انڈین سپریم کورٹ میں چار فوجی افسران کا کیس جنھیں ’پاکستانی جاسوس کے واٹس ایپ گروپ کے ممبر‘ ہونے پر معطل کیا گیا

سوچتر موہنتی - بی بی سی ہندی کے لیے


انڈیا کی سپریم کورٹ میں ملٹری انٹیلیجنس کے چار افسران کا ایک ایسا کیس آیا ہے جنھیں ایک مبینہ ’پاکستانی جاسوس‘ کے واٹس ایپ گروپ سے جوڑا جا رہا ہے۔

جب فوج نے ان پر ایکشن لیا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا تاہم افسران کو یہاں سے بھی ریلیف نہ ملا۔ اب ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس پر نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے۔

ان چار فوجی افسران نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان کے رازداری کے حق کی حفاظت یقینی بنائی جائے تاہم سپریم کورٹ نے ان کے دلائل مسترد کر دیے۔

ان افسران پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک مبینہ پاکستانی جاسوس کے واٹس ایپ گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کے فون اور لیپ ٹاپ تحقیقات کے دوران ضبط کر لیے گئے تھے۔

ان کے خلاف تحقیقات میں انڈین فوج کو معلوم ہوا کہ وہ مبینہ طور پر اس واٹس ایپ گروپ میں شامل تھے جہاں کئی دیگر نامعلوم غیر ملکی شہری بھی موجود ہیں۔

ان پر الزام ہے کہ اس واٹس ایپ گروپ میں جنسی نوعیت کا غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ اس پر انھیں فوج سے معطل کر دیا گیا ہے۔

کرنل اور لیفٹیننٹ کرنل کی سطح کے افسران شامل

سپریم کورٹ کے جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگرتنا پر مشتمل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ ان چار افسران میں ملٹری انٹیلیجنس کے تین کرنل اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔

اگنی میزائل

حال ہی میں حیدرآباد میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ لیبارٹری کے ایک انجینیئر کو مبینہ طور پر ’ہنی ٹریپ‘ کیا گیا اور ان پر اگنی میزائل سے متعلق معلومات لیک کرنے کا الزام ہے

سابق کرنل امِت کمار پیشے سے وکیل ہیں اور وہ اس کیس میں معطل ہونے والے فوجیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں کہا کہ ان کے مؤکلین کو حق رازداری کی عدم فراہمی اور طریقہ کار پر عمل نہ ہونے پر اعتراض ہے۔

ایڈووکیٹ کرنل (ر) امت شاہ نے بی بی سی کو بتایا: ’میں بہت جلد سپریم کورٹ کے 14 جولائی کے حکم کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کروں گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ نظرثانی کی اپیل آرمی ایکٹ کے سیکشن 50 (بی) کی تشریح کے حوالے سے ہو گی۔ یہ نیچرل جسٹس پر مبنی ہوں گی۔ وسیع تبدیلیاں ہوں گی اور اس کیس میں تمام ریکارڈز طلب کیا جائيں گے۔‘

معطل افسران نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں سوال کیا تھا کہ آیا انھیں انڈیا کے آئین کے تحت باقی شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔

اس درخواست میں انھوں نے الزام لگایا کہ فوج کی تحقیقات میں رازداری کے حق کی خلاف ورزی کی گئی۔ ان چار افسران کو تحقیقات کے دوران اپنے عہدوں سے معطل کیا گیا تھا۔

درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایسے کوئی شواہد موجود نہیں کہ ان چار میں سے ایک بھی افسر نے کسی پاکستانی جاسوس سے بات چیت کی ہو۔

سپریم کورٹ نے کیا ریمارکس دیے؟

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ آیا اس گروپ میں کوئی پاکستانی جاسوس بھی تھا۔

اس پر سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا کہ ’ہم معطل فوجی افسران کی درخواستیں وصول نہیں کرتے۔ جب تحقیقات جاری تھی تو یہ ضروری تھا کہ انھیں معطل کرنے سے پہلے اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا۔‘

’ریگولیشن 349 کے تحت ایسے کسی طریقہ کار کی پیروی ضروری نہیں تھی۔ درخواست گزاروں کو تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے بھی معطل کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ایڈووکیٹ جنرل تشار مہتا نے بتایا کہ کورٹ آف انکوائری کی تشکیل کی گئی اور جانچ جاری ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق اس وقت تک درخواست گزار کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’قانون اور آرمی ایکٹ کے طریقہ کار کے تحت درخواست گزاروں کا کیس خارج کیا جاتا ہے۔ درخواست کو ابھی کے لیے مسترد کیا جا رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈین فوجی پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کی مبینہ ایجنٹ کو معلومات فراہم کرنے کا الزام

چین کا عالمی جاسوسی نیٹ ورک: اہم شخصیات کو کیسے ’پھنسایا‘ جاتا ہے؟

’شادی کے وعدے پر مبینہ پاکستانی جاسوسہ کو میزائلوں کی معلومات دینے والا‘ انڈین انجینیئر گرفتار

سمارٹ فون

درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ان کے ذاتی ڈیٹا کے ذریعے انھیں بلیک میل کیا گیا

’اگر وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو انھیں پھانسی دی جانی چاہیے‘

ان چاروں فوجیوں کے وکیل ایڈووکیٹ امت کمار نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’تحقیقات شروع ہونے سے قبل ان چار افسران کو غیر قانونی طور پر ان شواہد کی بنیاد پر معطل کیا گیا جو مبینہ طور پر افسران کے بورڈ نے جمع کیے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ فوج نے چاروں افسران کے موبائل فون اور ڈیٹا کو ایک بے ضابطہ طریقے سے ضبط کیا گیا اور ان کی ذاتی گفتگو کو بلیک میل کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا حالانکہ انھوں نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اس ملک کی خدمت کی۔‘

اس کے باوجود امت کمار نے کہا کہ ’اگر وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو انھیں پھانسی دی جانی چاہیے۔‘

ایڈووکیٹ جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ چاروں افسران کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے تاہم فوج کے قوانین اور دیگر اصولوں کے تحت ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

امت کمار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ ان افسران کے فون اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز پر کی جانے والی ذاتی گفتگو اور ڈیٹا کو منظر عام پر نہیں لایا جانا چاہیے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاروں افسران کو 65 روز تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے جبکہ قانون کے تحت حراست میں لیے جانے کے 48 گھنٹوں کے اندر چارج شیٹ پیش کرنا ضروری ہے۔

درخواست میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انڈین فوج کی تاریخ میں پہلی بار درخواست گزاروں کو بغیر تحقیقات اس طریقے سے معطل کیا گیا ہے جبکہ ان کے خلاف نہ تو کوئی کیس درج کیا گیا اور نہ ہی کوئی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments