ سات بلین سال ہے لیکن ہماری زمین کی عمر صرف چار اشاریہ پانچ بلین سال ہے۔ ان چار اشاریہ پانچ بلین سالوں میں بھی پہلے ایک بلین سال کرہ ارض پر زندگی کے کوئی آثار نہ تھے۔ پھر سمندر کی گہرائیوں کے گرم پانیوں میں زندگی کے آثار اور امیبا جیسی مخلوق پیدا ہوئی جس نے بڑھتے بڑھتے مچھلیاں تخلیق کیں اور پھر ارتقا کا طویل سفر کرتے ہوئے پرندوں اور جانوروں اور انسانوں کی صورت اختیار کی۔

سائنسدان صدیوں سے یہ سوال پوچھتے رہے کہ کرہ ارض میں جو پودے اور درخت ’حیوان اور انسان موجود ہیں ان کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟

ارسطو کا نظریہ تھا کہ کرہ ارض پر موجود تمام چیزیں تمام مادی اجسام عناصر اربع سے بنے ہیں جو زمین۔ ہوا۔ آگ اور پانی ہیں۔

یونان کے ہی ایک اور فلسفی تھے جن کا نام ڈیموکریٹس تھا انہوں نے کہا کہ اگر آپ کرہ ارض کی چیزوں کو تقسیم کرتے جائیں تو ایک ایسا مقام آئے گا جب آپ اسے مزید تقسیم نہیں کر سکیں گے۔ وہ ناقابل تقسیم ذرہ ایٹم کہلائے گا۔

بیسویں صدی کے سائنسدانوں نے ایٹم کا راز بھی جانا اور ہمیں بتایا کہ ایٹم کے اندر تین چیزیں مخفی ہیں۔ جو الیکٹرون۔ پروٹون اور نیوٹرون کہلاتی ہیں۔ اور پروٹون اور نیوٹرون میں مزید جو چھوٹے چھوٹے ذرے چھپے ہیں وہ کوارک QUARKS کہلاتے ہیں۔

جن دوستوں کو عالمی ادب سے محبت ہے ان کے لیے یہ دلچسپی کی بات ہوگی کہ کوارک کا نام جیمز جوئیس کے ناول کے ایک کردار کے ایک ڈائلاگ سے لیا گیا ہے جس میں جیمز جوئیس کہتے ہیں

Three quarks for Muster Mark
ہر نیوٹرون اور پروٹون تین کوارک سے مل کر بنتا ہے۔

کائنات کے جتنے راز ہم جان گئے ہیں اتنے ہی راز ابھی اور باقی ہیں جو سائنسدان جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیسویں صدی کے ایک مقبول سائنسدان سٹیون ہاکنگ نے ایک جگہ لکھا کہ جوں جوں ہم زندگی اور کائنات کی الجھی گتھیاں سلجھا رہے ہیں توں توں ہم اس راز سے بھی آگاہ ہو رہے ہیں کہ خدا کیسے سوچتا ہے۔ ان کا جملہ ہے

”….for then we would know the mind of God“
نوٹ۔ اس مضمون کی تیاری میں سٹیون ہاکنگ کی مشہور کتاب
A BRIEF HISTORY OF TIME
سے استفادہ کیا گیا ہے۔
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments