پارلیمانی لیڈر اور پارٹی لیڈر کے اختیارات پر چند سوالات


پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلی کے حالیہ انتخابات میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد پیدا ہونے والے ابہام میں جب فیصلہ سپریم کورٹ پہنچا۔ تو کیس کی ابتدائی سماعت نے معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیا۔ وزارت اعلی کے انتخابات اور سپریم کورٹ میں جاری سماعت کی تفصیلات میں جائے بغیر چند سوالات جو میرے ذہن میں ابھرے اور یقیناً میرے قارئین کے ذہن میں بھی آئے ہوں گے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جس وقت سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی تشریح کا تین دو سے فیصلہ دیا تو اس فیصلے کا مجھ سمیت وکلاء، سینئر صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور ان کے ذریعے عام آدمی، حتی کہ الیکشن کمیشن نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اب تحریک عدم اعتماد کا آپشن مفقود ہو گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد اگر کسی رکن اسمبلی نے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی خلاف ورزی کی تو نہ صرف ان کا ووٹ مسترد ہو گا بلکہ اس کو فوری نا اہلی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

جس کی ایک مثال پنجاب ہی کی وزارت اعلی کے الیکشن میں سامنے آئی، جس میں تحریک انصاف کے پچیس منحرف اراکین کو پارٹی سربراہ کی ہدایات کے برخلاف ووٹ ڈالنے پر نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جب ڈپٹی سپیکر نے بھی سپریم کورٹ کی اسی تشریح اور اس کے بعد آنے والے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر چودھری شجاعت حسین کے خط پر ووٹ مسترد کیے تو جس بینچ نے تین دو کے فرق سے فیصلہ دیا تھا، نے اپنے ہی فیصلے کی مزید تشریح کرتے ہوئے قرار دیا کہ ان کی مراد پارٹی سربراہ کے بجائے پارلیمانی پارٹی تھی۔ اسی ہی سلسلے میں معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ کیونکہ ایک سیاسی جماعت کے سینئر پارلیمانی لیڈر نے ان سے پارٹی سربراہ کی مطلق العنانیت کی شکایت کی تھی تو اسی کو ختم کرنے کے لئے اب پارلیمانی پارٹی اور پارلیمانی لیڈر کو اختیار ات دیے گئے ہیں

معزز جج صاحبان نے مختصر فیصلے میں تو اس تشریح کو شاید سینے سے لگا رکھا تھا اور اب ان کے مطابق آرٹیکل تریسٹھ اے سے مراد پارلیمانی پارٹی اور پارلیمانی لیڈر ہے۔ اب معاملہ یہیں سے شروع ہوتا ہے، اگر جسٹس اعجاز الاحسن صاحب کے اس ریمارکس کہ فیصلہ پارلیمانی پارٹی یا لیڈر نے کرنا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس مخصوص پارٹی جس کے صدر کے ٹکٹ پر وہ پارلیمانی پارٹی وجود میں آئی اور اسی ہی صدر کے لیٹر پر پارلیمانی لیڈر کا انتخاب ہوا۔ اگر وہ کسی ایک امیدوار کو ووٹ کرنے کے احکامات جاری کرتا، مگر پارلیمانی پارٹی یا پارلیمانی لیڈر کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر اس پارٹی کا مستقبل کیا ہو گا؟

پاکستان کے معروضی سیاسی حالات کہ جہاں پارٹی کے سرکردہ رہنما بھی کسی دوسری سیاسی پارٹی میں شامل ہو جاتے تو کیا بعید ہے کہ ایک پارلیمانی لیڈر بھی کسی دوسری پارٹی سے ٹکٹ یا پیسوں کی لالچ میں پارٹی سربراہ کی منشا کے برعکس ووٹ کرنے کا لیٹر جاری کردے۔ تو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی تشریح کے مطابق تو یہ عمل جمہوریت کا سرچشمہ ہو گا اور یہ خلاف قانون نہیں ہو گا۔

اسی کی ہی دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوتا ہے اور اس اجلاس میں پارلیمانی پارٹی کسی ایک امیدوار کی نامزدگی پر بحث کرتی ہے (اول تو ایسا کبھی ہوتا ہی نہیں ہے، اگر ہو بھی جائے) اور اس بحث میں وہ پارلیمانی پارٹی کی اکثریت پارٹی سربراہ کے فیصلہ کے حق میں کھڑی ہوجاتی ہے مگر پارلیمانی لیڈر اپنے اقلیتی اراکین کے ہمراہ فیصلہ کر لیتا ہے اور پریزائیڈنگ افسر کو خط لکھ دیتا ہے کہ ووٹ پارٹی سربراہ کی منشا کے برخلاف اس کے نامزد کردہ امیدوار کو دیے جائیں تو ایسی صورت میں تو اکثریتی اراکین کا ووٹ بھی مسترد ہو جائے گا اور فیصلہ اقلیتی اراکین والے پارلیمانی لیڈر کا ہی مانا جائے گا۔ پھر یہاں مطلق العنانیت تو پھر بھی موجود ہے۔ پھر تو حکومتیں بنانے گرانے کا فیصلہ، خواجہ آصف، نوید قمر، اسد عمر، اور دیگر پارلیمانی لیڈران کے ہاتھوں میں ہو گا۔

یہی سوالات میں نے جب نجی ٹی وی سے وابستہ سینئر کورٹ رپورٹر رانا بلال اور سینئر کورٹ رپورٹر و اینکر پرسن ادریس شیخ سے کیے تو انہوں نے بھی سپریم کورٹ کی تشریح کو مبہم قرار دیا۔ ادریس شیخ نے تاریخ کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ جب سترہویں ترمیم میں فلور کراسنگ کو قانونی شکل دی گئی تھی اور اس کے بعد اسی ترمیم کا علاج اٹھارہویں ترمیم میں کیا گیا تھا تو اس عمل سے ایک طرف سیاسی پارٹیاں کمزور ہوئی تھیں تو اٹھارہویں ترمیم میں پارٹیوں اور سربراہوں کو مضبوط کر دیا گیا تھا۔

مگر موجودہ تشریح نے تو معاملات کو مزید الجھا کر رکھ دیا ہے۔ رانا بلال اور ادریس شیخ کے مطابق سپریم کورٹ کو یا تو مزید تشریح کرتے ہوئے کچھ ایس او پیز وضع کرنا ہوں گے جس کی بنیاد پر پارلیمانی لیڈر اور پارلیمانی پارٹی اپنے افعال سرانجام دے۔ ان دونوں کے بقول چونکہ سپریم کورٹ کے پاس مقننہ کے اختیار نہیں تو معاملات ایوان میں ہی بھیجنے پڑ جائیں گے۔

میں معزز قارئین کے لئے بھی یہی سوالات چھوڑ رہا ہوں کہ پارٹی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سوالات پر غور کریں۔ کیا پاکستان کسی ایسے نظام کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پارلیمانی نظام اس طرح سے چل سکے گا؟ کیا کسی پارٹی سربراہ یا پارٹی کا بھی عملاً وجود برقرار رہے گا یا پارٹی پر گرفت برقرار رہے گی؟ کیا ہمارا نظام اتنا مضبوط ہے کہ برطانیہ ہی کی طرح اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے ووٹنگ کرے، جس کے بعد وہ وزیراعظم بغیر کسی غیر ملکی خط کا شوشا چھوڑے خاموشی سے گھر چلا جائے اور اس کے بعد پھر ووٹنگ کر کے کسی دوسرے موزوں امیدوار کا چناؤ ہو اور وہ وزیراعظم منتخب ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments