DAMNED FROM HERE TO ETERNITY یہاں سے ابد تک مردود


اگر آپ نے جمیز جونز کی کتاب from here to eternity پڑھی ہے یا اس پر مبنی فلم دیکھی ہے تو آپ کو اس کتاب اور آج کے پاکستان میں بہت مماثلت نظر آئے گی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی یہاں سے ابد تک مردود ہی رہیں گے۔

جیمز جونز نے اپنی کتاب کا عنوان رڈیارڈ کپلنگ کی 1892 میں لکھی جانے والی نظم سے لیا تھا۔ نظم کا عنوان تھا Gentlemen Rankers کپلنگ نے یہ نظم ایک گانے کی صورت میں لکھی تھی جو برطانوی شاہی فوج کے سپاہی مشقیں کرتے ہوئے یا محاذ پر گاتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ وہ یہاں سے ابد تک مردود ہیں یعنی رد کیے جا چکے ہیں اور شاید ان کے لیے کوئی اور نجات کا راستہ نہیں۔

مگر وہ شکایت نہیں کر سکتے فقط گانا گا سکتے ہیں۔
جیمز جونز نے نظم کے جس حصے سے اپنی کتاب کا عنوان لیا وہ یہ ہے۔
Gentlemen-rankers out on the spree,
Damned from here to Eternity,
God ha ’mercy on such as we,

ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر سپاہیوں کو پتا ہے کہ وہ یہاں سے ابد تک مردود رہیں گے تو وہ گانے کیوں گا رہے ہیں۔ مردود ہونا کوئی اچھی بات تو نہیں جس پر گانے گائے جائیں۔ شاید وہ اپنی لافانیت کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جو وطن کے لیے موت یا ”شہادت“ کے صلے میں انہیں ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے جو دراصل ایک جھانسا بھی ہو سکتا ہے، مگر کیا یہ گانے کی بات ہے یا اس پر رونا چاہیے؟

شاید ہم اس بات کو سمندر پار سے برصغیر لے آئیں اور پاکستان جیسے ملک پر لاگو کریں تو کیا یہاں کوئی مثبت بات نکالی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں بھی اگر کچھ عرصے میں آپ کو بھلا دیا جائے گا تو پھر ان سپاہیوں کے محاذ پر جانے، گانے بجانے اور لڑ مر کر خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی کیا تک بنتی ہے؟

شاید اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آپ کسی بات، مقصد یا نصب العین کے لیے لڑ رہے ہیں اور کن رہنماؤں نے آپ کو اس صورت حال میں جھونکا ہے۔

یہاں سے ابد تک مردود ہونا ایک نہ ختم ہونے والی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ اس کہانی کا آغاز و انجام دونوں درد ناک ہیں جس میں کبھی کبھی کوئی روشنی کی کرن بھی نظر آتی ہے۔

جیمز جونز نے دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی فوج میں خدمات انجام دی تھیں اور پھر 1951 میں صرف تیس سال کی عمر میں یہ ناول لکھا۔ کتاب کا محور وہ واقعات ہیں جو پرل ہاربر پر جاپانی حملے سے فوراً پہلے ہوئے۔

صورت حال تقریباً ویسی ہی ہے جیسی پاکستان میں عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ کتاب کا ایک مرکزی کردار رابرٹ پرواٹ جو نیا نیا پرل ہاربر پہنچا ہے۔ فلم میں یہ کردار منٹ گمری کلفٹ نے ادا کیا ہے۔ وہ ایسا باکسر ہے جو پہلے لڑتا تھا مگر جب اس کے مکوں سے ایک حریف اندھا ہو گیا تو اس نے باکسنگ کے مقابلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔

ایک اور کردار فرسٹ سارجنٹ وارڈین ہے جو برٹ لنکاسٹر نے ادا کیا۔ ان دونوں کو ہم کسی بھی معاشرے کے عام فرد سمجھ سکتے ہیں اور یہ معاشرہ پاکستانی بھی ہو سکتا ہے۔ ناول میں پرواٹ  سب سے نچلے درجے کا کھلاڑی ہے جو بگل اچھی طرح بجاتا ہے اور موسیقی سے شغف رکھتا ہے۔ یہ ایک عام سا سپاہی ہے جو بلا وجہ جنگ و جدل یا لڑائی جھگڑا کرنا نہیں چاہتا۔ یہ عام لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو سیدھے سادے اور امن پسند ہوتے ہیں اور جن کی کوئی لمبی چوڑی خواہشات نہیں ہوتیں۔ اسے دیگر انسانوں سے مل جل کر رہنا پسند ہے۔ وہ محبت کا متلاشی ہے اور عزت و احترام کرنا اور کرانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اسے عورتوں سے ملنا جلنا بھی اچھا لگتا ہے وہ ایک عام سا آدمی ہے جو یہاں سے ابد تک مردود نہیں رہنا چاہتا۔ مگر یہ ہی اس کا مقدر ہے۔

وہ اپنے سارجنٹ کا ماتحت تھا جو اس سے ایک درجے اوپر ہے۔ سارجنٹ کو اپنے سپاہیوں سے نظم و ضبط کی توقع ہے اور اس بارے میں وہ فکر مند رہتا ہے۔ سارجنٹ نچلے درمیانے درجے کی نمائندگی کرتا ہے جو ہر معاشرے میں موجود ہے۔ پاکستان میں بھی۔ اس کا طبقاتی کردار اسے اپنے اعلی افسر کی خدمت کرنے پر مجبور رکھتا ہے جن کا نام کیپٹن ہومز ہے اور جو خود اپنی ترقی میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور اسے اپنے ماتحت افسروں اور سپاہیوں کی فلاح و بہبود سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے وہ چاہتا ہے کہ پرواٹ  دوبارہ باکسنگ شروع کردے تاکہ اس کے یونٹ کی ٹیم مضبوط ہو جائے اور مقابلے جیتے تاکہ خود اس کی اعلی عہدے پر ترقی ہو سکے۔ دیگر مکے باز بدمعاشی پر اتر آتے ہیں اور پرواٹ کے انکار پر اسے لڑنے پر اکساتے ہیں۔ مگر وہ کسی طرح بھی دوبارہ رنگ میں اترنے پر تیار نہیں ہے۔ کیوں کہ اسے مکے بازی کے نقصانات کا پورا اندازہ ہے۔

اسے مکے بازی سے زیادہ دوستی کی ضرورت ہے اور دوسروں کو مکے مارنا اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ لیکن جس نظام کا وہ حصہ رہنے پر مجبور ہے وہ اس کے پر امن رویے کو پسند نہیں کرتا۔ پرواٹ کو ایک لڑکی ایلما سے محبت ہوجاتی ہے جس کا کردار فلم میں ڈونا ریڈ نے ادا کیا ہے جس پر اسے اوسکر انعام بھی ملا تھا۔

ایلما بھی ایک عام سی لڑکی ہے جو عام عورتوں کی نمائندگی کر سکتی ہے۔ اس کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہے اسی لیے وہ دنیا کے قدیم ترین پیشے کی طرف چلی جاتی ہے ناول میں تو یہ ہی دکھایا گیا ہے لیکن فلم میں اسے ایک کلب میں لوگوں کو تفریح فراہم کرنے والی ایک لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی بھی خواہش ہے کہ وہ باعزت زندگی گزارے اور یہاں سے ابد تک اسے مردود نہ ہونا پڑے مگر یہ ہی اس کا مقدر ہے۔

پھر ایک اور کردار کیپٹن کی بیوی کا ہے جس کا نام کیرن ہے اور جو اپنے شوہر کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔ چوں کہ کیپٹن ایک درمیانے طبقے کا مرد ہے اس لیے اس کی اپنی حرکتیں ہیں۔ وہ اپنے یونٹ کے افراد کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور طرح طرح کی عورتوں سے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔

اس کی بیوی کا کردار معروف اداکارہ ڈیبرا کار نے ادا کیا جو ایک درمیانے طبقے کی عورت ہے اور اپنے حالات سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اگر اس کا کیپٹن شوہر کئی عورتوں سے تعلقات رکھ سکتا ہے تو وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ کیپٹن نے اس کو ایک جنسی مرض میں مبتلا کر دیا تھا جس سے اس کا بچہ بھی ضائع ہو گیا ناول میں یہ ہی دکھایا گیا ہے۔ مگر فلم میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا حمل شوہر کی لاپرواہی کے باعث ضائع ہوا جس کے بعد وہ بانجھ ہو گئی۔

کیرن کا بانجھ پن دراصل اس کے ذہنی بانجھ پن کی علامت ہے جس کا شکار زیادہ تر درمیانے طبقے کی عورتوں کو بننا پڑتا ہے یا پھر وہ خود بن جاتی ہیں اور ایسا تقریباً ہر معاشرے میں ہوتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

کیپٹن کی بیوی بانجھ پنے کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی وہ سارجنٹ سے تعلقات استوار کر لیتی ہے جو اس کے شوہر کے ماتحت ہے وہ سارجنٹ نچلے درمیانے طبقے کا ہے شاید اس لیے اس میں درمیانے طبقے کے لوگوں کی خباثتیں موجود نہیں ہیں۔ وہ زیادہ محبت کرنے والا اور نرم دل واقع ہوا ہے۔ اس میں انسانی حساس دل موجود ہے جو درمیانے طبقے کے زیادہ تر لوگوں میں نہیں پایا جاتا ہے یا پھر وہ خود کو اس سے محروم کرلیتے ہیں۔ کیرن ان تعلقات کے لیے ایک طرح کی نجات اس زندگی میں حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ یہاں سے ابد تک مردود نہیں رہ سکتی مگر یہ ہی اس کا مقدر ہے۔

اس ناول میں جو زندگی دکھائی گئی ہے وہ معاشی و سماجی نا انصافیوں سے پر ہے۔ اس میں کوئی تقدس نہیں۔ اس میں بوریت ہے اور تنہائی جس کا ہر کوئی شکار ہے یا کم از کم ہر محسوس کرنے والا شخص اس بوریت اور تنہائی میں مبتلا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ جو بے حس ہیں وہ اپنے ماتحتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کہانی اور فلم میں روایتی تصورات کو للکارا گیا ہے اور بظاہر ٹھیک نظر آنے والی عمارت کی دراڑیں دکھائی گئی ہیں۔

یہ ایسے لوگوں کی داستان ہے جنہیں مردود نہیں ہونا چاہیے یعنی انہیں رد نہیں کیا جانا چاہیے مگر یہ ہی ان کا مقدر ہے۔ انسانی خرابیوں کے ساتھ یہ کردار قابل محبت ہیں اور وہ جن میں کوئی خرابی نہیں یا جو کامل ہونے کے دعوے دار ہیں ان سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ ناول خاصا طویل ہے مگر فلم اس کے ساتھ پورا انصاف کرتی ہے مگر ظاہر ہے اس میں 1950 کے عشرے کی رکاوٹیں بھی تھیں جن میں فلم اتنی بے باک عکاسی نہیں کر سکتی تھی۔

اصل کہانی خاصی پیچیدہ تھی مگر فلم نے اسے قابل دید بنا دیا ہے۔ فلم و ادب اگر بے باک اور بے ساختہ ہوں تو آپ کی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں مگر پاکستان جیسے معاشروں میں سماج بہت سی چیزوں کو قارئین اور ناظرین کے لیے پیش کرنے سے گریزاں ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہم کچرا قسم کی تفریحی سرگرمیوں سے لطف اٹھاتے ہیں جو کس بھی دوسرے کھلے معاشرے میں قابل قبول نہیں۔ ہمارے معاشروں میں قابل قبول ہونے کے لیے دبے دبے الفاظ میں اظہار کرنا ہوتا ہے جس سے تخلیقی صلاحیتوں کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ دراصل معاشروں میں مزا بے رحم سفاک اور طاقت ور اٹھاتے ہیں جس کا بخوبی اظہار from here to eternity میں کیا گیا ہے۔

آخر میں دو اور کرداروں کا ذکر کرنا ضروری ہے سپاہی میجیو جس کا کردار فرینک سناترا نے ادا کر کے اوسکر انعام حاصل کیا۔ یہ پرواٹ  کا دوست ہے جو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا قاتل ایک اور کردار فیٹ سو  ہے جو اپنی سماجی برتری کا اظہار کرتا رہتا ہے کیوں کہ وہ لحیم شحیم ہے۔ وہ ہی میجیو کو مار مار کر قتل کر دیتا ہے پھر آخر میں اس قاتل کو پرواٹ ہی ٹھکانے لگاتا ہے اور اس طرح اپنے دوست کا بدلہ چکاتا ہے۔

اس کہانی میں میجیو اور پرواٹ بہت پیارے کردار کے مالک ہیں اور خواتین میں ایلما اور کیرن بھی ایسی ہی ہیں مگر ان سب کو طاقت ور لوگوں کی جانب سے سفاک سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پاس راستے محدود ہیں۔ دونوں مرد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جب کہ عورتیں زندہ رہ جاتی ہیں۔

اس ناول اور فلم میں چند بڑے شان دار ابواب اور مناظر ہیں۔ اگر آپ نے ناول نہیں پڑھا تو کم از کم فلم ہی دیکھ لیں مجھے یقین ہے آپ کے دو گھنٹے ضائع نہیں جائیں گے۔

میں نے ناول کو ایک بار پڑھا اور فلم کئی بار دیکھ چکا ہوں اور ہر بار میں زندگی کی طرف زیادہ حساس ہو جاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میں یہاں سے ابد تک مردودوں میں شمار نہیں ہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments