کندھے اور بندوق کا کھیل


ایک میدان ہے۔ اس میں ایک بندوق کے نیچے کرسی رکھی ہوئی ہے۔ کرسی کے نیچے ایک تجوری ہے۔ کرسی پر جو کاندھا ہوتا ہے بندوق اس پر رکھی جاتی ہے۔ یوں کرسی اور تجوری بیک وقت بندوق کے زیر سایہ ہوتے ہیں۔ یہاں طاقت کا ایک کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہ کندھے اور بندوق کا کھیل ہے۔

پہلے کندھے دو ہوا کرتے تھے۔ یہ باری باری اپنا آپ بندوق کو پیش کیا کرتے تھے۔ جو کندھا بندوق کا بار اٹھاتا تھا اس کے سر پر تاج رکھ کر کرسی پر بٹھا دیا جاتا تھا۔ جب یہ کندھا تھک جاتا تھا یا کھیل کے دوران بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر انداز اپنانے کی کوشش کرتا تھا دوسرا کندھا فوراً اس کی جگہ لے لیتا تھا۔ اور بندوق دوسرے کندھے پر رکھ کر پہلے والے پر تان دی جاتی تھی اور ساتھ ہی اس کے نشانے پر تماشائیوں میں سے بھی وہ نشانے پر ہوتے تھے جو اس کھیل پر اعتراض کرتے ہوں۔

پھر یہ دونوں کندھے تھوڑے عمر رسیدہ ہوئے۔ کھیل کو سمجھ گئے اور ایک دوسرے کے ساتھ ملنے لگے اور بندوق کو آنکھیں دکھانے لگے تو ایک تیسرا بڑا پھرتیلا کندھا جو اب تک میدان سے باہر تھا تیار کیا گیا۔ اس نے اپنا کسرتی کندھا بندوق کو پیش کیا اور بندوق پہلے والے دونوں تجربہ کار کندھوں پر تان دی گئی۔ تماشائیوں میں کچھ بزرگ اس نو آموز کسرتی کندھے کو سمجھاتے رہے کہ ہم ازل سے یہ کھیل دیکھ رہے ہیں تھوڑا دھیرج سے چلو ایک دن یہ بندوق تم پر تانی جائے گی۔ مگر یہ کندھا سنتا کہاں تھا کسی کی۔ بہرحال تجربہ کار کاندھے خاموشی سے مل کر دوبارہ اپنی جگہ لینے کے لیے تانے بانے بننے لگے اور سازباز کرنے لگے اور وہ وقت آ گیا۔

نو آموز کسرتی کاندھے نے جب بتائے اور سدھائے ہوئے طریقے سے ذرا سا ادھر ادھر چوکنے کی کوشش کی پہلے والے دونوں کاندھے جو موقعے کی تلاش میں تھے۔ انہیں صحیح وقت پر صحیح وار کرنے کا ہی تو تجربہ تھا۔ پس دونوں نے مل کر بندوق کو اپنا کندھا پیش کر دیا۔ اور وہی ہوا جو اہل علم کہہ رہے تھے بندوق تیسرے کندھے پر تان دی گئی۔ اب وہ تیسرا بھی کہتا ہے کہ بندوق کاندھے پہ رکھ کر بڑی غلطی کی۔ لیکن دکھ تو یہ ہے کہ اس غلطی نے وقت کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا۔ وہاں جہاں سے یہ کھیل شروع ہوا تھا۔

اس میدان کے آس پاس خاردار تاروں کی ایک حد بندی ہے۔ اس کے باہر یہاں کے عام سوکھے سڑے ہوئے مدقوق، بیمار، ناتواں اور بھوکے ننگے کندھے ہیں۔ ان کندھوں کے ساتھ ڈرپ نما پائپ جڑے ہوئے ہیں جو ان کا خون پسینہ تجوری کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی ان کا کام ہے۔ یہ عوامی کندھے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ میدان میں صرف ایک بار داخل ہوتے ہیں۔ بندوق اٹھانے والے تینوں کندھوں کو کرسی تلک چھوڑ کر آنے کے بعد ان سب کا میدان میں داخلہ ممنوع ہو جاتا ہے۔ بس یہ باہر بیٹھ کر اپنے اپنے کندھے کے لیے تالیاں بجاتے نعرے لگاتے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔

اس میدان میں ”کندھے اور بندوق“ کا یہ کھیل ازل سے جاری ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ میدان سجایا ہی اس کھیل کے لیے تھا اور یہی اس کھیل کی سب سے اندوہناک بات ہے کہ اسے مذہبی و قومی تقدیس کی آڑ میں کھیلا جاتا ہے۔ یہی اس کھیل کے نسل در نسل کھیلے جانے کی وجہ ہے۔ جن کے ہوتے اس کھیل کے خاتمے کی کوئی صورت نہیں۔

اسی پر ایک نظم۔
کرسی ایک ہے بندے تین
اک بندوق ہے کندھے تین
کرسی ہے بندوق کے نیچے
تینوں بندے اس کے پیچھے
پہلے بندے دو ہوتے تھے
پہلے کندھے دو ہوتے تھے
اور بندوق ہمیشہ ایک
باری باری دیتے ٹیک
اک کندھا جب تھک جاتا
تھوڑی آنکھیں دکھلاتا
دوجے کی بن جاتی تھی
پہلے کی ٹھن جاتی تھی
دوجے کندھے سے بندوق
پہلے پر تن جاتی تھی
دونوں کندھے سمجھ گئے
جب بندوق سے الجھ گئے
پھر میدان میں تیسرا آیا
اور بندوق کو آن اٹھایا
ان دونوں پر تانی گئی
اور پھر ان کی مانی گئی
اب بندوق ہے پھر تیار
تیسرے پر کرنے کو وار
بھوکے ننگے ہم تماشائی
دے کر اپنی ساری کمائی
ساری عمر سسکتے ہیں
باہر بیٹھ کے تکتے ہیں
اونچی اس مخلوق کا میل
کندھے اور بندوق کا کھیل
( وقاص رشید )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments