ابا، بارش اور ہم


بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بارش ہو اور ابا کے چہرے پر مسکراہٹ ہو۔ زیادہ تر وہ بارش سے پریشان ہی ہوتے ہیں۔ پھر ابا نہ کچھ ٹھیک سے کھاتے ہیں نہ مسکرا کر بات کرتے ہیں۔ کبھی بارش برستے زیادہ دن گزر جائیں تو یہاں سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے دو تین جوڑے اور چائے کا سامان لیے فصل دیکھنے چل پڑتے ہیں۔ اس پریشانی میں یوں لگتا ہے وہ ہمارے پاس ہو کر بھی پاس نہیں ہوتے۔ ان کا بس چلے تو آدھی رات کو برستی بارش میں کالا خطائی چلے جائیں۔

وہ رات کا ایک ایک لمحہ بہت مشکل سے گزارتے ہیں۔ جیسے ہی موذن کی آواز کانوں میں پڑتی ہے۔ تو اٹھ کر جانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ ہم جتنا مرضی روک لیں۔ ابھی بہت اندھیرے ہے۔ کچھ دیر ٹھہر کر چلے جائیں۔ وہ کسی کی نہیں سنتے۔ حالاں کہ وہاں ابا کا رابطہ ہر وقت رہتا ہے۔ پھر بھی جب تک وہ اپنی نظروں سے فصل کو دیکھ نہ لیں۔ انہیں سکون نہیں ملتا۔

میں اکثر کہتی ہوں یہ ہمارے لیے بارش کا نہیں فکر کا موسم ہے۔ بچپن میں جب ساتھ والے گھر سے پکوڑے اور میٹھی ٹکیاں بننے کی خوشبو آتی تو ہمارا بھی دل چاہتا ہمارے گھر میں بھی موسم کی مناسبت سے طرح طرح کے پکوان بنیں۔ لیکن یہاں ایک عجیب سے سوگ کی کیفیت ہوتی۔ ہم بچپن سے اس رویے کے عادی ہیں۔ ادھر بارش شروع ہوئی ادھر ہمارا ”بارش آ گئی“ کا نعرہ ابا کی پریشانی دیکھتے گم ہو کے رہ جاتا سب چپ چاپ اپنے اپنے کمروں میں بیٹھے ہوتے۔

بچے بارش کا پانی کیاریوں میں جمع ہوتا اپنے اپنے برآمدے میں بیٹھ کر دیکھتے۔ کاغذ کی کشتیاں وہیں دور سے باہر پھینکتے۔ جو پانی میں تیرنے کے بجائے الٹی سیدھی پڑی رہتیں۔ بہت دل چاہنے کے باوجود کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی کیاریوں میں بھرے پانی سے کھیل سکیں۔ اور صحن میں ادھر ادھر اچھلتے کودتے مینڈک پکڑ سکیں۔ اگر کسی پودے پر اکا دکا موتیا اور گلاب ہوتے تو ہم بہانے سے باہر جاتے اور پھول پلیٹ سے بھر کر تائی امی کو لا کر دے دیتے۔

وہ مسکرا کر چپکے سے پھول رکھ لیتیں۔ وہ بھی ہماری طرح خاموش بارش پروگرام منانے میں شریک ہوتیں۔ ان کے بھی بارش شروع ہوتے صحن میں نامعلوم کام بڑھنے لگتے۔ جوائنٹ فیملی میں ایسی پھیکی برسات شاید ہی کہیں اور ہو۔ جیسی ہمارے آنگن میں ہوتی تھی۔ اماں کی ڈائجسٹ کہانیوں میں ایسی بارش کا دور دور تک ذکر نہیں ہوتا تھا۔ وہاں ایک الگ ہی جہاں آباد ہوتا۔ ہیروئن رنگ برنگی اوڑھنی لیے اور کلائیاں چوڑیوں سے بھر کے بارش میں نہا بھی لیتی اور سارے گھر کے لیے چٹ پٹے کھانے بھی پانچ میں بنا کر املی پودینے کی چٹنی کے ساتھ پیش فرماتی۔

اچانک سے ہیرو بھی گھر آ جاتا۔ اس کے لیے دوبارہ کچن میں چائے اور تازہ پکوڑے سموسے تلنے شروع ہو جاتی۔ ہمارے گھر کبھی بھول کے پکوڑے بن بھی جاتے تو چٹنی کی اتنی ورائٹی دستیاب نہ ہوتی۔ سوائے ایک ٹماٹو کیچپ کے۔ ایک ہماری یہ حسرت بھی رہی۔ بارش میں زیادہ بھیگنے سے بیمار ہو جائیں اور اسکول نہ جانا پڑے۔ گھر میں کوئی ایسی بارش کی یاد نہیں جس میں ہم نے جی بھر کے ہلا گلا کیا ہو۔ سب کی اپنے اسکول کالج کی دلفریب یادیں ہیں۔

اسکول میں بھی زیادہ تر بچے بارش میں چھٹی کرتے۔ ہمارے ایسے گھر کی اداسی سے گھبرائے بھاگے بھاگے جاتے اور ٹیچر سے اچھے بچوں کی لسٹ میں نام درج کرواتے۔ ٹیچر بھی کھڑکی میں کھڑی ہو کر باہر دیکھتی رہتیں۔ ہم کبھی پانی پینے کے بہانے کبھی بریک میں لنچ کے بہانے باہر کے چکر لگا کر بارش میں بھیگتے پھرتے۔ ہماری کزنز کالج سے گھر آ کر جب دن بھر کی روداد سناتیں۔ تو پھر دل کرتا ہم بھی اڑ کر کالج پہنچ جائیں۔ کالج جانے کا بے صبری سے شوق ایک یہ بارش بھی تھی۔

ہم خواب میں بھی یہی دیکھتے۔ ایک بڑی کشادہ سڑک ہے جس کے آس پاس درختوں کے جھنڈ ہیں۔ ٹھنڈی خوشگوار ہوائیں چل رہی ہیں یک دم تیز بارش شروع ہو جاتی ہے اور ہم وہاں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ یہ خواب تقریباً شادمان اور جیل روڈ پر بہت بار شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس کے علاوہ شکر ہے کسی خواب کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ بھی ایک نیک شگون ہے۔ کیونکہ ہمیں زیادہ تر ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ ایک بارش کا خواب ہی کافی ہے۔

اس کے بعد ہم نے کبھی یہ یاد رکھنے کی کوشش نہ کی۔ ابا اور بابا کے چہرے پر کس موسم کی بارش سے مسکراہٹ آتی ہے۔ یاد تو اب بھی ٹھیک سے نہیں شاید سردی کی بارش فصل کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔ گرمی میں پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی اگر فصل کو پانی لگا دیا جائے تو بارش کے اضافی پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یا پھر جب کھیتوں میں کوئی کھاد وغیرہ ڈالی جائے۔

پہلے جب ابا کہتے۔ دعا کرو کہ بارش ہو۔ تو ہم حیرانی سے ابا کی طرف دیکھتے۔ اگر بارش ہو تو افسردہ ہوتے ہیں۔ نہ ہو تو دعا کا کہتے ہیں۔ ابا کا یقین نہیں بلکہ ایمان ہے بیٹیوں کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ وہ کوئی بھی مشکل ہو دونوں بیٹیوں کو ضرور دعا کا کہتے ہیں۔ ہمارا بھی خدا اور دعا کا تعلق ابا کے دم سے قائم ہے۔ لیکن جب ابا ہمیں مینہ برسنے کی دعا کرنے کا کہتے ہیں تو ہم کوئی دعا مانگیں نہ مانگیں ابر کرم کی ضرور دعا کرتے ہیں۔

ہم جو بارش سے اپنی دیوانگی کا ٹھیک سے اظہار نہیں کر سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری بارش سے الفت ابا کی چہرے پر چھائی اداسی دیکھ کر کم ہونے لگی۔ آج تک ہم سمجھ نہیں پائے کب اور کتنا مینہ برسے تو ہریالی آتی ہے۔ اور قسمت مہربان ہوتی ہے۔ ہاں قسمت اس دن ضرور مہربان ہوتی ہے جب ابا کچی پکی بھری گندم کی ڈالیاں ہماری جھولی میں رکھتے ہیں۔ اب ہم ابا کے دعا کرنے کا کہنے سے پہلے ہی دعاگو ہوتے ہیں۔ یہ بارش جب بھی برسے سب کے لیے کرم کی برسے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments