پکاسو اور کیوب ازم پینٹنگ کی تحریک


 

(مختصر تعارف، مباحث اور تناظر)

کیوب ازم، ڈاڈا ازم اور ایبسٹرکٹ آرٹ بنیادی طور پر مصوری کی اصطلاحات ہیں جو بعد میں ادب میں بھی شامل ہو گئیں۔ ادب کی یہ خاصیت ہے کہ یہ لفظی اظہاریہ کے ذریعے وہ سب کچھ کرنے کے لئے میدان فراہم کرتا ہے جو مصوری یا صنم تراشی میں بیان ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف اصناف فراہم کر کے اس عمل کو اور بھی آسان اور دلچسپ بنا دیتا ہے۔ کیوب ازم ایک مغربی تحریک تھی جس نے سب سے پہلے مغرب میں رواج پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق میں بالخصوص مسلم دور کی تاریخ کا جائزہ لیں تو کیلی گرافی، مصوری، صنمیات اور فن تعمیر و نقش نگاری میں مسلم فن کاروں کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے اس شاندار فن کے متحیر انگیز نمونے ہمیں آج بھی ملتے ہیں جو ہمارے متاثر کن ماضی کے امین ہیں۔

اس شاندار فن میں ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ اس فن کی قدرو قیمت کی اہمیت سے ناواقفیت ہے۔ لوگ فن مصوری اور صنمیات کی اہمیت سے واقف ہی نہیں یا پھر اس فن کو سمجھنے کے لیے وہ بالغ دماغ ہی نہیں رکھتے جو ان کو مسرت جیسے جذبے سے ہمکنار کرے۔ اس لئے یہ فن ہمارے معاشرے میں رواج نہ پا سکا۔ اگر ادب کا جائزہ لیا جائے تو کئی شعراء اور افسانہ نگاروں نے اس ماڈرن آرٹ کو اپنے فن میں جگہ دینے کی کوشش ضرور کی مگر کسی خاص ضرورت کے تحت۔

ڈاڈام ازم کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ ”وہ فن جو آسانی سے سمجھ آ جائے وہ فن ہی نہیں ہوتا، بلکہ صحیفہ ہوتا ہے۔ فن کو سمجھنے کے لئے ایک بالغ ذہن کا ہونا ازبس ضروری ہے۔“ ڈاڈسٹ کا یہ بیان شاید فن کی اہمیت پر زور دینے کے لئے تھا۔ کیونکہ وہ فنی بے وقتی اور ناقدری سے اچھی طرح واقف تھے اور اپنے باغیانہ رویے سے ان لوگوں کو ہی فن شناس کہتے تھے جو فن کو سمجھ سکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے فن کو صرف ان لوگوں کے لئے تخلیق کیا جو اس کی قدر کرنا جانتے تھے۔

پابلو پکاسو نے شاید اسی وجہ سے کہا تھا کہ:

”ہر کوئی آرٹ کو سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ پرندوں کی چہچہاہٹ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ سب لوگ بغیر جانے“ رات ”،“ پھولوں ”اور اپنے ارد گرد کے موجودات سے پیار کرتے ہیں لیکن پینٹنگ کے بارے میں ان کا خیال ہوتا ہے کہ اسے سمجھنا ضروری ہے۔ وہ لوگ جو پینٹنگ کی تفسیر میں پڑنا چاہتے ہیں وہ عام طور پر ڈھول کی تھاپ پر غلط دھمال ڈال رہے ہوتے ہیں، وہ اپنے محسوسات سے آخر کیوں نہیں سمجھتے۔“

بقول معروف شاعر مبشر سعیدؔ
؎ دکھ پرندوں کی طرح شور مچا سکتے ہیں
ہجر، پیڑوں سے نمودار بھی ہو سکتا ہے

یقیناً، دکھ پرندوں کی طرح شور مچا سکتے ہیں اور ہجر پیڑوں سے بھی نمودار ہو سکتا ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ ژرف بینا اور محسوس کرنے والے قارئین یا ناظرین کا عنقا ہے۔ ڈاڈا ازم، ایبسٹرکٹ آرٹ یا کیوب ازم کے زیر اثر تخلیق کی گئی پینٹنگ ایک عام قاری کے لئے آڑی ترچھی لائنیں، بدمزہ اور کج صورت تصویر ہو سکتی ہے مگر اس فن کو سمجھے والے کے لئے اس کے جذبات کی نمائندگی بھی پنہاں ہو سکتی ہے۔ اگر قاری داخلی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو رنگوں کا یہ گورگھ دھندا اس کی داخلی حالت کو بیان کر سکتا ہے اور وہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اس کا یہ احساس آفاقی ہے اور کوئی اس کو سمجھتا بھی ہے، اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ اس طرح ایک تصویر سے بھی آسودگی حاصل کر سکتا ہے۔ مبشر سعید ؔ کا ایک اور شعر جس میں ممکنات کا اظہار ہویدا ہے۔

بنچ پہ پڑی خاموشی
پہنچی پیڑ کے کانوں تک

اسی طرح کیوب ازم فن مصوری کی ایک ہنگامہ خیز تحریک تھی جو 1907ء میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کو شروع کرنے والوں میں پابلو پکاسو اور جارج ڈراک اہمیت کے حامل ہیں۔ پابلو کا تعلق سپین سے تھا اور یہ پیشے کے لحاظ سے ایک مصور تھا۔ جس نے روایتی مصوری یعنی حقیقت پسندانہ آرٹ یا حقیقت نظر آنے والی تصویروں کی ہیئت، یکسر بدل دی۔ جیومیٹری میں استعمال ہونے والی مختلف شکلیں جیسے مربع، مستطیل، مثلث یا مکعب وغیرہ کا استعمال کر کے تصویریں بنانا شروع کیں اور اس ماڈرن آرٹ کے ذریعے بہت کچھ بیان کرنے کی کوشش کی۔

اس تحریک نے تاثیر پسندی کی خصوصیت کو اپنے اندر ضم کیا اور فطرت کے ڈھانچے کو تصوراتی طور پر حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں نے جذباتی نیرنگیوں کو ترک کر دیا اور ایسی چیزوں کو شامل کیا جو تاثرات اور جذبات کھو چکی ہوں، ان کی بنیادی شکل اور حجم کو واضح کرنے کی کوشش کی۔

پکاسو نے اپنے کیوب ازم کے بنیادی تجربے اسی طرح کیے کہ اس نے اپنی اس خود کار تکنیک کو ”کولاج“ کا نام دیا۔ اس نے ضائع شدہ میٹریل (Scrap) کو (کٹ اینڈ پیسٹ) تکنیک کے ذریعے (Still Life) کے لئے استعمال کرنے لگا۔ پیسٹ کیے ہوئے مواد کو ڈیزائن کرنا شروع کیا۔ اور اس طرح جمالیاتی تاثر کھو دینے والی اشیا میں زندگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

کیوب ازم کی پینٹنگ (Erotic Art) پر بھی مبنی ہو سکتی ہیں۔ یہ تصویری عام ناظر کے لئے فحش تصویریں ہو سکتی ہیں۔ مگر کیوب ازم کے اظہاریہ میں ایک عورت کے مردہ نسوانی حسن کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ جس میں کئی مکعب شکلیں اس کے پستانوں کو پرکار کے گول پھیر اور اس کے کولہوں کو فربہ دکھانے کی بجائے کیوبک شکل میں ظاہر کر سکتی ہیں۔ عام طور پر کیوبک پینٹنگ میں خودکشی، اذیت پسندی سمیت اذیت کوشی کو دکھایا جا تا ہے مگر اس میں پیغام (Still Life) کا ہوتا ہے۔ یہ فن درحقیقت رجائیت پسند فن ہے۔

دوسری کئی مصوری کی اصطلاحات کی طرح کیوب ازم کو بھی ادب میں شامل کیا گیا۔ کیوب ازم علی العموم علامت نگاری اور سریلزم کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں سریندر پرکاش اور انور سجاد کے افسانوں میں یہ تکنیک دیکھنے کو ملتی ہے۔ سریندر پرکاش کا افسانوی مجموعہ ”برف پر مکالمہ“ اس فن کا مکمل فنی اظہار ہے۔

آخر میں، میں ایک دفعہ پھر مبشر سعید ؔکے ایک شعر کو شامل کرنا چاہوں گا کہ:
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں؟ ہو کے دکھاؤں تجھ کو
(خواب گاہ میں ریت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments