ضمنی انتخابات میں دھاندلی اور عوام کی طاقت


ایک ہوتی ہے دھاندلی ایک ہوتی ہے منظم دھاندلی۔ یعنی آپ کے حلقے سے آپ کے ووٹ اٹھا کر کسی ایسے پولنگ سٹیشن پر پھینک دیے جائیں جو آپ کے حلقے میں تو آتا ہو لیکن اس پولنگ سٹیشن پہ ووٹنگ نہ ہو رہی ہو۔ کمال نہیں ہو گیا صاحب! اتوار کے روز سبھی سست سے رہتے ہیں۔ چھٹی والے موڈ mode میں مشکل سے صوفہ آپ کی جان چھوڑتا ہے۔ بلکہ آپ خود کو گھسیٹ کر صوفے سے اٹھاتے ہیں کہ ایک ضروری کام نپٹانے جانا ہوتا ہے۔ وہ نہایت اہم کام ہوتا ہے ضمنی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے جانا۔

چلیے جناب ہم اپنی من من بھر کی تھکی ہوئی ٹانگوں کو کھینچتے کھانچتے کار میں جا بیٹھے اور ظہور الٰہی روڈ کے گول چکر پر واقع ایک اکیڈمی میں ووٹ ڈالنے گئے۔ پرچی بنوانے کے لیے اپنا شناختی کارڈ دیا تو اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ پتہ چلا ہمارے سب گھر والوں کے ووٹ یہاں سے کینٹ کے پولنگ سٹیشن پر پھینک دیے گئے۔ مگر وہاں ووٹنگ نہیں ہو رہی۔ چلو جی! ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کسی جلے پیر کی بلی کی طرح کبھی اندر جا کبھی باہر آ۔

کبھی اس سے پوچھ کبھی اس سے پوچھ۔ لیکن نتیجہ ندارد۔ ہمارے ملازمین سمیت کل آٹھ ووٹ تھے جو ضائع ہو گئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی جن کی دیوار ہمارے گھر سے جڑی ہوئی ہے وہ سب لوگ اسی اکیڈمی میں ووٹ ڈال کر آئے۔ میرے دل کے اندر بہت کچھ ٹوٹ سا گیا۔ پچھلی کئی دہائیوں سے عوام اس انتظار میں تھے کہ نجانے کب اس ملک میں شفاف الیکشن ہوں گے۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن کا ادارہ 23 مارچ 1956 میں آئینی طور پر بنایا گیا۔

کمیشن کا مقصد ایماندارانہ، منصفانہ، اور سچائی سے انتخابات کروانا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن کے پاس پینل پر چاروں صوبوں سے ریٹائرڈ ججز ہوتے ہیں۔ پورا سال تو الیکشن کمیشن پر کوئی اور بوجھ نہیں ہوتا۔ آرٹیکل 140 A کے مطابق الیکشن کمیشن لوکل گورنمنٹ اداروں کے ساتھ مل کر الیکشن کا بندوبست کرواتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی منظم دھاندلی کروائی گئی۔ ضمنی انتخابات میں میں پہلی دفعہ ووٹ ڈالنے گئی۔ اس کی تفصیل آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔

ہم ہر صورت ووٹ ڈالنا چاہتے تھے مگر نہیں ڈال سکے۔ منظم دھاندلی ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن عوام کی طاقت کو روک نہیں سکے۔ کہا جاتا ہے جب کسی برتن میں زیادہ پانی ڈال دیا جائے تو چھلک جاتا ہے۔ اس طرح اب عوام نے ان سیاست دانوں کو مسترد کر دیا ہے۔ جھوٹ بھی اب برداشت سے باہر ہو چکا ہے۔ عوام کے ظرف کا برتن بھی اب چھلک چکا ہے۔ اداروں میں جب بھی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے افسرز سرکار کی نوکری پہ لگتے ہیں تو دیانتداری کا حلف اٹھا کر آتے ہیں۔

مگر یہ راستہ ہی پھسلن کا راستہ ہے۔ جو پھسل گیا وہ تباہی کی راہ پر چل پڑا۔ ایک اور سوال ہے جناب بلاول سے، مولانا فضل الرحمٰن سے، مریم نواز سے کہ کیا اب بھی عمران خان سلیکٹڈ ہیں یا الیکٹڈ؟ ضمنی انتخابات نے بلا شبہ وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے پر نئی مہریں لگائی ہیں۔ عوام واقعی اپنے ووٹ کی قدر کرنے لگے ہیں۔ وہ منتخب نمائندے جو اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں عوام اب ان کا احتساب چاہتے ہیں۔ عام آدمی اب اپنے شہری حقوق کا تحفظ مانگتے ہیں اور اداروں کی مداخلت سے انکار کر چکے ہیں۔

عوام اب جبر، تشدد اور الزامات کی سیاست سے اکتا گئے ہیں۔ عمران خان اس وقت خوش قسمت ترین اور مقبول ترین لیڈر ہیں۔ ہر طرح کے نعرے ان کے پاس ہیں۔ رجیم چینج سے لے کر امریکی غلامی نامنظور تک۔ رجیم چینج کے بعد سے جب عمران خان نے مراسلہ لہرا کر جلسے میں عوام کو دکھایا تب سے ان کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ عمران خان صاحب نے بہت محنت کی۔ ان تھک جلسے جلوس کیے۔ عوام نے ان کی آواز پر جوش و خروش سے لبیک کہا۔

تحریک انصاف نے سٹیٹس کو کو ختم کیا۔ بدلے میں عوام کو ریلیف دینا اولین مقصد تھا۔ رجیم چینج کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ اللہ کی پناہ۔ پیٹرول اور بجلی کی آسمان سے بڑھتی قیمتوں نے لوگوں کا جینا اجیرن کر دیا۔ حکمران آتے رہے۔ جھوٹے دعوے کرتے رہے۔ خواب سراب سکھاتے رہے۔ پاکستان میں نہ تو سولر انرجی پر توجہ دی گئی نہ ہی تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی طرف دھیان دیا گیا۔ بلکہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا گیا۔

ملکوں کے حکمرانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملکی ادارے اپنی دیانت داری کے پابند ہوتے ہیں۔ جب کوئی لیڈر قوم کی بات کرتا ہے تو وہ طالب علموں، کسانوں، مزدوروں، استادوں، ڈاکٹروں اور ہر شعبٔہ ہائے زندگی سے جڑے لوگوں کی بات کرتا ہے۔ جو اربوں روپے آئی ایم ایف سے قرض لیے گئے اس کا فائدہ قوم کو کدھر پہنچا؟ ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے کیا عوام کو ریلیف ملے گا؟ یہ قرضہ تو ظاہر ہے عوام نے دینا ہے۔ اب اگر آنے والے دنوں میں نیا لائحہ عمل اختیار نہ کیا گیا۔

اگر الزامات کی سیاست کو مسترد نہ کیا گیا تو بحران بڑھیں گے۔ اب عمران خان صاحب کو اپنا سیاسی امیج برقرار رکھنا ہو گا۔ مفاہمت کی سیاست سے بچنا ہو گا۔ عوام اب روایتی سیاست کو رد کر چکی ہے۔ عمران خان کے دور میں مہنگائی ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح انہوں نے عوام کے لیے مہنگائی کو کنٹرول کیے رکھا۔ سیاست باز اور لیڈر میں فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاست باز اپنی ہار کے لیے فوری نئے راستے نکال لیتے ہیں۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں یقیناً پی ٹی آئی کی تاریخی فتح ہے۔

ایک طرف تو مریم نواز اپنے جلسوں میں فرماتی رہیں کہ لوٹوں کی جگہ باتھ روموں میں ہے۔ دوسری طرف گلبرگ مین بلیوارڈ کے آواری ایکسپریس ہوٹل میں نون لیگ لوٹے خریدتی رہی۔ ایک طرف مریم نواز نے ٹویٹ کی کہ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے اور ہمیں اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے۔ ایسا اس لیے بھی کہا گیا کہ حکومتی مشینری اور منظم دھاندلی ہونے کے باوجود شکست مقدر بنی۔ دوسری طرف رانا ثناء اللہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ پانچ ارکان ادھر ادھر ہو جائیں تو قصہ ختم۔

ملکی معیشت پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ پی ڈی ایم اپنی امپورٹڈ حکومت بچانے میں لگے ہوئی ہے۔ پچھلے دو دنوں میں ڈالر میں آٹھ روپے اضافہ ہوا۔ نظر آ رہا ہے اشرافیہ اپنے ذخیرہ کیے ہوئے ڈالر دھڑا دھڑ بیچ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے وعدوں کے مطابق پیٹرول پر لیوی کی وصولی کو یقینی بنانا ہو گا۔ عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اپنے وزیروں اور شاہانہ اخراجات کو کم کرے۔ کوئی سامان باہر سے نہ منگوائیں۔ ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے اور حکمران اشرافیہ اپنا طرز زندگی بدلنے کو تیار نہیں۔ اشرافیہ کو نہ تو کبھی اس وطن اور نہ اس کی کرنسی پر اعتماد رہا۔ آصف زرداری کا بس ایک ہی خواب ہے۔ اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانے کا اس کے لیے خواہ اسے ملک بیچنا ہی کیوں نہ پڑے۔ عوام کے لیے ایک سوال چھوڑے جا رہی ہوں کیا آپ اسے قبول کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments