غربت، بے روزگاری اور موجودہ حالات


ہر دور میں فقر و افلاس انسانی زندگی کا المیہ رہا ہے اس کے خاتمے ہر دور میں آوازیں بلند ہوتی رہیں اور کئی ایک تحریکیں بھی معرض وجود میں آئیں۔ غربت و افلاس کو مٹانے کے ”نعرہ مستانہ“ کی بدولت مختلف ادوار میں کئی لوگوں کی لیڈرشپ کی دھاک بھی قائم رہی۔ بڑے بڑے شعرا، علماء، فلاسفرز اور حکماء کے اعصاب پر بھی ”روٹی“ سوار نظر آتی ہے۔ غربت انسانی زندگی سے خوشیاں اور سکون کسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جب سر پر بھوک منڈلائے اور بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے معقول وسائل نہ ہوں تو خوشحال زندگی خواب معلوم ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری اور غربت ہے۔ پچھلے دو سے تین سالوں میں بڑھتے ہوئے افراط زر خصوصاً اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔

اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔ اور مہنگائی یا بیروزگاری صرف پاکستان میں نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے امریکہ برطانیہ فرانس اور جرمنی جیسے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیروزگاری پائی جاتی ہے پاکستان بھی اس کڑی مجبوری کی زد میں ہے۔ معاشرے میں بے روزگاری ایک سماجی برائی تصور کی جاتی ہے جس سے خطرناک حالات جنم لیتے ہیں یہ معاشی زہر پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے اور ملک کی سیاسی صورت حال بھی متاثر ہوتی ہے۔ غربت بے روزگاری، ناشکری قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہریوں کو بھی مجرم اور ڈاکو بنا دیتی ہے۔

حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، غربت اور بے روزگاری بہت زیادہ ہے ملک سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ یقیناً ہر حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ آج عالمی سطح پر معاشی بقا کی جنگ معاشی میدان میں لڑی جا رہی ہے جس کا ہتھیار یقینی طور پر صرف علم ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ اگلے 50 سالوں میں دنیا کہاں کھڑی ہو گی؟ عالمی بحران کے باوجود ایمازون، ایپل، فیس بک اور گوگل کا کاروبار دن بدن بڑھ رہا ہے اور امریکہ، یورپ، چین میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کا کاروبار دوبارہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔

ایمازون، فیس بک، ایپل اور گوگل کی اس سال کی پہلی سہ ماہی کاروباری رپورٹس میں ان کمپنیوں کو ہونے والے منافع اور آمدن کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ ان تمام رپورٹس میں ایک چیز قدر مشترک تھی اور وہ یہ کہ پیداوار بڑھ رہی ہے اور اس میں سست روی کی کسی قسم کی کوئی علامات نہیں ہیں، اس دوران سب سے منافع بخش کمپنی ایمازون رہی ہے۔ ای کامرس اور آن لائن شاپنگ کی اس کمپنی نے تین مہینوں میں 100 ارب ڈالر سے زائد کی اشیاء فروخت کیں، پاکستان میں نوجوانوں کے لیے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا۔

2021 میں پاکستان کو ایمازون کی سیلر لسٹ میں شامل کیا گیا ایک سال سے بھی کم ترین عرصے میں پاکستان نے تیسرے نمبر پر ایمازون میں جگہ بنا لی، اس طرح کے مزید پلیٹ فارم بھی ای کامرس کی دنیا میں موجود ہیں۔ جب نوجوان بیروزگاری کی دیوار سے ٹکراتے ہیں تو ایسی حالت میں انسان کے صبر، صلاحیتوں کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ لیکن غربت، بے روزگاری سے تنگ آ کر مایوس ہونا، اور مایوسی میں انتہائی قدم اٹھانا، جیسا کہ ڈاکا زنی یا خود کشی کی طرف جانا انتہائی گھناؤنا عمل ہے ایسے حالات میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر مدد طلب کرنی چاہیے اور نئے جوش و جذبے کے ساتھ محنت شروع کرنی چاہیے، انسان سب سے زیادہ نا شکری جس چیز کی کرتا ہے وہ وقت ہے جو وقت کی گھڑی گزر رہی ہوتی ہے وہ زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں آئے گی۔

ہمارے معاشرے میں نا شکری کی عادت سی ہو گئی ہے۔ ہر وقت یہ تو دیکھنے میں لگے ہوتے ہیں کہ فلاں گھوڑے یعنی اچھی گاڑی یا اپنے جہازوں میں سفر کرتا ہے لیکن ہم کبھی پیدل چلنے والے شخص کی طرف کبھی غور نہیں کرتے۔ یہ ہی وہ نقطہ ہے اور اصل پوائنٹ ہے جو سمجھنے کی ضرورت ہے ہم ناشکری میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ دائیں بائیں ہماری مدد کے منتظر انسان ہمارے چہروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ زبان سے سفید پوش لوگوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر سب کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے کاش!

ہم اپر لیول کی تگ و دو کی بجائے ان چہروں کا مطالعہ کر کے ان کی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کر دیں تو ہماری روح کی گہرائیوں تک ایسا سکون و اطمینان محسوس ہو گا جس سکون کا خواب ہم بڑی گاڑیوں، دولت میں دیکھتے ہیں۔ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا نظریہ قائداعظم نے دیا تھا، جسے ازسرنو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مخیر حضرات کو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اکثر شاہراہوں پر کئی سفید پوش ٹھیلے والے یا ہمارے محلے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں، جنہیں ہمارے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس وقت وطن عزیز میں جو حالات ہیں۔ ایسے حالات میں ہر شخص اپنے آپ کو تربیت یافتہ بنائیں، اور اپنے زیر کفالت بچوں کو بھی علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے پسندیدہ کام کی تربیت دیں، تا کہ مشکل وقت میں وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکیں۔

دین اسلام نے بھی ہر قسم کے حالات میں انسان کی رہنمائی کی ہے اسلام نے جس طرح فرد کی زندگی کو اہمیت دی ہے، اسے آزادی، مساوات اور عدل و انصاف سے نوازا ہے، وہیں اس نے اس کو معاشرے سے الگ بھی تصور نہیں کیا ہے۔ اسلام نے فرد کے مفادات اور حقوق کے خیال کے ساتھ، اس کو وسیع ترین معاشرے کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے فرائض و واجبات بھی دیے ہیں۔ اسلام نے ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنایا ہے، جس میں خیر اور نیکی کو خوب پنپنے کا موقع ملے اور شر و برائی کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔

معاشرے میں مسائل جیسے بھی ہوں۔ حالات کے ساتھ جینا سیکھیں مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ان کا بہترین حل نکالیں، دنیا کے ہر انسان کا وقت، عزت، جان، مال بہت قیمتی ہے۔ آپ کے ذہن میں جو خواب آتے ہیں وہ سب آپ پورے بھی کر سکتے ہیں بس اپنے آپ میں خود اعتمادی پیدا کریں، اپنے آپ پر بھروسا ”یقین“ رکھیں۔ اعتماد اور اپنے آپ پر بھروسا آپ کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ اپنی محنت اور صلاحیت پر یقین رکھیں کوشش کریں۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو تصور میں لاتے رہیں۔ اور یہ ذہن میں گمان رکھیں کہ مستقبل میں بھی آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments